بے کس جاوید اختر پر لازم ہے کہ وہ بھارت سے اپنی وفاداری ثابت کرنے کیلئے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرے!

53

پچھلے دنوں لاہور میں فیض احمد فیض کی یاد میں سالانہ فیض میلے کا انعقاد ہوا جس میں ہر سال کی طرح نہ صرف اندرون پاکستان بلکہ بیرون پاکستان سے بھی مختلف ادبی شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا۔ بدقسمتی سے اس مرتبہ ہندوستان سے فلمی شاعر جاوید اختر نے شرکت کی۔ ان صاحب کی پاکستان میں وجۂ شہرت ان کی فلمی شاعری یا فلمی ڈائیلاگ بازی نہیں بلکہ آئے دن پاکستان کے خلاف زہریلی بیان بازی ہے۔ جب تک ان کی جوڑی سلیم خان کے ساتھ سلیم جاوید کے نام سے تھی اس وقت لوگ ان صاحب کو تھوڑا بہت منہ لگا لیتے تھے جبکہ تھوڑی بہت لفٹ انہیں شبانہ اعظمی کی وجہ سے مل جاتی تھی لیکن پھر جب سلیم خان سے جوڑی ٹوٹنے کے بعد انہوں نے خبروں میں اِن رہنے کیلئے پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کی پالیسی بنا لی بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا کے مصداق انڈین میڈیا نے ان کو تھوڑی بہت کوریج دینا شروع کر دی۔ اصل میں جاوید اختر کا تعلق ان چند ہندوستانی مسلمانوں کے گروہ سے ہے جو شدید احساس کمتری کا شکار ہیں اور جنہوں نے تقسیم کے وقت پاکستان نہ آنے کا فیصلہ کیا تھا۔ پھر جب بعدازاں بھارت میں مسلمانوں کی صورت حال ابتر سے ابتر ہوتی چلی گئی تو انا کا یہ احساس کمتری نفرت میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔ فیض میلے میں جاوید اختر نے الزام لگایا کہ ہم نے تو (جیسے وہ ہندوستانی ریاست کے ترجمان ہوں) خان صاحب نصرت فتح علی کو اپنے بھارت میں بلایا، ہم نے تو خان صاحب مہدی حسن صاحب کی بڑی پذیرائی کی مگر آپ لوگوں نے تو لتا منگیشکر کو کبھی پاکستان میں پروگرام کیلئے نہیں بلایا۔ پہلی بات تو یہ ان کی کم علمی ہے کہ لتاجی کو نہیں بلایا گیا۔ انہیں بے شمار مرتبہ نجی پروموٹرز نے دعوت دی مگر لتا جی کا اصرار تھا کہ انہیں حکومت پاکستان سرکاری سطح پر مدعو کرے جو کہ پاکستان کی سرکاری پالیسی کے خلاف تھا۔ مرحوم ادکار دلیپ کمارصاحب کا تعلق پشاور سے تھا اور اس تعلق کے ناطے سے حکومت پاکستان نے انہیں نہ صرف سرکاری پروٹوکول کے ساتھ پاکستان مدعو کیا بلکہ انہیں ایک بڑے سرکاری سویلین اعزازسے بھی نوازا۔ لیکن لتا منگیشکر سمیت کئی پاکستان میں مقبول گلوکاروں اور اداکاروں کویہ اعزاز نہ بخشا گیا۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ لتا جی اپنا موازنہ دلیپ کمار کے ساتھ کرنا چاہ رہی تھیں لیکن آپ نے پاکستان کے کس گلوکار یا فنکار کو سرکاری سطح پر بلایا اور اگر بلایا بھی تو پاکستانی فنکاروں کی مقبولیت کےآگے آپ مجبور ہوئے۔ پاکستانی فنکاروں بشمول ملکہ ترنم نور جہاں، مہدی حسن، نصرت فتح علی خان، راحت فتح علی خان، ریشماں، عاطف اسلم، علی ظفر، ماہرہ خان، صابری برادرز غرض ایک طویل فہرست ہے پاکستانی فنکاروں کی جنہیں کبھی ہندوستان میں سرکاری سطح پر مدعو نہیں کیا گیا اور کوئی بات نہیں، یہ ان کی پالیسی ہے۔ جاوید اختر جیسے لوگوں کو ایک یہ تکلیف بھی ہے کہ ان کے ساتھ ہندوستان میں تضحیک آمیز دوسرے درجے کے شہری کا سلوک کیا جاتا ہے۔ گلوگل کریں، شبانہ اعظمی کا پریس کانفرنس میں وہ بیان آج بھی پڑا ہوا ہے جس میں چند سال پہلے انہوں نے بھارتی حکومت ہندوستان سے شکوہ کیا تھا کہ صرف مسلمان ہونے کے ناطے انہیں اور ان کی فیملی کو ممبئی میں کوئی مکان نہیں لینے دیا جارہا ہے۔ ان دونوں کو بدقسمتی سے مسلم نام ہونے کا خمیازہ بھگتنا پڑرہا ہے اور اپنےآپ کو ایڈجسٹ کرنے اور وفاداری ثابت کرنے کیلئے انہیں پاکستان دشمنی پر مبنی ہر کچھ عرصے بعد ایک بیان دینا پڑتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بھارت کے سارے ٹاپ مسلم ایکٹرز نے ہندو خواتین سے شادیاں کی ہوئی ہیں تاکہ اسی بہانے شاید ان کے خلاف مسلم دشمنی کا ہندوستان زہر کم ہو سکے۔ اس کے علاوہ جاوید اختر نے دعویٰ کیا کہ ممبئی حملوں کے دہشت گرد آج بھی آپ کے پاکستان میں گھوم رہے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ انہیں یہ خفیہ معلومات کس نے فراہم کیں اگر یہ بات سچ ہے تو بھارتی حکومت کو آج ہی بین الاقوامی سطح پر ان دہشت گردوں کی نشاندہی کر کے پاکستان کو بدنام کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے تھا مگربدقسمتی سے وہ بھی را کا تیار کردہ پلوامہ دہشت گردی کی طرح سے ایک ڈرامہ تھا جس کی نشاندہی خود ان کی لوک سبھا میں بھی کی گئی۔ جاوید اختر کو شاید نہیں معلوم کہ دنیا کا سرٹیفائیڈ دہشت گرد مودی اس وقت ان کے وطن کا وزیراعظم ہے اور اس دہشت گرد کی جماعت آر ایس ایس اس وقت پورے انڈیا میں مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں کے خلاف جو دہشت گردی پھیلائے ہوئے ہے پوری دنیا میں اس کے فوٹیج چل رہے ہیں اور انہیں کشمیر میں مظلوم مسلمان کشمیریوں کے خلاف ریاستی سطح پر پچھلے 75 سالوں سے جاری دہشت گردی بھی نظر نہیں آتی۔ جاوید اختر سمیت کسی بھی مسلمان آرٹسٹ کو آج تک ہمت نہیں ہوئی نہ ضمیر جاگا کہ وہ اگر بھارتی ریاستی دہشت گردی کے خلاف نہیں تو مظلوم کشمیریوں کے حق میں ایک لفظ بھی کہہ سکیں کیونکہ پھر ان کے ساتھ بھی شاہ رخ خان کے ساتھ جیسا سلوک کیا جائے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ فیض میلے میں موجود کسی بھی شرکا نے اس شخص کی بکواس کو نہیں روکا بلکہ علی ظفر جیسے شاطر تجارتی گلوکار اپنے مفادات کو زک نہ پہنچاتے ہوئے جاوید اختر کے ساتھ بے سرے گیت گاتے رہے، ظاہر ہے کہ تجارتی مفادات کا خیال رکھتے ہوئے ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔ لیکن کبھی کبھی قومی حمیت کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ شکر ادا کرنا چاہیے کہ پاکستان بن گیا وگرنہ آج وہاں پر جو مسلمانوں کی حالت زار ہے اور قتل و غارت گری جاری ہے ہم سب بھی اس ہی صورت حال میں جی رہے ہوتے۔ نہ عاطف اسلم ہوتا نہ علی ظفر اور نہ فواد خان ہوتا نہ ماہرہ خان۔ ہندوستان واپسی کے بعد جب جاوید اختر سےپوچھا گیا کہ آپ نے پاکستان کی معیشت کی صورت حال کے پیش نظر وہاں کتنی غربت دیکھی تو اسی احساس کمتری اور زہریلی سوچ کے حامل جاوید اخترنے جواب دیا کہ میں تین مرتبہ پاکستان جا چکا ہوں مگر ہمارے ہندوستان کے برعکس میں نے پاکستان میں غربت نہیں دیکھی، میرا شبہ ہے کہ ان کی حکومت نے غریبوں کو پس منظر سے ہٹا کر کہیں چھپا دیا ہے وگرنہ ہمارے ممبئی کی طرح سلم (Slums)تو کسی طرح چھپائے نہیں چھپائے جا سکتے۔ پاکستان کے قیام کیلئے ہم قائداعظم محمد علی جناح کے جس قدر بھی شکر گزار ہوں تو کم ہے۔ آج انڈیا میں جو کچھ ہورہا ہے مسلمانوں کے ساتھ اس کوقائد نے پچھتر برس قبل اس کو بھانپ لیا تھا۔