امریکہ چین اور سرخ لکیر!

52

گذشتہ دو ہفتوں سے امریکہ اور چین کے تعلقات میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے لگتا ہے کچھ ہونے والا ہے چار فروری کو امریکہ نے سائوتھ کیرو لائنا سے کچھ دور بحر اوقیانوس پر ایک چینی جاسوس غبارہ ما ر گرایا تھا چین نے اسکے بارے میں کہا تھا کہ یہ موسمی معلومات حاصل کرنے کے لئے چھوڑا گیا تھا اسکی منزل امریکہ نہ تھی مگر غیر موافق ہوائیں اسے اس سمت لے گئیں یہ جاسوس یا آوارہ غبارہ پانچ دن تک امریکہ کی مختلف ریاستوں کے چکر لگاتا رہا ان پانچ دنوں میں امریکہ کی داخلی سیاست کا درجہ حرارت عروج پر تھا ریپبلیکن پارٹی کے لیڈر کہہ رہے تھے کہ یہ غبارہ چین نے امریکہ کی فوجی تنصیبات کی جاسوسی کرنے کے لئے بھیجا تھا اور اسے جلد سے جلد مار گرانا چاہیے صدر بائیڈن نے اسکے جواب میںکہا کہ اس دو سو فٹ اونچے اور تین بسوں جتنے لمبے غبارے کو انسانی آبادی پر نہیں گرایا جا سکتاریپبلیکن پارٹی کے لیڈر وں نے بائیڈن انتظامیہ پر چین کے مقابلے میں نرم پالیسی اختیار کرنے کا الزام بھی لگایا ادھر چین نے غبارے کو مار گرائے جانے پر احتجاج کرتے ہوے کہا کہ ایک سپر پاور نے ایک موسمی مشین کی وجہ سے ہنگامہ کھڑا کیا ہوا ہے بیجنگ کے اخبار پیپلز ڈیلی نے لکھاہے کہ امریکہ ایک منقسم معاشرہ ہے اور اس نے اپنے اندرونی تضادات کی وجہ سے اس معمولی واقعے کو ایک عالمی تنازعے میں تبدیل کر دیا ہے چین کی کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار نے لکھا ہے کہ اس غبارے کے واقعے نے دنیا کو بتایا ہے کہ یہ عالمی طاقت کتنی نا پختہ اور غیر ذمہ دار ہے اسکے جواب میں امریکہ کی نیشنل سکیورٹی کی ترجمان Adrienne Watson نے کہا کہ چین نے گذشتہ سال یہ جاسوسی غبارے چالیس ممالک میں بھیجے تھے اور یہ بیجنگ کے Surveillance Program کا حصہ ہیں ترجمان نے کہا کہ چین نے ابھی تک امریکہ کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے کا کوئی معقول جواز پیش نہیں کیا۔
دو ہفتے تک جاری رہنے والے اس سفارتی تصادم میں اسوقت قدرے ٹھرائو آیا جب سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے یہ خبر دی کہ سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن سترہ فروری کو میونخ میں ہونے والی دو روزہ سکیورٹی کانفرنس میں چین کے وزیر خارجہ Wang Yi سے ملاقات کریں گیں اتوار کو ہونے والی اس میٹنگ میں دونوں وزرائے خارجہ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایک نئی سرد جنگ کسی کی بھی مفاد میں نہیںاس موقع پرانٹونی بلنکن نے کہا کہ چین نے اگر روس کو یوکرین کے خلاف عسکری امداد دی تو اسکے نتیجے میں سرد جنگ سے بھی زیا دہ خطرناک صورتحال پیدا ہو سکتی ہے انٹونی بلنکن نے میونخ میں ایک ٹیلیویژن انٹرویو میں کہا کہ بعض انٹیلی جنس معلومات کے مطابق چین عنقریب روس کو عسکری معاونت مہیا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے سیکرٹری آف سٹیٹ نے کہا کہ صدر بائیڈن صدر شی جن پنگ سے کہہ چکے ہیں کہ چین نے اگر روس کو فوجی امداد دی تو اس سے صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہو جائیگی اور بیجنگ کا یہ فیصلہ ایک سرخ لکیر کو عبور کرنے کے مترادف ہو گا مبصرین کی رائے میں چین کی اس تنازعے میں اس انداز سے شمولیت اسے دو کی بجائے تین عالمی طاقتوں کی جنگ بنا دے گابیجنگ کے اس ممکنہ اقدام کے بعد اس جنگ میں ایک طرف روس‘ چین‘ ایران اور شمالی کوریا ہوں گے اور دوسری طرف امریکہ‘ یوکرین‘ یورپی ممالک‘ جاپان‘ اور جنوبی کوریا ہوں گے
میونخ میں صحافیوں نے انٹونی بلنکن سے ان انٹیلی جنس معلومات کے بارے میں استفسار کیا کہ جن میں چین نے مبینہ طور پر روس کو فوجی امداد دینے کی بات کی ہے اسکے جواب میں سیکرٹری آف سٹیٹ نے کہا کہ وہ اسکی تفصیل بیان نہیں کر سکتے مگر اتنا کہہ سکتے ہیں کہ روس کئی مرتبہ چین سے ہتھیاروں کی فراہمی کا مطالبہ کر چکا ہے اور اب بیجنگ نے اس پر سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا ہے
اس سکیورٹی کانفرنس کے آغاز سے پہلے میونخ میں چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان Wang Wenbin نے کہا کہ چین روس کیساتھ اپنی تزویراتی شراکت داری کو بڑھانے اور باہمی تعلقات کے ایک نئے دور کے آغاز کے لئے تیار ہے اس بیان سے یہ نتیجہ تو اخذ کیا جا سکتا ہے کہ چین جلد یا بدیر روس کو فوجی امداد دینے کا اعلان کر سکتا ہے مگر یہ فیصلہ اس لیے نہایت مشکل ہو گا کہ اسکے بعد امریکہ کے علاوہ یورپی یونین اور برطانیہ بھی چین سے معاشی تعلقات منقطع کر دیں گے گذشتہ دو سالوں میں کووڈ کی وجہ سے چین کی گرتی ہوئی معیشت اسے شاید مغربی ممالک کیساتھ ایک عالمی جنگ کے میدان میں اترنے سے باز رکھے میونخ کانفرنس میں جرمنی‘ فرانس اور دیگر مغربی ممالک نے یوکرین کی معاشی اور عسکری ہر اعتبار سے بھرپور مدد کرنے کے عزم کا اظہار کیا لگتا ہے کہ چوبیس فروری کو یوکرین جنگ کے ایک سال مکمل ہونے سے چند دن پہلے منعقد کی گئی اس کانفرنس میں یورپی ممالک نے امریکہ کی اس پالیسی کو تسلیم کر لیاہے کہ اب اس جنگ کو پایہ تکمیل تک پہنچایے بغیر کوئی چارہ نہیںرہا صدر بائیڈن نے اتوار کے دن اچا نک یوکرین کے دارلخلافے Kyiv پہنچ کر نیٹو اتحادیوں کو یہ پیغام دیا کہ وہ روس کی مکمل شکست تک اس جنگ کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں بیس فروری کے واشنگٹن پوسٹ نے اسے ایک غیر معمولی دورہ قرار دیا ہے The visit, however brief, represented one of the most remarkable presidential trip in modern historyایک سال پہلے روس نے امریکہ کی سرخ لکیر کو عبور کر کے ایک بہت بڑی تباہی کو دعوت دی تھی اب دیکھنا یہ ہے کہ چین امریکہ کی سرخ لکیر کو عبور کرتا ہے یا نہیں!!!!