کون ہے جس نے یہ کہاوت نہیں سنی ہوگی کہ ایک مچھلی پورے تالاب کو گندا کردیتی ہے۔ یہ جو پاکستان آج ہمارے سامنے ہے اس کے ساتھ یقین جانئیے یہی حادثہ ہواہے۔ پاکستان کے ساتھ خاکی وردی میں ملبوس طالع آزماؤں نے، جنہیں میں بونا پارٹ کہتا ہوں کہ انہوں نے فرانس کی اس تاریخ کو اپنے لئے صحیفہء جان بنالیا ہے کہ کس عیاری سے نپولین بونا پارٹ نے، جو فوج میں ایک معمولی کورپورل تھا، جسے ہم اپنی عسکری اصطلاح میں جمعدار یا صوبیدار کہتے ہیں، اس انقلابِ فرانس کو جو فرانس کے عوام کے جذبہء حریت کی پیداوار تھا، شہنشاہیت میں تبدیل کردیا تھا اور خود فرانس کا شہنشاہ بن بیٹھا تھا۔ لیکن نپولین نے فرانس کیلئے ملکوں کو فتح کیا اور اپنی شہنشائیت کو فرانس کی عظمت میں بدل دیا۔ فرانسیسی قوم نپولین کی خدمات اور اس کے کارناموں کیلئے اس کے زیر بارِ احسان ہے اور اپنے جذبہء ممنویت کے اظہار کیلئے اس نے پیرس کے قلب میں نپولین کے مقبرے کو قومی یادگار کی صورت میں زندہ رکھا ہے۔ غیر ملکی سیاح نپولین کے مقبرے کی زیارت کرنا نہیں بھولتے اور فرانسیسی قوم تو اپنے عظیم محسن کو تشکر اور ممنویت کے احساسات کے ساتھ یاد کرتی ہے۔ ہماری تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے عسکری طالع آزماؤں نے نپولین کی تقلید کو تو ضرور اپنایا لیکن اس کے جیسے کارنامے نہیں کئے۔ انہوں نے کسی دشمن کو زیر نہیں کیا، کوئی ملک فتح نہیں کیا۔ ہاں زیر کیا تو اپنے عوام کو، فتح کیا تو اپنے ہی ملک کو بار بار فتح کیا لیکن آدھا ملک بھی اپنی ہوس اقتدار کی بھینٹ چڑھادیا۔ اپنے ہی تنِ ملّی کو یوں داغدار کیا کہ اپنا دایاں بازو ہی کٹوادیا اور آج ان کے اس کارنامے کی داد کٹا ہوا بازو، یعنی بنگلہ دیش یوں دے رہا ہے کہ جہاں پاکستان کنگال ہوچکا ہے وہاں بنگلہ دیش ایک آزاد اور حریت پرست ملک بن کر ابھرا ہے اور اس کی معیشت دن دونی اور رات چوگنی ترقی کررہی ہے۔ لیکن ہمارے بونا پارٹ نہ تاریخ سے کچھ سیکھتے ہیں نہ اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں سے کوئی سبق لیتے ہیں اور سبق یوں نہیں لیتے کہ ان کی کوتاہ نظر میں ان کی غلطی غلطی نہیں ہوتی۔ ان کو زعم یہ ہے کہ پاکستان ان کی وجہ سے قائم ہے ، وہ اس کے مالک و مختار ہیں لہٰذا وہ اسے اپنا پیدائشی اور منصبی حق سمجھتے ہیں کہ اپنے مفتوحہ اور مقبوضہ پاکستان کے ساتھ جو چاہیں کریں، جس طور چاہیں اس کا حلیہ بگاڑیں، اس کی مٹی پلید کریں اور پھر اپنے کارناموں پر شرمندہ ہونے کے بجائے فخر کریں اور ان عامیوں کو، جن میں بیدار ضمیر کی اتنی رمق باقی ہو کہ وہ شہنشاہ کے ننگے ہونے پر یہ پکار سکیں کہ شہنشاہ کے بدن پر کوئی کپڑا نہیں ہے، غدار اور ملک و قوم کا دشمن کہیں۔ ایک سڑی ہوئی مچھلی سارے جل کو گندا کرسکتی ہے یہ پاکستان کے تین ماہ پہلے ریٹائر ہونے والے بے ضمیر اور ملت فروش جنرل قمر باجوہ نے انہیں یاد دلادیا جو شاید اس کہاوت کو بھول چکے تھے یا جن کی ناقص تعلیم نے انہیں یہ کہاوت کبھی پڑھائی یا سنائی نہیں تھی۔ موصوف نے پاکستان کے خزانے کو کم از کم بارہ ارب روپے کا چونا تو لگایا ہے اور یہ ان اثاثوں کی مالیت ہے جنہیں وہ اپنے آمدنی کے گوشواروں میں ظاہر کرچکے ہیں یا قوائد نے انہیں ظاہر کرنے پر مجبور کیا۔ تو یہ سوچا جاسکتا ہے کہ ان اثاثوں کی مالیت کیا ہوگی جنہیں ظاہر ہی نہیں کیا گیا۔ایک عام اندازہ یہ ہے کہ جو ظاہر کیا گیا ہے وہ تو آٹے میں نمک کے برابر ہےیا اونٹ کے منہ میں بس تھوڑا سا زیرہ ہے۔ سو اپنی لوٹی ہوئی دولت کے مزے لینے کیلئے موصوف ان دنوں دبئی میں دادِ عیش دے رہے ہیں اور وہیں سے انہوں نے اپنے ایک پسندیدہ لفافہ صحافی پر یہ منکشف کیا کہ وہ عمران خان کے مخالف یوں ہوئے کہ ان کی دانست میں عمران پاکستان کو تباہی اور بربادی کی طرف لیجارہا تھا۔ ان کے دل میں اس قوم کا درد، بقول ان کے، بہت تھا اور یہ وہی قوم ہے جس کے اثاثوں پر انہوں نے بیدردی سے ہاتھ صاف کیا ہے۔ لوٹ مار اور چوری چکاری کو موصوف کرپشن نہیں گردانتے کہ خود ان کا پسندیدہ اور مرغوب کھیل یہی ہے ۔ لہٰذا وہ عمران سے یوں نالاں تھے کہ وہ ان کرپٹ چوروں اور ڈاکوؤں کا احتساب کرنا چاہ رہا تھا جو ان کے محبوب تھے، جیسے نواز شریف، شہباز شریف اور زرداری۔ اور اپنے ان ہی چوروں اور رہزنوں کو انہوں نے پاکستان کے بائیس کڑوڑ عوام پر مسلط کردیا ہے اور ان ڈکیت نے پاکستانی عوام کے خون کا آخری قطرہ تک نوچ لینے کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔ سو قوم کے درد میں باجوہ صاحب اتنے غرق تھے کہ بقول ان کے انہیں راتوں کو نیند نہیں آتی تھی اس اندیشہ میں کہ عمران پاکستان کو تباہی اور بربادی کے کھڈ میں نہ گرادے۔پاکستان کے عسکری طالع آزماؤں کی سامراج سے دوستی اور وفاداری بہت پکی ہے اور اس وفاداری کی تاریخ پڑھنے سے آنکھیں کھلتی ہیں کہ اپنے مغربی آقاؤں کی رضا کی خاطر انہوں نے بار بارپاکستان کی عزت، خود مختاری اور سالمیت کا کس بیدردی اور بے غیرتی سے سودا کیا ہے۔ عمران خان نے وائس آف امریکہ کو جو تازہ انٹرویو دیا ہے اس میں انہوں نے باجوہ کی ملت فروشی کاا حوال بتایا کہ اس بے ضمیر جرنیل نے اپنے سامراجی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ان کے کان بھرے کہ عمران حکومت ان کی علاقائی اور عالمی پالیسیوں کے برخلاف کام کررہا تھا لہٰذا اس کے اقتدار کو ختم کرنا لازمی ہوگیا تھا کہ باجوہ کے آقاؤں کی ناکامی کا خطرہ نہ رہے۔ اب عمران کے ناقدین اور لفافہ صحافی بہت بغلیں بجا رہے ہیں کہ عمران نے، بقول ان کے ، حسبِ عادت ایک اور بہت بڑا یو-ٹرن لے لیا اور اپنے ابتدائی بیانیہ کے برعکس یہ قبول کرلیا کہ امریکہ اس سازش میں شریک نہیں تھا جس کے نتیجہ میں عمران کی حکومت اقتدار سے محروم کی گئی۔ ضمیر فروش کم عقل بھی ہوتے ہیں یا جہاں ان کے حلوے مانڈے کا سوال آجائے وہاں ان کی عقل فوت ہوجاتی ہے اور حلوے کی چکنائی سوچنے کی صلاحیت پر چربی کی تہہ چڑھادیتی ہے۔ سو وہ یا تو اپنی کج فہمی میں یا دیدہ و دانستہ اس ایجنڈا پر عمل کرتے ہوئے جس میں عمران کی مخالفت برائے مخالفت لازمی ہے ، یہ تسلیم کرنے سے قاصر ہیں کہ عمران نے نہ یو-ٹرن لیا نہ اس کے بیانیہ میں کوئی تبدیلی آئی۔ بات عمران کی بس اتنی ہے کہ امریکہ کو شہ دینے والا اور کان بھرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ باجوہ تھا جس نے اس مذموم سازش کا تانا بانا بنا اور اپنا مقصد حاصل کرنے کیلئے اس نے رسوائے زمانہ پاکستانی ملت فروش، حسین حقانی کی خدمات بھی حاصل کیں جس کی رسائی آقاؤں تک باجوہ سے شاید زیادہ ہو۔ عمران دشمنی کی باجوہ کی آگ اپنے مرغوب اور اپنے ہی جیسے لفافہ صحافی کو شریکِ راز کرنے سے سرد نہیں ہوئی بلکہ آتشِ انتقام بلکہ آتشِ ملت فروشی نے باجوہ کو مزید اکسایا اور اس نے معروف اور بیباک صحافی، آفتاب اقبال کے ذریعہ عمران کو بلیک میل کرنے کی نیت سے یہ پیغام بھجوایا کہ اس کے پاس عمران کے ساتھ ملاقاتوں کی ویڈیو لائبریری ہے اور یہ ویڈیو موصوف نے بذاتِ خود بنائی ہیں۔
اب اس سے بڑھ کر اقبالِ جرم کیا ہوگا، ملت فروشی اور ملک کے آئین سے غداری کا منہ بولتا ثبوت اور کیا ہوگا کہ ایک سپہ سالار یہ قبول کر رہا ہے اور شرمندہ ہونے کے بجائے پیشہ ور بلیک میلروں کی طرح اپنے شکار کو دھمکیاں بھی دے رہا ہے کہ باز آجاؤ ورنہ میرے پاس ثبوت ہیں کہ تم نواز جیسے چوروں کے خلاف باتیں کرتے تھے۔ اس سے بدتر کردار اور اخلاقیات کا زوال اور کیا ہوگا یا ہوسکتا ہے کہ ایک سپہ سالار بلیک میلر تھا، خود قبول کررہا ہے کہ وہ خود ویڈیو بنایا کرتا تھا کسی اور سے یہ کام نہیں کرواتا تھا اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں تھی کہ سپہ سالار پیشہ ور بلیک میلروں کو بھی مات دے رہا تھا۔ سپہ سالار، وہ چاہے جتنا بھی خوش فہمی کا شکار ہو، وزیرِ اعظم کا ماتحت ہوتا ہے۔ اپنے حاکم کو بلیک میل کرنے کا قبیح اور لائقِ مذمت کام، پاکستان کے آئین سے غداری ہے، اس حلف سے غداری ہے جو قمر باجوہ نے اپنے بدن پر وردی پہنتے ہوئے اٹھایا تھا کہ وہ ملک اور قوم کے مفادات کا محافظ ہوگا اور آئین اور قانون کا وفادار رہے گا۔ غداری پر پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 6 کا اطلاق ہوتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ عدلیہ جو عمران کے خلاف آدھی رات کو بھی اپنی عدالت سجا کر بیٹھ سکتی تھی وہ باجوہ کے اس کھلے اعترافِ جرم پر حرکت میں آتی ہے یا نہیں؟ تاریخ سے واقف پاکستانیوں کیلئے باجوہ نے جو کچھ کیا وہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ کوتاہ قدوں کو جب ایسا منصب مل جائے جس کے وہ اہل نہ ہوں تو طاقت کا نشہ اور گھمنڈ یہی سب کچھ کرواتا ہے جو باجوہ نے کیا۔ پرویز مشرف کا ابھی انتقال ہوا ہے لیکن جب انہیں اقتدار حاصل تھا تو انہوں نے بھی بہت آسانی اور غرور کے نشہ میں یہ کہا تھا کہ یہ آئین کیا ہے بس ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے جسے میں جب چاہوں ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتا ہوں۔ پاکستان کو ردی کی ٹوکری میں ہی تو پھینک دیا ہے قمر باجوہ اور اس کے چیلوں نے۔ تازہ ترین پیش رفت یہ ہے کہ انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے سربراہ نے اچانک پاکستان کا دورہ کیا ہے، موجودہ حکمراں ٹولہ کی اجازت اور ایما سے، اور انہیں وہاں تک رسائی دی گئی ہے جہاں عسکری طالع آزما بینظیر بھٹو کو بھی جانے کا پروانہ نہیں دیتے تھے جب کہ وہ پاکستان کی وزیرِ اعظم تھیں۔ لیکن رافائل گروسی صاحب کو پاکستان کے نیشنل ریڈیایشن ایمرجنسی کنٹرول سینٹر تک میں داخلہ کی اجازتِ خاص عطا ہوئی۔ پاکستان کے طالع آزماؤں نے اور ان کے کٹھ پتلی حکومتی ٹولے نے پاکستان کو اس حد تک کنگال کردیا ہے کہ اب نوبت ان قومی اثاثوں کی فروخت تک آگئی ہے جن کے بنانے میں اس قوم کے گنے چنے محسنوں نے برسوں اپنا خون پسینہ ایک کیا تھا۔ آج پاکستان کے بنانے والے حضرتِ قائد اعظم کی روح تو بلاشبہ مضطرب ہوگی لیکن ڈاکٹر عبد القدیر خان بھی اپنی لحد میں تڑپ رہے ہونگے کہ کیا اسی دن کیلئے انہوں نے برسوں کی شبانہ روز محنت سے پاکستان کو اٹامک پاور بنایا تھا اور پاکستان کو دنیا کا وہ واحد مسلمان ملک ہونے کا اعزاز ملا تھا جس کے پاس جوہری بم تھا، اسلحہ تھا اور جس کے سبب ازلی دشمن بھارت کی مجال نہیں ہوسکی تھی کہ وہ پاکستان کو آنکھیں دکھانے کی جسارت کرے۔
قومے فروختن وچہ ارزاں فروختن۔
ملت فروش باجوہ اور اس کے ڈکیت کارندوں نے قائد اعظم کے پاکستان کو کہاں پہنچادیا جہاں وہ دنیا کا سب سے بڑا بھکاری ملک بن کر رہ گیا ہے جسے فقر و فاقہ سے بچنے کیلئے اب گھر کے پرکھوں کی یادگاریں بیچنے کی نوبت آگئی ہے۔
؎اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔
Prev Post
Next Post