جنرل امجد شعیب

82

جنرل امجد شعیب پر بات چلے گی تو فوج پر بھی بات ضروری ہے، بات وہیں سے شروع کرنا ہو گی کہ فوج کیCONTRUCTIONکیسے ہوتی ہے چونکہ بات جنرل شعیب امجد کی ہورہی ہے تو یہی دیکھنا ہو گا کہ فوج میں افسران کی بھرتی کیسے ہوتی ہے، امجد شعیب اس وقت 80سال کے ہو چکے ہیں اس کا مطلب ہے کہ وہ فوج میں ساٹھ سال قبل گئے ہونگے، گویا پچھلی صدی کی ساٹھ کی دہائی میں جنرل امجد شعیب نے شمولیت اختیار کی ہو گی، شارٹ کورس یا لانگ کورس کیا ہو گا اس وقت نوجوان ایف اے پاس کر کے فوج میں چلے جاتے تھے TRAININGکے بعد موصوف SECOND LIEUTENENTہونگے جب 1965 کی جنگ ہوئی، امجد شعیب نے ساری جوانی ایوب آمریت کے زیر سایہ گزاری جنرل ضیا الحق کی آمریت کے دوران وہ شائد کپتان ہونگے اور ظاہر ہے کہ ضیا کے فلسفۂ جہاد سے بھی متفق ہونگے، مجاہدین کو تربیت بھی دی ہو گی افغان جنگ کا حصہ بھی رہے ہونگے اور پھر مجاہدین کو اپنی آنکھوں سے دہشت گرد ہوتے بھی دیکھا ہو گا، کسے خبر کے امجد شعیب جنرل حمید گل کے فلسفے سے بھی متفق ہوں وہ آمریتوں میں فوج کا اہم پرزہ رہنے والا شخص امجد شعیب ہے جس کی BRAIN WASHINGاس دوران ہو چکی تھی، شاید یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کہ قیام پاکستان کے بعد پاکستانی فوج کے INFORMATION CORPکو اہل قلم کی خدمات درکار تھیں تو فیض احمد فیض، ضمیر جعفری، چراغ حسن حسرت کے علاوہ بے شمار ادیبوں اور شاعروں کو راتوں رات میجر اور کرنل کی وردی پہنا دی گئی، سوائے فیض کے دیگر اہل قلم جو فوج سے وابستہ تھے وہ عمر بھر فوج کا دفاع کرتے رہے، میجر ضمیر جعفری کا نیویارک آنا جانا لگا رہا، ان سے بے شمار ملاقاتیں رہیں اس وقت ہم ضیاء آمریت کے خلاف لکھ رہے تھے مگر ضمیر جعفری مرحوم ہمیں سمجھاتے تھے کہ فوج درست کہتی ہے، ان کے صاحبزادے جنرل احتشام ضمیر نے ہی پاکستانی سیاست کی سمت درست کرنے کے لئے ایک بلدیاتی نظام کا خاکہ ترتیب دیا تھا، یہ بات کس کو نہیں معلوم کہ ملک میں پنتیس سال آمریت رہی اور تمام سول حکومتیں فوج کے جوتے کے نیچے۔ کیا انتظامیہ، کیا عدلیہ اور کیا بیوروکریسی، میڈیابھی فوج کے بوٹوں کے فیتے باندھتا رہا اور پھر فوج نے اپنے کچھ vocal senior officers کو میڈیا میں شامل کر دیا، فوج کا اثر و رسوخ اس قدر زیادہ تھا کہ فوج سے بات کرنے کے لئے ہر سیاسی جماعت نے ایک جنرل اپنی جماعت میں رکھ لیا، پی پی پی کے جنرل نصیر اللہ بابر، مسلم لیگ کے جنرل عبدالقیوم کچھ اور لولےلنگڑے جنرلزبھی دیگر جماعتوں میں تھے جمعیت العلمائے پاکستان میں بھی ایک جنرل تھا جو کھڑے ہو کر سلام پڑھا کرتا تھا، آج کل جنرل اعوان، جنرل امجد شعیب ، بریگیڈیئر حارث زیادہ نمایاں ہیں اور سب کے سب دفاعی تجزیہ کار، ان سب کا جنرلزم سے کوئی تعلق نہیں، بس اتنا کہ یہ لوگ vocal ہیں بات کر سکتے ہیں مگر بھلا مجال کہ فوج اور آمریت کے بارے میں ایک لفظ کہہ دیں، نیویارک میں ہمارے محترم دوست کرنل مقبول صاحب ہیں وہ ضرور کہتے ہیں کہ وہ جمہوریت پسند ہیں، مجھے دفاعی تجزیہ کار کی ٹرم ہی نہیں آتی، ہمیشہ ایسا ہی لگا کہ یہ سارے جنرل یا دیگر فوجی افسران ٹاک شوز میں بیٹھے رہتے ہیں ان کا سیاست پر کچھ اخباری مطالعہ ہے اور یہ فوج کے دفاع کے لئے ٹاک شوز میں آتے ہیں اور امجد شعیب ان سے مختلف نہیں۔
امجد شعیب عمران خان کے بڑے حامی ہیں ریٹائرڈ افسران سارے کے سارے ہی عمران خان کے حامی ہیں، جنرل علی قلی کی قیادت میں ان افسران نے اسلام آباد میں عمران کی حمایت میں ایک پریس کانفرنس بھی کی تھی، پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے اور اب یہ بات سامنے آچکی ہے کہ فوج کے جنرلز نے ایک منصوبے کے تحت عمران کو پلانٹ کیا جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید اس منصوبے کے سرکردہ کردار تھے، اس کے پیچھے منصوبہ یہ تھا کہ افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد طالبان کو استعمال کر کے بھارت کو پریشان کرنا ہے، عمران کو اس کام کے لئے برین واش کیا گیا اور استعمال کیا گیا، امجد شعیب جو ٹاک شوز میں باتیں کر کے شاطر بھی ہو گئے ہیں انہوں نے ایک سچے سیاسی تجزیہ کار کے طور پر ایک فوجی کی حیثیت سے تو بات کی مگر ایک محب وطن صحافی کی حیثیت میں بات نہیں کی، ہم لکھتے رہے ہیں کہ میڈیا ملک کے اصل مسائل اجاگر کر ہی نہیں رہا، امجد شعیب کو یہ بتانا چاہیے کہ وہ کیا حالات تھے جن کی بنا پر فوج نےسیاسی مداخلت سے توبہ کی، کیاامجد شعیب ایوب آمریت پر شرمندہ ہیں کیا وہ ضیا اورمشرف کو condemn کرنے کےلئے تیار ہیں، کیا امجد شعیب اس بات سے خوش ہیں کہ راحیل شریف آئین کو توڑنے والے ایک مجرم جنرل مشرف کوعدالت سے نکال کر لے گیا، جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید اگر عمران کو لا کر پاکستان کی معیشت سدھار دیتے تب بھی صبر آجاتا مگر عمران یا ان ایف اے پاس جنرلز کے ان منصوبوں کی حمایت کون کرے گا کہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانا ہے یا پاکستان کو افغانستان بنانا ہے ہم بہت انکساری سے یہ بھی سوال اٹھاتے رہے ہیں کہ ہمیں یہ بتا دیا جائے کہ ریاست مدینہ کب، کہاں اور کس ملک میں بنی، اب نہیں بنی اور کبھی نہیں بنی تو عوام کو کیوں دھوکہ دیا جارہا ہے امجد شعیب کی اس بات پر خاموشی مجرمانہ فعل ہے عمران کی حمایت کس بنا پر، عمران کے وہ keyboard warriorsمیں عمران ریاض کی اتنی حمایت کیوں، کیا عمران ریاض اور اقرار الحسن جس صحافتی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہیں ان کی حمایت کیوں، اس بات سے صرف نظر کیوں کہ پاکستان کے میڈیا ہائوسز نے کتے اور بھیڑئیے پال رکھے ہیں، ہم نیویارک میں رہتے ہیں جہاں انصاف ہوتا ہوا نظر آتا ہے اس شہر میں ایک نوے سال کی عورت کو ہتھکڑیاں لگتے ہوئے دیکھا ہے جو ایک عرصے سے کسی مجرم میں مطلوب تھی مگر امجد شعیب کی گرفتاری پر ہاہاکار کہ بزرگ فوجی ہے قانون عمر نہیں دیکھتا کیا ان بزرگ ایف اے پاس فوجی جنرلز کو نہیں پتہ کہ دنیا میں صحافتی زبان کیا ہے شرافت اور شائستگی کیا ہوتی ہے ان بوڑھے طوطوں نے نہیں سیکھا کہ بات کیسے کہنی ہے ان سابق جنرلز کا طرۂ امیتازبس یہی ہے کہ یہ انگلش بولنا سیکھ گئے ہیں یا وردی میں فرعون بنے رہے ہیں،امریکہ میں ریگن کے دور میں ایک چلبلا فوجی oliver north نے سیاست میں آنے کی کوشش کی تھی مگر میڈیا میں grilling نے چھٹی کا دودھ یاد کرادیا، وہ سارے فوجی جنرلز جو اب قبر میں پائوں لٹکائے بیٹھے ہیں کم از کم قوم سے معافی مانگ لیں کہ انہوں نے قوم کا خون پیا ہے سوشل میڈیاپر آنے کے لئے نہ تو کسی تعلیم کی ضرورت ہے اور نہ کسی تربیت کی لہٰذا کسی کو بھی سوشل میڈیا پر کفر بکنے کی اجازت ہو گی مگر پاکستان کے میڈیا پر لکھنے اور کہنے کے لئے بھی کسی اہلیت کی ضرورت نہیں۔