کیا ستم ہے کہ: جرم الفت پہ ہمیں ، لوگ سزا دیتے ہیں!

53

یوکرین کا یہی تو جرم ہے کہ اس نے مغربی یورپ سے اپنی الفت کا گیت الاپہ تھا – روس کو بھلا یہ بات کہاں بھاتی – صدیوں سے یوکرین کو اپنے زیر اثر رکھنے والا یہ عظیم ملک کیسے برداشت کر سکتا تھا کہ یوکرین اس سے زنجیریں تڑوا کر سیدھا مغرب سے اپنے تعلقات استوار کرلے – یہی نہیں بلکہ اس کے خلاف امریکہ اور مغربی یورپ کے دفاعی اتحاد نیٹو کا حصہ بنے کا خواہش مند بھی ہو -لیکن یہ وہ مسئلہ ہے جو الٹا روس کو سمجھنا چاہیے – یوکرین صدیوں سے روس کی کالونی بن کر رہا ہے – اب جب کہ وہ ایک آزاد ملک ہے تو یہ اس کی مرضی کہ وہ کس کیمپ کا حصہ بنے – ماضی میں اگر روس نے یوکرینیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ مغربی یورپ کا رخ ہی نہ کرتا – رہا سوال اس بات کا کہ یوکرین روس کی جغرافیائی حکمت عملی اور اس کی سلامتی کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے تو بھیا یہ بات تو پہلے سوچنے والی تھی نا – آپ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تو وہ آپ سے ترک تعلق کی بات ہی کیوں کرتا – ذرا اس نظرئیے سے بھی سوچ کر دیکھ لیا ہوتا کہ:
ترک تعلق اپنی خطا ہو ، ایسا بھی ہو سکتا ہے
ایک سال سے زائد ہو چکا ہے – جنگ بندی کا یا امن گفتگو کا کہیں دور دور تک کوئی نام ہے ، نہ نشان – برسلز میں اس صورت حال کا جائزہ لینے کے لیئے نیٹو کے وزرائے دفاع کے دو روزہ اجلاس بھی ہوا تھا جس میں نیٹو کے جرنل سیکریٹری اسٹالن برگ نے کہا تھا کہ ہمیں اس بات کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آرہا ہے پیوٹن اس جنگ کو ختم کرنے کا کوئی ارادہ رکھتا ہے – بلکہ وہ تو نئے حملے کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے – ویسے ایسا سوچنا بھی فضول ہے کہ روس جنگ بندی کی طرف کیوں مائل ہو گا – اس وقت تو معاملہ اس کی انا کا بھی ہے – تقریباً ایک سال قبل روس نے یوکرین پر یہ سوچ کر حملہ کیا تھا کہ وہ ابھی گیا اور ابھی آیا – مجھے یاد ہے جب اس نے جنگ شروع کی تھی تو اپنی پوری طاقت کے ساتھ – وہ تو یہی سمجھ رہا تھا کہ یوکرین کو فتح کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے – بلکہ یہ تو آسان سی کھیر ہے – ذرا سا چمچہ گھمایا اور کھیر اس کے منہ میں – وہ اس سوچ میں کسی حد تک صحیح بھی تھا کیوں کہ روس بہر حال ایک عظیم فوجی طاقت ہے اور یوکرین ایک کمزور نحیف پڑوسی ملک – روس اور یوکرین کی معیشت کا بھی کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا -روس اپنے جنگی اخراجات اپنے ہی وسائل سے برداشت کر رہا ہے جب کہ یوکرین اپنے ہمدردوں کی امداد پر انحصار کر رہا ہے – ایسے میں تو کریملن کو اپنے مبینہ اندازے کے مطابق کیف پر 3 دن میں قبضہ بھی کر لینا چاہیے تھا لیکن ایسا ہوا نہیں – صدر بائیڈن نے ABC News کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ روس کیف سے ستر کلو میٹر کے فاصلے تک پہنچ گیا تھا لیکن حالیہ خبروں کے مطابق یوکرینی فوجیوں نے روس کو کیف سے کافی دور دھکیل دیا گیا ہے ۔پیوٹن کے وہم و گمان میں نہیں ہو گا کہ یہ جنگ اتنی چل جائے گی ۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ صدر پیوٹن نے دو غلطیاں کی ہیں ایک تو یہ کہ انھوں نے یوکرینیوں کے حوصلوں اور جذبوں کا صحیح اندازہ نہیں لگایا – روس باوجود اپنی پوری سفاکی کے ابھی تک یوکرینیوں کی ہمتوں کو نہیں توڑ سکا – دوئم اس کی انٹیلی جنس اور پالیسی مشنری پر انحصار جو اس کو وہ ہی بتاتی ہے جو وہ سننا چاہتا ہے ۔امریکہ اور یوکرین کے سپورٹر ممالک اس کی بھرپور مدد کی کوشش کر رہے ہیں – صدر بائیڈن نے اپنے حالیہ یوکرینی دورے کے دوران اس بات کو واضح بھی کیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ کھڑا ہے – انھوں نے کہا کہ ہمیں یوکرینیوں کی مدد کرنی ہی پڑے گی – بقول ان کے اس وقت یوکرین سے منہ موڑنے کی قیمت کہیں زیادہ ادا کرنی پڑے گی بہ نسبت ان کی مدد کرنے کی قیمت کے – لیکن امریکہ کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی کا خیال یہ ہے کہ یوکرینین روس سے یہ جنگ جیت نہیں پائیں گے – ادھر یوکرین کو بھاری اسلحے کی فراہمی بھی ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے – اسے ٹینک اور ایف سولہ کے طیارے چاہئیں – ٹینک تو غالباً اسے مل جائیں گے لیکن ایف سولہ طیاروں کے امکانات نہیں ہیں۔