سردار کھیتران بلوچستان کے ایک بڑے سردار ہیں، ان کے علاقے کے ایک کنویں سے تین یا چار تشدد زدہ لاشیں نکلی ہیں میڈیا نے خبر دی ہے کہ ان لوگوں کو تشدد کے بعد قتل کیا گیا، اس خاندان کی ایک عورت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے خاندان کے چند اورافراد بھی سردار کھیتران نے قید کررکھے ہیں، میڈیا نے سردار کھتیران کا بیان بھی چلا دیا جس میں انہوں نے کہا کہ ان پر قتل تشدد اور افراد کو قید رکھنے کا الزام ہی غلط ہے اس علاقے کے ایس پی کا کہنا ہے کہ ہم نے سردار کھتیران کے گھر کی تلاشی لی ہے وہاں سے ہمیں کوئی قیدی نہیں ملا، علاقے کا ایک جم غفیر بھی میڈیا نے دکھایا جو بہت خاموشی سے چل رہا تھا جس میں نہ کوئی شور شرابہ نہ کوئی نعرے بازی، ہمیں معلوم ہے کہ ہجوم جس خاموشی سے آیا اسی خاموشی سے لوٹ گیا ہو گا، سردار کھتیران کا بال بھی بیکا نہ ہو گا وہ کہہ چکے ہیں کہ معاملہ عدالت میں جائے گا تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا مگر ہم نے پاکستان میں کبھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوتا نہیں دیکھا، سندھ میں ناظم جوکھیو قتل ہوااس کی بیوی کی ویڈیوز منظر عام پر آگئیں کہ اس پر جام خاندان کی طرف سے مصالحت کے لئے دبائو ڈالا جارہا ہے، اس کیس میں کیا پیش رفت ہوئی ہمیں کچھ معلوم نہیں ناظم جوکھیو بھی صحافی تھا مگر کسی چینل نے اس کے قتل پر اتنا شور نہیں مچایا جتنا ارشد شریف کے قتل پر مچایا گیا، نہ ہی کسی عدالت نے سوموٹو لیا، ناظم جوکھیو قتل ہو گیا، بس ذرا سا شور مچا اور پھر سناٹا، خبریں آتی رہتی ہیں کہ میڈیا ہائوسز کا منہ بھر دیاجاتا ہے اور بات ختم ہو جاتی ہے۔ موٹروے کیس کو دیکھ لیجئے ایک عورت اپنے بچوں کو اسلام سکھانے کے لئے فرانس سے پاکستان آئی تھی، اس کا کسی گلی کوچے میں نہیں بلکہ موٹروے پر ریپ ہوا اور کچھ بھی نہیں ہو سکا، نور مقدم کیس کا حال کسے نہیںمعلوم ؟اور محترم ایاز امیر کے صاحبزادے نے جو قتل کیا اس کو میڈیا نے کتنا فالو کیا ہم جانتے ہیں، یہ غلط فہمی ہے کہ میڈیا آزاد ہے میڈیا ہائوسز کے اشاروں پراشرافیہ کی حفاظت پر مامور ہے اور پاکستان میں کسی کی کیا مجال کہ وہ اشرافیہ کے خلاف آواز اٹھا سکے، میڈیا اشرافیہ کا محافظ اور دہشت گردوں سے خائف، آئے دن مدارس میں بچوں کے ساتھ اغلام بازی اور لواطت کی خبریں آتی رہتی ہیں مگر کبھی کسی مولوی کو سزا نہیں ہوئی سزا تو اس کو بھی نہیں ہوئی جس نوجوان لڑکے نے مولویوں کے کہنے پر عدالت کے اندر دن دھاڑے ایک ذہنی معذور شخص کو قتل کر دیا تھا اوروہ غازی بن گیا۔ ڈاکٹر محمد مالک پاکستان کے ایک بڑے صحافی ہیں ہم نیوز سے متعلق تھے انہوں نے حلالہ سنٹرز کے بارے ایک پروگرام کیا اس پروگرام میں یہ بھی کہا کہ میں کسی سے نہیں ڈرتا مگر میڈیا ہائوسز مولوی سے ڈرتے تھے۔ انہوں نے مالک کو ادارے سے الگ کر دیا، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ صحافی آزاد اور معتبر ہیں تو آپ شدید غلطی کا شکار ہیں یہ سب کے سب بہتر سے بہتر کی تلاش میں ایک ادارے سے دوسرے ادارے میں پیسوں کی خاطر سفر کرتے رہیں اور وہ جو کبھی MAIN STREAM MEDIAسے منسلک تھے وہ سوشل میڈیاACTIVIST بن گئے اور عمران کے KET BOARD WARRIOR کتنے نام ہیں عارف حمید بھٹی، عمران ریاض، حبیب اکرم، صابر شاکر، ملیحہ ہاشمی، سب کے سب عمران کے حامی اور سوشل میڈیا سے کروڑوں کمارہے ہیں اس سے کہیں زیادہ جو وہ کسی چینل پر پروگرام کر کے کماتے تھے،شاہد مسعود کی ویڈیو دیکھی سنا ہے انہوں نے وہ خبر دی تھی کہ پاکستان نے ترکی کو وہی سامان امداد میں دے دیا جو ترکی نے پاکستان کو سیلاب زدگان کی امداد کی مد میں دیا تھا ایک اور نوجوان نے بھی ایک ویڈیو اپ لوڈ کی تھی جب اس کے خلاف پرچہ کٹا تو اس نے تردید کر دی، شاہد مسعود نے بھی تردید کر دی، سوشل میڈیا ایک مچھلی بازار ہے جہاں آپ کو پلاسٹک کی مچھلیاں بھی بیچ دی جائیں گی۔
میری نظر میں معتبر صحافی تو کوئی رہا نہیں، سب کے سب تاجر، ایک خبرجو حامد میر نے خانزادہ کے پروگرام میں دی وہ چونکا دینے والی تھی، حامد میر نے کہا کہ جنرل باجوہ نے عمران کی ویڈیوز بنوائی ہیں تو عمران کے حامی جنرلز نے جنرل باجوہ کی ویڈیوز بھی بنوائی ہیں، اس خبر پر میڈیا نے خاموشی اختیار کی مگر ہم جانتے ہیں کہ کبھی فوج کی بات ہوئی تو یہی بات اچھالی جائے گی، اشرافیہ میڈیا کی ڈارلنگ ہے، یہ تو ثابت ہو چکا کہ عوام لینے میں نہ دینے میں، کل عدالت میں عمران کی پیشی کی کوریج جس اندز سے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا نے کی اس سے اندازہ ہوا کہ قانون اقدار، سچ کی میڈیا کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں عمران نے جس طرح عدلیہ کی ناک رگڑی اس سے اندازہ ہوا کہ ان کی نظر میں انصاف کی کیا وقعت ہے اور عدلیہ جس انداز میں بچھی جاتی ہے وہ نظارہ دیدنی ہے عمران بڑے لیڈر ہیں، ارے آپ تو رول ماڈل ہیں۔ اس قسم کے ریمارکس ججوں کی جانب سے آنا انتہائی شرمناک ہے اور یہ جج جو مڈل کلاس کے لوگ ہیں کسی نہ کسی طرح جج بن گئے ہیں مگر ہیں تو کچلے ہوئے طبقے کے، شخصیت مسخ ہو چکی ہے جان کا بھی ڈر ہے کہ عمران خان کے خلاف کوئی بات نکل گئی تو کوئی جان سے ہی نہ مار دے، یہ بھی خوف کہ اس جھوٹے مولوی کے خلاف بھی فیصلہ نہ دو جس کی پاکستان میں حکومت ہے کہیں کوئی ان کو قتل کر کے غازی کے مرتبے پر فائز نہ ہو جائے پچھلے دس پندرہ سالوں میں تعلیم کا معیار زمین بوس ہو چکا دو دو لاکھ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بکتی ہے بیس پچیس ہزار میں شاعر پرایم فل کا مقابلہ لکھ دیا جاتا ہے ہر چینل پر غلط اُردو بولی اور لکھی جاتی ہے پورا معاشرہ تباہ ہو چکا، پاکستان کی حالت افریقہ کے مفلس ملکوں سے بھی بدتر مگر سیاست دان جو سب سے بڑا مداری ہے وہ کہتا ہے کہ عوام باشعور ہے اب نابینا کو بینا کہا جائےیا جاہل کو عالم کہا جائے دولہ شاہ کے چوہوں کو باشعور کہا جائے اورمان بھی لیا جائے تو اس کو کیا کہیے، پچاس سال پہلے رائو رشید نے کہا تھا کہ پاکستان کی تباہی کے ذمہ دار جنرلز، ججز اور جرنلسٹ ہیں سیاستدان تو ننگا ہو چکا مگر وڈیروں کو شرم کبھی نہیں آتی، ہر چند کہ بلاول آکسفورڈ سے فارغ التحصیل ہیں مگر ان کی چال ڈھال وڈیروں کی طرح TAX PAYER MONEYپر بالکل مفت وہ ساری دنیا کے دورے کرتے ہیںان کی سیاسی INTERNSHIP جاری ہے زرداری کمال کے سیاستدان ہیں بیٹے کی تربیت میں قوم کا خون کسی مشاقی سے استعمال کیا ہے اس کی داد دینی چاہیے، پاکستان میں جنرلز، ججز اور بے علم صحافی واردات ڈالتے رہیں گے اور جاہل عوام ان کو اپنا خون دیتے رہیں گے، عجیب منطق ہے کہ عمران خودضمانتیں کروارہے ہیں اورجیل بھرو تحریک کے داعی ہیں، پہلے فوج سے کہتے رہے کہ مجھے واپس لائو اب اپنے فالوورزسے کہتے ہیں مر جائو کٹ جائو مجھے وزیراعظم بنائو ساری دینی جماعتیں عمران کےساتھ ہیں اور لگتا ہے کہ خانہ جنگی ہونی ہے خون بہے مگر یہ خون عوام کا ہو گا کوئی سیاست دان مولوی جنرلز اور میڈیا مالکان محفوظ رہیں گے۔
Prev Post
Next Post