ستم ظریف تین بار پوچھ چکا ہے کہ یہ "نوچی ریاست” کس قسم کی ریاست ہوتی ہے ۔اس نے اندازہ لگاتے ہوئے استفسار کیا ہے کہ یہ کوئی ایسی ریاست ہے ،جسے ہر طرف سے بار بار نوچا گیا ہو ؟ میں نے اسے لغت میں ’’نوچی‘‘کے معنی تلاش کرنے کی زحمت سے بچانے کے لیے کہہ دیا ہے کہ تم جو کچھ سمجھ رہے ہو ،اسی ملتا جلتا معاملہ ہے۔ شکر ہے کہ ستم ظریف لکھنوی اُردو سے واقف نہیں ہے ،اور یہ بھی اچھی بات ہے کہ اس نے امراؤ جان ادا سے لے کر زندیق تک کسی ناول کا مطالعہ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔کہتا ہے ناول کامطالعہ وقت، مکمل توجہ اور صبر آشنا ذہن کا تقاضا کرتا ہے۔یہ سب کچھ میرے پاس نہیں ہے۔ایک پاکستانی کے طور پر میں ہر لحظہ جلدی میں ہوتا ہوں، میرا تیز رفتار ذہن تفکر و تجزیے کے کسی اشارے پر رکنا پسند نہیں کرتا۔مجھے ایک پاکستانی کی طرح ہر لحظہ کوئی نیا تماشا ،کوئی نیا ہنگامہ، کوئی تازہ خبر درکار ہوتی ہے ۔
میں نے ستم ظریف کو، جو بار بار خود کو پاکستانی کے طور پر متعارف کرا رہا تھا ،بتانے کی کوشش کی کہ اے نادان تمہاری ریاست تمہارے جیسے خیالات و احساسات نہیں رکھتی، ایک بیسوا کی مانند وہ جذبات سے عاری دکھائی دیتی ہے ،حالانکہ انسان ہونے کے ناطے ایک بیسوا کے بھی جذبات تو ضرور ہوتے ہوں گے ،لیکن وہ اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی وجہ سے دو طرفہ جذبات کی حساسیت سے خود کو کوشش کر کے الگ کر لیتی ہے۔اس ریاست کے عام لوگ کن مشکلات کا شکار ہیں ، انہیں روزگار،بھوک ، علاج ، چھت اور تحفظ کی عدم موجودگی نے دُکھا کر رکھ دیا ہے ،اب ان بے نواؤں کی تحویل میں سوائے دُکھ کے ،اور کچھ نہیں بچا۔یہاں کسان کے پاس زمین نہیں ،ہنر مند کے پاس ملازمت نہیں ، چھوٹے صنعتکار کے پاس اپنی فیکٹری چلانے کے لیے بجلی نہیں،مظلوم کی داد رسی نہیں ہوتی ، شہریوں کے پاس تحفظ نہیں، ہماری عدالتوں کے پاس مراعات یافتہ جج تو ہیں ،پر انصاف نہیں ۔ تعلیم کے سر سے اس ریاست نے ویسے ہی ہاتھ اُٹھا رکھا ہے ۔میں جب بھی ریاست کے اوپر کی طرف اُٹھے ہوئے ہاتھ دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ جیسے کسی نے اس کی کمر پر پستول اٹکا رکھا ہو ، وہ جس طرح کہتے ہیں نا "ہیڈز اپ ” بس اسی طرح۔
کبھی کبھی مجھے شک پڑتا ہے کہ ستم ظریف اتنا سادہ اور احمق نہیں ،جتنا میں قیاس کرتا ہوں۔کبھی وہ ایسی فراست والی بات کر جاتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے ۔پوچھنے لگا کہ پاکستان تو بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے ،صدیوں سے اس خطے کی معیشت کا مدار زراعت پر ہے ۔پھر کیا وجہ ہے کہ جن کے پاس ہزاروں ایکڑ زمین ہوتی ہے وہ خود کاشت کاری نہیں کرتے ،اور جو خود کاشت کاری کرتے ہیں ان کے پاس زمین نہیں ہوتی ۔پاکستان میں ایسا کیوں ہے ،جبکہ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ہمارے ساتھ ہی آزاد ہونے والے ہمسایہ ملک ہندوستان نے آزاد ہوتے ہی جاگیرداری کا خاتمہ کر دیا تھا،تو ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہوا۔میں نے ستم ظریف کو اپنے پاس بٹھا کر اسے کچھ دیر دیکھا اور کہا کہ اگر مجھے اندازہ ہوتا کہ تم اتنے دانش مند ہو تو میں تمہاری باتیں توجہ سے سنا کرتا۔بہرحال تم نے چونکہ بڑا بنیادی سوال اٹھایا ہے ،اس لیے تمہیں تفصیل کے ساتھ "اشٹوری” سمجھاتا ہوں۔ستم ظریف آپ نے کبھی سوچا کہ پاکستان میں ایک مذہبی سیاسی جماعت کے بارے میں طنزیہ طور جو کہا جاتا ہے کہ۔” حل صرف جماعت۔۔۔۔۔” تو اس کا اصل مطلب کیا ہے، اور اشارہ کس طرف ہے؟۔تو سنو ،قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم کی قائم کردہ دستور ساز اسمبلی میں دیگر کے علاؤہ ملک سے جاگیرداری کے مکمل خاتمے کی بحث چل رہی تھی ،اور دوسری طرف ہندوستان میں ریاست راجواڑوں اور جاگیرداری کے مکمل خاتمے کی تیاریاں جاری تھیں ، تو پھر پاکستانی جاگیرداروں کی مکمل مالی اعانت سے لاہور میں مذہبی گروہوں نے ایک اجتماع اس موضوع پر منعقد کیا اور اعلان کیا کہ اسلام میں جاگیرداری اور زمین کی بڑی بڑی ملکیتوں کی نہ صرف اجازت ہے ،بلکہ اسلام کے عین مطابق ہے۔قرار دیا گیا کہ ملکیت زمین کا تصور اسلامی تصور ہے ، لہٰذا اسلام کے خلاف کسی قسم کی قانون سازی برداشت نہیں کی جائے گی۔تو گویا ایک سماجی ، سیاسی اور معاشی مسلے کو خالصتاً مذہبی معاملہ بناکر اس کے حل کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا۔ دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ قیام پاکستان کے صرف تین سال بعد ،یعنی 1950 ء میں حیدرآباد دکن کے ایک صحافی ، جو براستہ گورداس پور لاہور آکر ایک مذہبی عالم کا روپ دھار چکے تھے، نے ایک کتابچہ بہ عنوان مسٔلہ ملکیتِ زمین اپنی قائم کردہ جماعت کے اشاعتی ادارے کی طرف سے تین ہزار کی تعداد میں شائع کیا ۔اس میں چند ضعیف روایات کی روشنی میں قرار دیا گیا تھا کہ اسلام میں زمین کی بڑی بڑی ملکیتوں کے اجازت ہے ۔ان کے اس موقف نے علامہ اقبال کے ساقی نامہ کے اس شعر کی تائیدِ مزید کا سامان پیدا کر دیا ،جس میں شاعر کہتا ہے کہ؎
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
اور اس شعر سے پہلے والا شعر بھی قابل توجہ ہے؛
تمدّن، تصوّف، شریعت، کلام
بُتانِ عَجم کے پُجاری تمام!
تو اب تم ہی بتاؤ ستم ظریف پاکستان میں بے زمین کاشتکار کس طرح زمین کے مالک بن سکتے ہیں؟انہیں گناہگار ہونا ہے کیا؟اسی طرح معاشرے کو معاشی تحفظ اور برابری دینے کے عوض صدقہ، خیرات کو ایک متبادل معاشی حل کے طور پر عام کیا گیا۔توبہ کے تصور نے معاشرتی و معاشی گناہوں کے تاسف کو ایک متبادل ، آسان اور فوری راستہ بنا کر کھول دیا۔بس پھر کیا تھا پاکستان شاید دنیا کی واحد ریاست ہے جہاں ٹیکس کے مقابلے میں خیرات کا حجم زیادہ ہے۔یہ سب سن کر ستم ظریف اداس ہو گیا کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا ،پھر کل آنے کا وعدہ کر کے چلا گیا۔مجھے لگا کہ مجھے ستم ظریف سے یہ ساری باتیں نہیں کرنی چاہیئے تھیں۔خوامخواہ بے چارے کا دل اُداس ہوا۔
اگلے دن ستم ظریف کچھ کاغذات لے کر آیا اور میرے سامنے رکھتے ہوئے کہنے لگا ،میں رات بھر سو نہیں سکا، پھر میں نے صورتحال کا حل تجویز کرنے کی کوشش کی ہے ،آپ سے غور سے پڑھ لیں ، جو اضافہ کرنا چاہیں کر لیں،کیونکہ میرے نزدیک ، آخری حل یہی ہے۔ میں نے ستم ظریف کی تحریر پڑھنی شروع کی،لکھا تھا ؛ ایک منظم بغاوت کا وقت آ چکا ہے۔پوری قوم بیک وقت ہمہ قسم یوٹیلیٹی بلز ادا کرنے سے یکسر انکار کردے اور پارلیمان ( اور دیگر ذمہ دار اداروں کا گھیراؤ کر کے بیٹھ جائیں۔ بہت سے مطالبات رکھے جا سکتے ہیں مثلآ
1..سول اور عسکری بیوروکریسی کے تمام مراعات دس سال کے لیے یکسر ختم
2..آج تک سرکاری بینکوں نے جتنے بھی قرض معاف کیے ہیں ،سب ایک مہینے کے اندر اندر واپس لینے کو یقینی بنایا جائے۔
3..وفاقی حکومت صرف تین وفاقی وزراء پر مشتمل ہو۔ن وزراء کی تنخواہ گریڈ 22کے مساوی ہو
4ایم۔پی اسکیلز ختم کر دیے جائیں۔
5..ملک کے تمام گالف کلب فوری طور پر مارکیٹ ریٹ پر فروخت کر دیئے جائیں
6۔ملک میں موجود اشرافیہ کے تمام کلب یا تو ختم کر دیئے جائیں یا مارکیٹ ریٹ پرفروخت کر دیئے جائیں
7۔۔سول اور عسکری ملازمین کے تمام اثاثے جو ان کے معلوم ذرائع سے زیادہ ہو ،ضبط کر لیے جائیں
8۔۔ایک سے زیادہ پلاٹ لینے والوں سے ایک گھر یا پلاٹ سے زیادہ تمام جائیداد ضبط کر لی جائے
9۔۔اعلی عدلیہ کی تمام مراعات یکسر ختم کر دی جائیں۔ہر جج کی تنخواہ اس کے زیر التوا مقدمات کے تناسب سے ہر ماہ کے آخر میں ازسرنو طے/ مقررکی جائے۔
10.. بیوروکریسی کا حجم پچھتر فی صد کم کیا جائے۔اسی طرح دفاعی اداروں میں اعلی رینکس میں اسی فی صد تخفیف کی جائے ۔مراعات کا یک بڑا حصہ عملی طور پر جنگ اور فیلڈ میں دہشت گردوں کا سامنا کرنے والے جوانوں کے لیے مختص کیا جائے۔
11..پاک افغان بارڈر مکمل طور پر سیل کر دیا جائے ،اجناس، جانور، ڈالرز اور دیگر سامان کی ترسیل پر مکمل پابندی لگائی جائے۔
12..جتنے سول اور ملٹری افسران نے گزشتہ چالیس سال کے دوران پاک افغان اور پاک ایران سرحد پر ڈیوٹی دی تھی ،ان کے معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ اندرون ملک اور بیرون ملک تمام اثاثے ضبط کر لیے جائیں۔
13..ملک میں لیز پر دی گئی تمام زمینیں کی لیز فوری طور پر ختم کر کے ان زمینوں کو مارکیٹ ریٹ پر استعمال میں لایا جائے۔اس مد میں ہونے والی لوٹ مار کے حجم کا اندازہ صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ایک کلب جسے اسلام آباد کلب کہا جاتا ہے ،اور کی رکنیت تیس چالیس لاکھ روپے میں بھی مل جائے تو رکن بننے والا۔خود کو کنفرم عزت دار سمجھنے لگتا ہے ، اس کا احاطہ 352 ایکڑ کے قریب ہے ۔یہ ساری زمین 53 سال کی لیز پر لی گئی ہے ۔شہر کے ایک نہایت اہم ،حساس اور کلیدی مقام پر واقع اس زمین کا کرایہ صرف اور صرف تین روپے فی ایکڑ ہے ۔اس طرح ایک اندازے کے مطابق اسلام آباد کلب والوں کی طرف سے 14700 روپے کرایہ لیز کی مد میں اور 12300 روپے پولو گراونڈ کے سالانہ لیز کے طور پرحکومت کوادا کئے جاتے ہیں۔
14..ملک کے تمام فارم ہاؤسز کی لیز فوراً ختم کر کے ان میں بے گھر لوگوں کو چھوٹے پلاٹ الاٹ کیے جائیں ۔یہاں ستم ظریف کی تحریر مکمل ہو جاتی ہے۔کہتا ہے کہ میں اس میں اضافہ کر سکتا ہوں، سوچ رہا ہوں کہ میں اس میں کیا اضافہ کروں۔ستم ظریف نے یہ سب کچھ لکھتے وقت یہ نہیں سوچا کہ اس نوچی ریاست کے خوشہ چین یہ سب کچھ کیسے ہونے دیں گے۔؟
Next Post