بہت ریسرچ کر کے لایا ہوں پاکستان کے اُن دشمنوں کی لسٹ جو دوست نما حکمران ہیں ہمارے!!

43

پاکستانی عوام اور پاکستان کیوں ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود خوشحال نہیں ہو سکے ؟ کیوں ہمارے حکمران کشکول اُٹھائے دنیا بھر سے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ؟ آپ میری یہ ریسرچ میری یہ تحقیق پڑھ کر اپنی انگلیاں اپنے دانتوں میں داب لیں گے کہ کس مہارت اور چالاکی سے ہمارے اندر ہی دوست بنے ہمارے دشمن چھپے بیٹھے ہیں جن کی عیاشیوں کی وجہ سے پاکستان میں پیدا ہونے والا نوزائیدہ بچہ بھی لاکھوں کا قرض اپنی پیٹھ پر اُٹھائے پیدا ہوتا ہے- آپ اپنے ہی آس پاس دیکھیں تو آپ حیران اور پریشان ہو جائیں کہ برطانوی سامراج کی باقیات کس طرح ہمارے عوام کی اور پاکستان کی جڑیں کاٹ رہی ہیں۔
کمشنر سرگودھا کی رہائش گاہ 104 کنال پر محیط ہے یہ پاکستان میں کسی سرکاری ملازم کی سب سے بڑی رہائش گاہ ہے اس کی نگہداشت مرمت اور حفاظت کے لئے 33 ملازم ہیں۔ دوسرے نمبر پر ایس ایس پی ساہیوال کی کوٹھی آتی ہے اسکا رقبہ 98 کنال ہے۔ ڈی سی او میانوالی کی کوٹھی کا سائز 95 کنال اور ڈی سی او فیصل آباد کی رہائش 92 کنال پر تعمیر شدہ ہے۔ صرف پنجاب پولیس کے ساتھ ڈی آئی جیز اور 32 ایس ایس پیز کی رہائش گاہیں 860 کنال پر مشتمل ہیں۔ ڈی آئی جی گوجرانوالہ 70 کنال، ڈی آئی جی سرگودھا 40 کنال، ڈی آئی جی راولپنڈی 20 کنال، ڈی آئی جی فیصل آباد 20 کنال، ڈی آئی جی ڈیرہ غازی خان 20 کنال، ڈی آئی جی ملتان 18 کنال اور ڈی آئی جی لاہور 15 کنال کے محلات میں رہتے ہیں۔ ایس ایس پی میانوالی کا گھر 70 کنال، ایس ایس پی قصور 20 کنال، ایس ایس پی شیخوپورہ 32 کنال، ایس ایس پی گوجرانوالہ 25 کنال، ایس ایس پی گجرات 8 کنال،ایس ایس پی حافظ آباد 10 کنال، ایس ایس پی سیالکوٹ 9 کنال، ایس ایس پی جھنگ 18 کنال، ایس ایس پی ٹوبہ  ٹیک سنگھ 5 کنال، ایس ایس پی ملتان 13 کنال، ایس ایس پی وہاڑی 20 کنال، ایس ایس پی خانیوال 15 کنال، ایس ایس پی پاکپتن 14 کنال، ایس ایس پی بہاولپور 15 کنال، ایس ایس پی بہاولنگر 32 کنال، ایس ایس پی رحیم یار خان 22 کنال، ایس ایس پی لیہ 6 کنال، ایس ایس پی راولپنڈی 5 کنال، ایس ایس پی چکوال 10 کنال، ایس ایس پی جہلم 6 کنال، ایس ایس پی اٹک 29 کنال، ایس ایس پی خوشاب 6 کنال، ایس ایس پی بھکر 8 کنال، ایس ایس پی راجن پور 37 کنال اور ایس ایس پی نارروال 10 کنال کی سرکاری عمارات میں رہائش پذیر ہیں۔ صرف پولیس کے ان سرکاری محلات کی حفاظت و مرمت اور تزئین و آرائش پر ہر سال 80 کروڑ روپے سے کچھ اوپر خرچ ہوتے ہیں جو لاہورکے تین بڑے ہسپتالوں کے سالانہ بجٹ کے برابر ہے۔
2 ہزار 6 سو 6 کنالوں پر مشتمل ان رہائش گاہوں کی نگہداشت کیلئے 30 ہزار ڈائریکٹ اوران ڈائریکٹ ملازمین ہیں صرف ان کے لانوں پر 18 سے 20 کروڑ روپے سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔ ایک سرکاری اندازے کے مطابق یہ تمام رہائش گاہیں شہروں کے ان مرکزی علاقوں میں ہیں جہاں زمین کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں لہٰذا اگر یہ تمام رہائش گاہیں بیچ دی جائیں تو 70 سے 80 ارب روپے حاصل ہو سکتے ہیں یہ رقم واپڈا کے مجموعی خسارے سے دوگنی ہے۔ گویا اگر یہ رہائش بیچ کر رقم واپڈا کو دے دی جائےتوواپڈا کو چار سال تک بجلی کی قیمت بڑھانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
اگر یہ رقم ہائی وے کو دے دی جائے تو وہ موٹروے جیسی دو سڑکیں اور کراچی سے پشاور تک نیشنل ہائی وے جیسی مزید ایک سڑک بنا سکتی ہے۔ اگر یہ رقم محکمہ صحت کے حوالے کر دی جائے تو یہ محکمہ پاکستان میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز جیسے 70 ہسپتال بنا سکتا ہے۔ اگر یہ رقم وارسا کے حوالے کر دیا جائے تو وہ اس رقم سےسمندر کا پانی صاف کر کے 12 پلانٹ لگا سکتا ہے جس سے ملک کے 45 فیصد لوگوں کو پینے کا پانی مل سکتا ہے۔
دنیا بھر میں سرکاری رہائشیں سکڑ رہی ہیں۔آپ برطانیہ چلے جائیںآپ کو 10 ڈاوئنگ سٹریٹ(وزیراعظم) سے لے کر چیف کمشنر تک اور ڈپٹی سیکرٹری سے ڈپٹی وزیراعظم تک سب افسر اور عہدیدار دو دو تین تین کمروں کے فلیٹس میں رہتے دکھائیں دیں گے۔
آپ امریکہ چلے جائیں وائٹ ہائوس دیکھیں دنیا کا صدارتی محل پنجاب کے گورنر ہائوس سے چھوٹا ہے جاپان میں وزیراعظم ہائوس سرے سے ہے ہی نہیں یہ بڑی بڑی مملکتوں کے سربراہان کی صورت حال ہے۔
رہے سرکاری ملازم بیوروکریٹ اعلیٰ افسر اور عہدیداران تو آپ پورا یورپ پھریں آپ کو یہ لوگ عام بستیوں کے عام فلیٹوں میں عام شہریوں کی طرح رہتے نظر آئیں گے ان کے گھروں میں لان ہوں گے ڈرائیو ر اور نہ ہی لمبے چوڑے نوکر لیکن یہاں آپ ایک ضلع سے دوسرے ضلع کا دورہ کر لیں آپ کو تمام بڑی عمارتوں تمام بڑے محلات میں ضلع کے خادمین فروکش نظر آئیں گے۔ خلقت خدا مر رہی ہے اور ان کے افسر ٹیکسوں کی کمائی پر پلنے والے باغوں میں جھولے ڈال کر بیٹھے ہیں۔