وہ قتل بھی کرتے ہیں، تو چرچا نہیں ہوتا!

69

مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ خود کشی حرام ہے۔ اپنی جان لینا ایک نا جائز حرکت ہے۔ لیکن مسلمان، خصوصاً پاکستانی مسلمان کہاں قرآن پڑھتے ہیں؟ اگر پڑھتے ہیں تو سمجھتے نہیں۔ اگر سمجھ بھی لیں تو اس پر عمل کرنا تو دور کی بات ہے۔ لیکن جب معاملات اس حد تک پہنچ جائیں کہ کوئی شخص اپنی جان لینے میں ہی اپنی تکلیف سے چھٹکارا سمجھے ، تو اسے پھر مذہبی احکامات کی پرواہ کہاں ہو گی؟ پاکستان میں ہر سال بیس ہزار سے اوپر لوگ خود کشی کرتے ہیں۔ یہ خود کشی کی شرح دنیا بھر کے ملکوں کی اوسط سے زیادہ بتائی گئی ہے۔ پاکستان میں مرد ،عورتوں کی نسبت زیادہ خود کشی کرتے ہیں۔ مثلاً سن ۲۰۱۹ء میں جو خود کشیاں ہوئیں، ان میں 4.30 فیصد عورتیں تھیں اور 13.3 فیصد مرد۔خود کشی کی وجوہات بہت سی ہیں۔ لیکن سب کا تعلق معاشرتی حالات سے جڑا لگتا ہے۔ یعنی معاشرے کی بے حسی ۔
پاکستان میں کل ملا کر ہر سال تقریباً پندرہ لاکھ ستر ہزار اموات ہوتی ہیں ۔ ان میں ،پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق ستر فی صد کے لگ بھگ اموات ایسی وجہ سے ہوتی ہیں جو کہ روکی جا سکتی ہیں۔ عا لمی ادارہ برائے صحت کے اعداد و شمار کے مطابق چھ لاکھ ستائیس ہزار یعنی ۴۰ فیصد اموات دل کے عارضے سے ہوتی ہیں۔ 2 لاکھ ۵۴ ہزار یعنی ۱۳ فیصد سانس کی بیماریوں سے، اور دس فیصد دوران خون بند ہونے کی وجہ سے جسے stroke کہتے ہیں۔ تقریباً ایک لاکھ اٹھائیس ہزار اموات اسہال کی وجہ سے جن میں نو زایئدہ اور کم عمر بچے وفات پا جاتے ہیں۔ ۶ فیصدتپ دق سے مرے۔ تقریباً اسی ہزار ( پانچ فیصد) بچے زچگی میں اورنو زائیدہ فوت ہوئے۔ 62,560 اموات ٹریفک کے حادثات میں ہوئیں۔ اور چھ فیصد گردوں اورتلی کی بیماریوں سے ۔یہ تمام اموات کل اموات کا تقریباً تین چوتھائی ہیں۔باقی کی ایک چوتھائی اموات میں ایڈز ، سرطان اور ملیریا کی وجہ سے ہونے والی اموات شامل ہیں۔ غیر ضروری اموات کیوں ہوتی ہیں؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً: ۱۔ علاج معالجہ کی سہولیات کا فقدان۔پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد کو بنیادی صحت کی سہولتوں تک رسائی نہیں۔ جیسے حفاظتی ٹیکوں اور باقاعدہ معائنہ کی سہولت۔ اس کی وجہ سے ایسی بیماریاں جن کا سد باب کیا جا سکتا ہے ان کی نشاندہی نہیں ہوتی۔اور ان کا علاج نہیں ہوتا۔ جن سے اموات واقع ہو تی ہیں۔ ۲۔ حفظان صحت اور صفائی کی کمی۔ناکافی حفظان صحت اور صفائی کی وجہ سے کتنی ہی قابل سد با ب بیماریاں پھیلتی ہیں جیسے اسہال کی بیماریاں اور تپ دق۔ صاف پینے کے پانی تک رسائی نہ ہونا، گندے پانی کے مناسب اخراج کے نظام کانہ ہونا، اور ہاتھ دھونے کی ناقص عادات ، سب مل کر ان بیماریوں کا سبب بنتی ہیں۔ ۳۔ صحت عامہ کی بہتری کی نا کافی یا ناکام کوششیں۔ پاکستان کو صحت عامہ کے شعبہ میں بہت سے چیلنجز کا سابقہ ہے، جن میں متعدی بیماریوں کی بڑھی ہوئی شرح، غذائیت کی کمی، اور غیر متعدی بیماریاں شامل ہیں۔ اگرچہ حکومت نے صحت عامہ کی بہتری کے لیے اقدامات لیے ہیں، لیکن محدود ذرائع، اور دوسری ترجیحات کی وجہ سے ایک دیر پا اور موثر نظام لانا دشوار ہے۔
۴۔ محدود تعلیم اورآگاہی۔ پاکستان کی ایک کثیر آبادی بہت کم تعلیم یافتہ ہے۔ان میں صحت کے بنیادی اصولوں سے آگاہی کی بھی کمی ہے، جیسے ہاتھ دھونے کی ضرورت ، متوازن غذا کی ضرورت اور با قاعدہ ورزش کی ضرورت۔ اس سے غیر صحتمندانہ حرکات جنم لیتی ہیںاور ان سے قابل انسداد بیماریاں اور بے وقت کی اموات ہو تی ہیں۔ ۵۔ اقتصادی اور معاشرتی عوامل۔غربت، بیروزگاری، اور سماجی تفریق سب ملکر صحت کی خرابی، اور قبل از وقت اموات کا باعث بنتی ہیں۔ اگر افلاس زدہ لوگ کو صحت کی بنیادی سہولتیں میسر نہ ہوں ، اور صحت مند غذا کے امکانا ت بھی نہ ہوں، تو قابل انسداد اموات اور قبل از وقت اموات کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ صاحبو! ان بہت سی اموات کا ذمہ وار معاشرہ ہے۔ دوسرے ملکوں میں حکوت سے زیادہ رفاہی سماجی ادارے خود کشی کرنے والوں کو متوجہ کرتے ہیں، بذریعہ ٹیلیفون اور براہ راست اپنے مراکز کے ذریعے۔ ان کی بپتا سنتے ہیں، اور جہاں تک ممکن ہو ان کی مدد کرتے ہیں۔ ایسے لوگ جو معاشی حالات، تنگدسی، اور بڑے کنبہ کو دو وقت کی روٹی نہیں دے سکتے وہ تنگ آ کر خود کشی کرلیتے ہیں اور کچھ اپنے کنبہ کو بھی ہلاک کر دیتے ہیں۔ ایسی خود کشیاں بر وقت امداد سے روکی جا سکتی ہیں۔پاکستان میں ما سوائے چند کے ایسے ادارے ہی فعال نہیں جو ان بے چاروں کی سنیں اور ان کے دکھوں کا مداوا کریں۔یہ سوچ کر اور بھی دکھ ہوتا ہے کہ ملک میں ہزاروں نو جوان لڑکے اور لڑکیاں تعلیم یافتہ ہیں اور بے روزگار ہیں جنہیں تھوڑی سی تربیت دیکر خود کشی کرنے والوں کی مشاورت پر تیار کیا جا سکتا ہے۔ لیکن کیوں اور کیسے؟ اب پاکستان میڈیکل ایسو سی ایشن کے بیان پر غور کریں کہ ستر فیصد اموات قابل انسداد ہوتی ہیں۔ اگر معاشرہ ان اموات کے انسداد کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھاتا تو اس کا مطلب صاف ظاہر ہے، کہ وہ ان اموات کا ذمہ وار ہے۔ان اموات کی وجوہات کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: اول وہ جو حکومتی بے توجہی اور نا اہلی کی وجہ سے سہولتیں نہ پہنچانے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ان کا تناسب لازماً زیادہ ہو گا۔ دوم وہ اموات جو لوگوں کی اپنی وجہ سے ہوتی ہیں، جیسے نشہ کرنے سے، لا پرواہی سے (خصوصاً ٹریفک میں)، سگریٹ نوشی سے، غیر متوازن اور خوش خوراکی سے، جس کی وجہ سے اکثر دل سے متعلق جا ن لیوا بیماریاں ہوتی ہیں۔ اور تیسری قسم کی وجوہات وہ ہیں جن پر مرنے والوں کا کوئی قصور نہیں ہوتا بلکہ وہ ایسے حالات میں پھنس جاتے ہیں کہ جن سے فرار ممکن نہیں ہوتا، اور دوسرے انکی موت کا سبب بنتے ہیں۔ جیسے نشہ کرنے والے، غیر لائسنس یافتہ بس ڈرائیور، یا بھتہ خوروں کی لگائی آگ میں جلنے والے، یا ان کی گولیوں کا نشانہ بننے والے، معصوم راہ گیر جو بد قسمتی سے گولیوں کی زد میں آ جاتے ہیں۔اصل میں ان میں سے بھی کئی بچ سکتے ہیں اگر حکام اپنا فرض ایمانداری سے ادا کریں تو۔ اب پہلی قسم کی وجوہات پر غور کریں جو حکومت نا اہلی اور بے توجہی سے ہوتی ہیں، اور ان کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ جب صحت عامہ کی سہولیات نہیں ہوتیں یا فعال نہیں ہوتیں تو یہ حکومت کا قصور ہے۔ جب سڑکوں پر غیر لائسنس یافتہ اور نشئی لوگ بسیں، ٹرک،ٹرالیاں چلاتے ہیں تو بلا شبہ ذ مہ وار حکومت ہے۔ جب سگریٹ نوشی پر پابندی نہیں لگائی جاتی، گٹکا، تمباکو والا پان، کے خلاف آگاہی کی مہم نہیں چلائی جاتی تو ذمہ وار حکومت ہے۔جب عوام کو بغیر لائسنس کے گاڑی چلانے کے نقصانات اور سزائوں سے آگاہ نہیں کیا جاتا تو یہ حکومت کی لا پرواہی ہی نہیں، حکومت ٹریفک میں ہونے والے حادثات کی بالواسطہ ذ مہ وار ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو دل کے عارضوں سے جاں بحق ہوتے ہیں، جو سرطان، ذیا بیطس، ملیریا جیسی قابل انسداد بیماریوں سے ہلاک ہوتے ہیں، اس کے وہ بھی ذمہ وار ہیں اور حکومت بھی جو ان کو ان عارضوں سے بچنے کے طریقوں سے آ گاہ نہیں کرتی۔ دنیا کی ترقی یافتہ اقوام میں صحت مند زندگی گزارنے کے لیے پرہیزی طریقوں اور دوا دارو پرآگاہی دینے کے لیے مہمات چلائی جاتی ہیں۔ ان مہمات کو چلانے والے ماہرین کو ہیلتھ ایجوکیٹرز کہتے ہیں۔یہ ماہرین تحقیق کرتے ہیں کہ کن خصوصیات کے حامل لوگوں کو کس قسم کی معلومات دینی چاہییں؟ اور ان معلومات کی موثر فراہمی کن ذرائع سے ہو سکتی ہے۔ اس سارے عمل کے لیے با قاعدہ منصوبہ سازی کی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی عا لمی ادارہ صحت اور دیگر مخیٔر ممالک کے کہنے پر ہر ضلع میں ہیلتھ ایجو کیٹز تعینات کیے گئے۔ لیکن وہ محض ایک علا متی پوزیشن بھرنے کے اور کچھ کم ہی کرتے ہیں۔ نہ ان کے پاس کوئی بجٹ ہوتا ہے اور نہ دوسرے وسائل۔ اور سچ پوچھیں تو ان کے نگران جو میڈیکل ڈاکٹر ہوتے ہیں، وہ ان سے مہنگے کلرکوں کا کام لیتے ہیں۔کہتے ہیں کہ میڈیکل ڈاکٹروں کو ڈر ہے کہ اگر عوام خود پرہیز کرنے لگ پڑے تو ان کی دوکانداری پھیکی پڑ جائے گی۔اس لیے صحت کے اصولوں پر آ گاہی کی مہمیں چلانے کا کیا فائدہ۔ ایک ہیلتھ ایجوکیٹر نے راقم کو بتایا کہ اس کام کے لیے تھوڑا سابجٹ ہوتا ہے جسے بڑے صاحب چائے اور سموسوں پر خرچ کرتے ہیں۔
اول تو حکومت پاکستان صحت پراتنا کم خرچ کرتی ہے کہ عقل دنگ رہ جائے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان نے سن ۲۰۱۷ء میں ملک کی مجموعی پیداوار (GDP) کا ۹۳ خرچ کیا۔ اس میں اسی سال حکومت کا خرچ صرف ۔۰۹فیصد تھا۔ اور ۶۸۷ فیصد لوگوں نے اپنی جیب سے خرچ کیا۔ادارے کا کہنا ہے کہ ان مدوں پر صحیح اعداد و شمار نہیں ملتے۔ حکومت نے آویں ٹاویں کچھ پروگرام چلا رکھے ہیں، اور کچھ بیماریوں کی روک تھام پر آگاہی کی مہم بازی بھی کی جاتی ہے۔ (راقم کے خیال میں یہ مہم بازی ماس میڈیا پر کی جاتی ہے کیونکہ وہاں سے کارکنوں اور افسر شاہی کو خاصے کِک بیک یعنی کمیشن ملتے ہیں)۔ اور ایسے پروگرام تب ہی شروع کیے جاتے ہیں جب بیرونی امداد ملے۔
جمیلہ اچکزئی کی رپورٹ کے مطابق ، پاکستان کے سرکاری ادارے نے بتایا کہ 2020-21 میںپاکستان نے جی ڈی پی کا ۲ء۱ فیصد صحت پر خرچ کیا، جب کہ عالمی ادارہ صحت پانچ فیصد کی سفارش کرتا ہے۔یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ رقم عمل کی تنخواہوں، اور علاج معالجہ پر خرچ کی جاتی ہے اور شاید کوئی حصہ پرہیز (prevention) اور صحت عامہ(public health) کے شعبوں پر خرچ ہوا ہو۔یہ وہ زمانہ تھا جب عمران خان کی حکومت تھی ۔ اسی دور میں کووڈ کی وبا نے پاکستان میں نزول کیا جس کی وجہ سے حکومت کو ۷۰ بلین روپے لگانے پڑے۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ پاکستان دوسرے ایشیائے ممالک کے لحاظ سے بوقت پیدائش توقع حیات سب سے اونچی ہے۔ البتہ نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح، پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات اور آبادی میں اضافے کی شرح سب سے اوپر ہیں۔ ملک میں غذائیت میں کمی بہت زیادہ رہی۔پانچ برس سے کم عمر کے چالیس فیصد بچے پستہ قد ی کا شکار تھے۔ اور ۲۹ فیصد کم وزنی کا۔ اکثرلڑکیاں اور نصف سے کچھ کم عورتیں خون میں فولاد کی کمی کا شکار تھیں۔دوسری طرف ، تقریباً ایک چوتھائی تولیدی عمر کی عورتیں موٹاپے کا شکار تھیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ تقریباً چارکروڑ لوگ بھوک سے دو چار ہیں۔ ‘‘ان حالات کے مد نظر، یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گا کہ پاکستانی حکومتیں اپنی نا اہلی سے، بد انتظامی سے اور غلط ترجیحات سے عوام کو ہلاک کر رہی ہیں۔ اور کچھ عوام بھی ان جانے میں اور نا سمجھی سے خود کشیاں کر رہے ہیں۔اب جیسے جیسے مہنگائی کا طوفان آ رہا ہے حالات بد سے بد تر ہی ہونگے۔ان کا ذمہ وار کون؟۔