اپنی نااہلیاں مستور رکھتے ہوئے دوسروں پر بہتان تراشی کی روایات کافی پرانی ہیں گویا حقائق سے پردہ ہٹاتے ہوئے بھی کسی نے سچ بولنے کا تردد نہیں کیا الم جمہوریت کا ہاتھ میں لے کر مدد ان دیکھی طاقتوں سے مانگی دن کی روشنی میں عوام کو نظریات بتا کر ووٹ مانگا تو رات اقتدار کے لئے گیٹ نمبر ۴ کا سہارا لے لیا خزانے کی چابیاں جس کے ہاتھ آئیں اُسی نے جانے والوں کو کرپٹ بد عنوان دیگر ناقابل ِ بیان جملوں سے نوازا مگر کوئی ایک بھی نہ جمہوری راہ کو مضبوط کر سکا او رنہ خزانے کو لوٹنے والوں کے ثبوت عیاں کر سکا بس سیاسی الزام تراشیاں کر کے یکے بعد دیگرے اقتدار میں آتے رہے جاتے رہے ذوالفقار علی بھٹو کو راہ سے ہٹانے کے لئے اندرونی و بیرونی دباو کے قصے گزشتہ صدی کے سینے میں پیوست ہو کر غیر جمہوری ظلم و ستم کی المناک داستاں بیاں کرتے ہمارے نظام کو شرمسار کرتے ہیں مگر موجودہ سیاسی یا مقتدر اداروں کے رویے سے پشیمانی کا تاثر قطعی نہیں ملتا بلکہ آئینی دائرے سے باہر نکل کر مداخلت کو بجا جاننا حکومتی راہداریوں میں روایت کا روپ دھار چکی ہے اور غالب اس قدر ہے کہ قانون شکن پس زنداں نہیں ہوتا معترض اُنگشت نما ہی وجود کھو دیتا ہے یہ جملہ کہتے ہوئے مجھے سابقہ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ وقار سیٹھ یاد آ گئے جو قانون کے نمازی تھے کسی سفارش یا جاننے والے کی نہیں صرف قانون کی حرمت کو دیکھ کر اپنا فیصلہ صادر فرماتے اللہ انھیں خلیق ِ رحمت کرے (آمین)گزرے دور میں قانون و انصاف کو نیب کے ذریعے صرف مخالفین کے لئے استعمال میں لایا گیا جس کا احاطہ مذمتی حروف کر بھی لیں تب بھی قانون کی حرمت پہ لگے داغ دھلتے نہیں ہیں انصاف پر دبائو تحریک ِ انصاف حکومت میں نیب پر ڈالا گیا تو ایسے طفلانہ فعل سرزد کئے کہ سپریم کورٹ کو کہنا پڑ گیا کہ قانون و انصاف کو مد نظر رکھتے ہوئے کام نہیں کیا جا رہا بلکہ سیاسی انجنئیرنگ کی جا رہی ہے جسٹس جاوید اقبال کے بعد نئے چیئرمین نیب آفتاب سلطان نے حکومتی احکامات پر عمل کو رد کرتے ہوئے جب انصاف کی شکل نکھاری تو انھیں بھی مجبور کیا گیا اور وہ مستعفی ہو گئے اپنے الواداعی خطاب میں آفتاب سلطان نے بتایا کہ مجھے کہا گیا کہ فلاں کے بھائی کو چھوڑ دو فلاں کو پکڑ لو ،ادارے کو ایمانداری سے چلانا نصب العین ہے مداخلت برادشت نہیں کرتا ،میں کسی کے خلاف جھوٹا مقدمہ چلا سکتا ہوں نہ محض کسی بڑی شخصیت کا رشتہ دار ہونے کی وجہ سے ریفرنس ختم کر سکتا ہوں اُن کا کہنا تھا کہ نیب میں 99فیصد لوگ درست سمت کے ہیں جبکہ مسئلہ 1فیصد میں ہے انھوں نے نیب افسران سے کہا کہ آئین پر عمل ہی ہمارے سارے مسائل کا حل ہے معاشی و سیاسی بحران کی وجہ آئینی احکامات سے انحراف اور آئینی دائرے سے باہر نکل کر مداخلت کرنا ہے مزے کی بات یہ ہے کہ حکومت نے بغیر کسی حیل و حجت کے استعفے کی نہ صرف منظوری کی بلکہ نئے چئیرمین نیب کے لئے ناموں کو بھی زیر غور لا رہی ہے یعنی اُصول پرستی والا ،ایمانداری میں رچابسا،انسان انصاف کی مسند پہ بیٹھ کر فیصلے کرنے کا مجاز نہیں اُسے ہر صورت انصاف کو باندی بنا کر بادشاہ سلامت کے دربار میں رقص کے لئے پیش کرنا پڑے گا قوم ویسے بھی جلسوں میں ڈی جے پروگراموں سے محظوظ ہونے کی عادی ہے ۔انصاف کی راہ میں حائل اختیارات کی مذکورہ رکاوٹیں اگر شعوری طور پر عوام کو ناگوار گزرتیں تو وہ آج سڑکوں پر سراپا احتجاج ہوتی۔میرے صحافی دوست جناب فرمان اللہ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کانام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر یہاں اسلامی طرز ِ عمل کا کوئی نظام نہیں اور جمہوریت کا سرے سے وجود ہی نہیں سوچتا ہوں اکثر کہ قائد کی اس ارض ِ پاک پہ منافقانہ رویہ رکھنے کے ہم سب ذمہ دار ہیں یا کسی کی غلامی میںسکون سے رہنے کے لئے ایسا کرتے ہیں ۔ بلوچستان میں آج بھی نجی قید خانے اور اُس میں قید آزاد وطن کے غلام ،سرداروں اور وزیروں کے رحم و کرم پر ہیں مگر انصاف پر دبائو ہونے کی وجہ سے وہ سوموٹو ایکشن بھی لینے سے گریزاں ہیں صوبہ بلوچستان میں ہونے والا حالیہ واقعہ جس میں خاتون اور اس کے دو بیٹوں کی لاشیں ملی ہیںکچھ مدت پہلے یہ خاتون ایک ویڈیو میں قرآن پاک پہ ہاتھ رکھے اپنے ملزم کا نام لے کر حکومتی اداروں سے مدد کی طلبگار تھی مگر اسے اُس کے دو بیٹوں سمیت موت تو مل گئی لیکن حکومت سے کسی متعلقہ ادارے سے مدد نہ مل سکی ریاست میں ہونے والے اس واقعے سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ انصاف اگر کسی اشارۂ ابرو کا منتظر نہ ہوتا اور انصاف پر دبائوکسی ان دیکھی قوت کا نہ ہوتا تو آج ہم منتشر نہیں ایک قوم کہلاتے ۔