بات اگر صرف سوشل میڈیا کی حد تک ہی رہتی تو کہا جاسکتا تھا کہ بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیبِ داستاں کیلئے لیکن اب تو باہر کی دنیا میں بھی وہ حلقے جو پاکستان کے معاملات میں سنجیدہ اور محتاط رویہ رکھتے ہیں اور حالات کا منطقی تجزیہ کرنے کے عادی ہیں یہ کہنے لگے ہیں کہ پاکستان میں گذشتہ دس گیارہ مہینے سے جو ہورہا ہے اسے دیکھتے ہوئے حیرت ہوتی ہے کہ ایک ایسا ملک جس کے پاس جوہری اثاثے ہیں، دنیا کی پانچویں بڑی فوج ہے وہ کیسے اس طرح کی حرکتیں کرسکتا ہے جو شاید ایک ‘بنانا’ ری پبلک’ کو بھی زیب نہیں دیتیں۔ جہاں تک اس ریاستی ادارہ کا تعلق ہے جسے پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے عنوان سے جانا جاتا ہے تو اس کے اعمال دیکھتے ہوئے یہ یقین کامل ہوجاتا ہے کہ اس کے رویے میں حالات کی سنگینی نے کوئی اثر مرتب نہیں کیا اوراسکی قیادت کی آنکھیں تا حال کھلنے کا نام نہیں لے رہیں۔ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے غدار اور ملت فروش جنرل قمر باجوہ کو فوج کی کمان چھوڑے ہوئے آج پورے تین مہینے ہوچکے لیکن ان کے جانشین آنکھ بند کرکے ان کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیںاور باجوہ، غدارِ وطن و ملت، کی باقیات آج بھی پاکستان کو اپنی مفتوحہ املاک سمجھ کر اس کے ساتھ وہی رویہ اپنائے ہوئے ہیں جو ایک فاتح فوج مفتوحہ عوام کے ساتھ روا رکھتی ہے۔ شرم آتی ہے یہ کہتے ہوئے کہ جو رویہ اسرائیل کی قابض فوج کا مقبوضہ فلسطین کے بیکس و مجبور عوام کے ساتھ ہے من و عن، بلکہ اس سے بھی دو ہاتھ آگے، وہی رویہ اور سلوک باجوہ کی باقیات کا پاکستانی عوام کے ساتھ ہے۔ یہ خناس ہمارے بدمست اور غریقِ مئے پندار جرنیلوں کا آج کا نہیں بلکہ پاکستان کی تاسیس کے وقت سے چلا آرہا ہے کہ پاکستان کے اصل محب اور وفادار وہ اور صرف وہ ہیں لہٰذا ان کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ پاکستان سے وفاداری یا بیوفائی ‘ جسے وہ اپنی اصطلاح میں غداری کہتے ہیں، کی سند جسے چاہیں عطا کریں اور جو ان کے معیار پہ پورا نہیں اترتا اسکے ساتھ وہ سلوک کریں جو ملک دشمنوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یہ تاریخی بدنصیبی ہے پاکستان کی کہ سرد جنگ کے آغاز میں جب امریکہ اپنے لئے اتحادی تلاش کررہا تھا اور اپنی طرف نو آزاد ملکوں کو راغب کرنے کیلئے وہ داد و دہش سے کام لے رہا تھا اس دور میں ہندوستان کی بیدار مغز قیادت نے اپنے لئے امریکی امداد کے طور پر اعلیٰ تعلیم کی درسگاہوں کے قیام کو اپنے ملک میں قائم کرنے کے حق میں فیصلہ دیا لیکن ہماری عسکری قیادت نے پاکستان کی سلامتی کا ہوا کھڑا کرکے اور پاکستان خطرہ میں ہے کا واویلا مچا کے امریکہ سے اسلحہ لینے کو پالیسی کے طور پہ اپنایا کیونکہ ایک مضبوط فوج، کیل کانٹے سے لیس ہی جرنیلوں کو ملک کے بے تاج بادشاہ بنوا سکتی تھی اور پھر یہی ہوا کہ یکے بعد دیگرے، ہر دس سال کے بعد ایک سے بڑھ کر ایک طالع آزما اور آمر ملک خطرے میں ہے کا نعرہ لگا کر اقتدار پر قابض ہوگیا اور پاکستان میں جمہوریت کی گاڑی کے کبھی پہیے ہی نہیں لگ سکے جو وہ کامرانی اور کامیابی کی منزل کی طرف اپنا سفر جاری رکھ سکتی۔
عسکری طالع آزما چونکہ غیر قانونی اور غیر آئینی عمل کے ذریعہ اقتدار پہ قابض ہوتے تھے لہٰذا ملک کے آئین کی ان کی نظروں میں دو کوڑی کی قیمت بھی نہیں تھی۔ جنرل مشرف نے تو کمال بے حیائی سے یہ فرما بھی دیا تھا کہ آئین تو کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے جسے وہ فرعون ساماں جب چاہیں ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتے تھے۔ ایوب سے پرویز مشرف تک ہر خاکی وردی والے فرعون نے آئین کی دھجیاں بکھیریں لیکن کمال یہ ہے، بلکہ اس قوم پر دائمی لعنت تو یہ بدعت بنی رہی ہے ،کہ ہر طالع آزما، ہر فرعون کی پشت پناہی کرنے والا ریاست کا وہ ستون بنا رہا جسے عدلیہ کے باوقار نام سے جانا جاتا ہے۔ پاکستان کی فی زمانہ جو دنیا میں پگڑی اچھل رہی ہے اس میں ملک کو تضحیک کا نشانہ بنانے میں فوج کے طالع آزما جرنیلوں کے ساتھ ساتھ ہماری اعلا عدلیہ کا بھی بہت گھناؤنا کردار رہا ہے اور ڈوب مرنے کی بات یہ ہے کہ جیسے جرنیلوں کا طاقت کا نشہ ٹوٹنے میں نہیں آتا اسی طرح عدلیہ کا جرنیلوں اور طالع آزماؤں کو قانون کا عملی تعاون فراہم کرنے کا قبیح فعل بھی آج تک کم ہوتا دکھائی نہیں دیا۔ کمال کا گٹھ جوڑ ہے بدمست جرنیلوں اور اپنی آنکھوں پر دنیاوی غرض اور ہوس کی سیاہ پٹی باندھے ہوئے کور چشم منصفوں یا عام اصطلاح میں ججوں کا۔ ہمیں تو اکثر یہ شبہ ہونے لگتا ہے کہ پاکستان کا منظر نامہ اس نوٹنکی جیسا ہے کے اداکار اپنے کرتب دکھانے کیلئے ناظرین کے سامنے اول جلول اور اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے ہیں لیکن اتنے بے حس اور بے غیرت ہیں کہ یہ سمجھ ہی نہیں سکتے کہ دیکھنے والے ان کی حماقتوں پر آنسو بہا رہے ہیں جسے وہ ہنسی ٹھٹہ سمجھ رہے ہیں۔ آئین کے منہ بولے محافظ ہر ایک سے زیادہ اس آئین کی بے حرمتی کررہے ہیں جس کی حفاظت کا وہ حلف اٹھا چکے ہیں۔ انتہا ہے کہ ملک سے مفرور، سزا یافتہ مجرم، نواز شریف کی بد زبان اور بے لگام بیٹی سر عام فحش کلمات سے عدالت عالیہ کے معزز جج صاحبان کا ان القاب سے نواز رہی ہے جو کسی واقعی شریف اور خاندانی خاتون کے منہ سے ادا ہو ہی نہیں سکتے۔ وہ عدالتِ عالیہ کے ججوں کو ذلت آمیز القابات دے رہی ہے، بلا کم و کاست یہ کہہ رہی ہے کہ وہ بد دیانت ہیں، کرپٹ ہیں، جانبدار ہیں اور انہیں عدالتِ عالیہ کی بنچ پر نہیں بیٹھنا چاہئے لیکن عدالت عالیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ حیرت ہوتی ہے کہ کیا یہ وہی عدالت ہے جو عمران دور کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو، جسے آئین کی رو سے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا، غیر آئینی قرار دینے کیلئے نصف شب کو کھل گئی تھی؟ کیا یہ وہی عدالت ہے جس نے عمران خان کو مجبور کیا تھا کہ وہ اس نچلی عدالت کی خاتون جج سے معافی مانگے جس نے تشدد کے ثبوت شہباز گل کے بدن پر دیکھنے کے باوجود اس کا جسمانی ریمانڈ ایذا رساں ظالموں کو دے دیا تھا اسلئے کہ وہ خاتون جرنیلوں سے مرعوب تھی اور ملت فروش باجوہ کے احکام کی پابند؟ عمران کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے خاتون جج کا احتساب کرنے کی دھمکی دی تھی؟ اب عدالتِ عالیہ آئین کی پاسدار بننے کا ناٹک رچا رہی ہے لیکن اس کے تاحال رویوں اور فیصلوں کے پیشِ نظر یہ کہنا بعید از قیاس نہیں ہے کہ وہ اس ڈرامے میں بھی پاکستان کے عوام کو مایوس کرے گی اسلئے کہ ہمارے ہاں آج تک وہی ہوتا آیا ہے جس کیلئے بنانا ری پبلک بدنام تھی کہ جج اپنا فیصلہ ایوانِ طاقت و اقتدار کے چشم و ابرو کی جنبش کو دیکھ کر دیتا ہے نہ کہ انصاف کے تقاضوں پر۔ لیکن ہمیں حیرت عمران خان اور ان کی تحریکِ انصاف کی قیادت کے حالیہ فیصلوں پر بھی اتنی ہی ہے جتنی جرنیلوں کی مسلسل ریشہ دوانیوں اور کٹھ پتلی عدالتِ انصاف پر۔ یوں لگتا ہے کہ عمران کے فیصلوں پر جذبات حاوی آتے جارہے ہیں اور عقل و دانش ایک یتیم و یسیر بچے کی طرح حیران و پریشان ایک کونے میں کھڑے ٹک ٹک سب دیکھ رہا ہے اور جو دیکھ رہا ہے اس پر خاموشی سے ماتم کررہا ہے۔ پہلی حماقت پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی اسمبلیوں کو تحلیل کرنا تھی جس سے ملک دشمن پی ڈی ایم، جسے پاکستان کا بچہ بچہ چور اور طاغوتی طاقتوں کا گماشتہ گردانتا ہے، کو ان دونوں صوبوں پر چور اور ڈاکو مسلط کرنے کا اختیار مل گیا ۔ اب واویلا کرنا بے سود ہے۔ ظالم تو ظلم کرے گا ہی کہ اس کی سرشت میں ظلم کرنا ٹہرا۔ آپ نے اپنے ہاتھ پیر کاٹ کر کیوں خود کو تر نوالہ کی طرح دشمنوں کی جھولی میں ڈالا۔ ہے کوئی اس کا معقول اور منطقی استدلال کیا خیال تھا آپ کا کہ اس طرح وہ ملت فروش ، جن کا ایجنڈا ان کے بدیسی آقاؤں نے لکھا ہے اور جس کا ہدف پاکستان کوکنگال کرکے سامراجی طاقتوں کی گود میں پھینک دینا ہے، آپ پر اور ملک و قوم پر مہربان ہوجائینگے اور آپ کے مطالبہ پر آمنا و صدقنا کہتے ہوئے فورا” عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کردینگے؟ اگر آپ کی فہم و فراست یہ کہتی تھی تو پھر آپ مان لیجئے کہ پاکستان جیسے بے ایمان اور غیر جمہوری معاشرے کی نبض پر آپ کی انگلی کہیں دور دور بھی نہیں ہے۔ دوسری حماقت اور بھی کم عقلی پر دلالت کر رہی ہے۔ یہ جیل بھرو تحریک ایک جذبات ابھارنے والا دلکش نعرہ تو ہوسکتا ہے لیکن اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ حماقت کی انتہا تو یہ ہے کہ ٹیلیوژن پر تصویریں کھنچوانے اور کارکنان سے بلند و بانگ نعرے لگوانے کیلئے تو یہ درست تھا کہ پارٹی کے چیدہ چیدہ لیڈر پولیس کی گاڑی میں بیٹھ کر حولات کو سدھار گئے لیکن میاں بغیر قیادت کے کارکنان کس کے پیچھے چلیںگے اور کون ان کی رہنمائی کرےگا؟ مزے کی بات ، بلکہ اپنی تضحیک کروانے والی بات، یہ ہے کہ ایک دن رضاکارانہ گرفتاری دی لیکن اس سے اگلے ہی روز سے عدالتوں کے آگے پیچھے دوڑنے لگے کہ رہائی دلوائی جائے۔ اے میاں، رہائی چاہئے تھی تو خود کو گرفتاری کیلئے کیوں پیش کیا تھا؟ فرنگی راج کے خلاف جب مزاحمت کا دور تھا اور تحریک آزادی اپنے عروج کی طرف گامزن تھی تو غیر منقسم ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے لاکھوں کارکنان برسوں جیلوں میں رہے تھے، گاندھی جی نے کل ملا کے سات برس فرنگی راج کی جیلوں میں گذارے تھے، پنڈت نہرو نو برس جیل میں رہے لیکن مجال ہو جو کسی رہنما یا کارکن نے حکومتِ وقت سے رہائی کی بھیک مانگی ہو۔ اس کے برعکس ہماری تحریکِ انصاف انوکھی تاریخ لکھنا چاہ رہی ہے کہ خود پابندِ سلاسل ہوئے اور خود ہی واویلا شروع کردیا کہ رہا کرو۔ جو اپنے پر خود ہی قینچ کرلے پھر نئے پر کیسے گھڑی کی چوتھائی میں حاصل کرنے دعا مانگ سکتا ہے؟ اسی لئے تو ہم یہ کہنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ سب کچھ یوں لگتا ہے جیسے نوٹنکی دیکھ رہے ہوں۔ ایک طرف ملت فروشوں اور انصاف بیچنے والوں کے پروردہ وہ ڈکیت ہیں جنہیں مسندِ اقتدار تحفہ سمجھ کر سونپ دی گئی ہے اور وہ وہی کچھ کررہے ہیں جو وہ بندر کرتا ہے جس کے ہاتھ ادرک لگ جائے۔ دوسری طرف ایسے جذباتی لوگ ہیں جو کنوئیں میں چھلانگ پہلے لگادیتے ہیں اور پھر یہ سوچتے ہیں کہ اس سے نکلا کیسے جائے۔ اس عالم میں بیچارے عوام ہمدردی کے مستحق ہیں جو اپنے ایک طرف کھائی اور دوسری سمت کنواں دیکھ رہے ہیں۔ سوال ان کیلئے یہ ہے کہ وہ کہاں جائیں؟ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں؟؟؟؟؟
Prev Post