کیاپاکستان ڈیپ سٹیٹ ((Deep Stateہے؟

57

اللہ تیری شان۔ آج کچھ لوگ کھلے عام جنرل قمرباجوا کو طعنے مار رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میںجو ہو رہا ہے اس کا ذمہ دار باجوہ ہے۔ کیونکہ پاکستان اچھا بھلا ترقی کی راہ پر گامزن تھا۔ کہ باجوہ نے شب خون مارا اور عمران خان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ کہتے ہیں کہ اس نے مقبو ل صحافی اور ٹی وی شخصیت آفتاب اقبال کو اپنے انٹرویو میں بتایا کہ عمران خان ملک کو تباہ کرنے والا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ باجوہ نے عمران خان کو ہٹا کر پاکستان پر احسان کیا؟ لیکن حقیقت اس کے بر عکس تھی۔ عمران خان پاکستان کو ایک نازک موڑ پر تباہی سے بچا کرلے جا رہا تھا، جب کہ باجوہ نے اس کی جگہ ایک ٹھگوں، چوروں اور نا اہلوں کا ٹولہ لا کر بٹھا دیا۔ مخالفین یہ ماننے پر تیار نہیں کہ ایک سازش کے ذریعے حکومت بدلی گئی۔ لیکن یہ اچھی بھلی سازش تھی جس میں امریکہ، بیرون ملک پاکستانی غدار، اور اندرون ملک غدار سب شامل تھے۔اب تو خیر کھل کھل کر حقائق آشکار ہو رہے ہیں۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ پاکستان کی ترقی اس کے دشمنوں کو بالکل نہیں بھائی۔ اس لیے کہ پاکستان نہ صرف ایک ایٹمی طاقت ہے، یہ ایک اسلامی ریاست بھی ہے۔ اگر دنیا میں ایک ایٹمی طاقت جو اسلامی بھی ہو ابھر آئے تو اسلام دشمنوں کا کیا ہو گا؟ وہ تو صدیوں سے مسلمانوں کو پستی کی طرف دھکیلتے آئے ہیں۔اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ جیسے سپین سے مسلمانوں کا انخلا۔ مسلمانوں میں آپس میں جنگیں کروا کے، جیسے ترکی اور سعودی عرب کے درمیان۔ سلطنت عثمانیہ کا زوال، وغیرہ وغیرہ۔ اسی لیے جب مسلمانوں کی ایک نئی ریاست پاکستان کی شکل میں بنی تو ان دشمنوں کو آگ لگ گئی۔اور وہ روز اول سے اس کو تباہ کرنے پر تل گئے۔ پاکستان میں ہی کیا ، ہر مسلمان ملک میں غدار مل جاتے ہیں جو ان دشمنوں کے تلوے چاٹتے ہیں۔ ا سلام دشمنوں نے پاکستانیوں کو اچھی تعلیم سے محروم رکھا۔ ان کو کرپشن کا رستہ دکھایا اور ان کی فوج کو ٹریننگ کے بہانے اپنے پاس بلایا جیسے کہ جنت کی ہوا دکھا دی ہو۔پاکستان کی فوج کا ہر بڑا افسر کبھی نہ کبھی امریکہ، یورپ میں ٹریننگ ضرور لے کر آیا ہے۔ ان میں سے جو ٹریننگ میں اپنے اصلی جوہر دکھاتے تھے، ان کی ترقی پاکستانی حکمرانوں کویہ کہہ کر کروائی جاتی تھی۔ ان کے بچوں کو امریکہ اور یوروپ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے وظائف دیئے جاتے تھے اور ہیں۔قصہ مختصر، ہماری فوج، خواہ بری، فضائی یا بحری، ان سب کے اوپر کے بڑے افسران امریکہ بہادر کے تربیت یافتہ ہیں اور ان کے تابعدار۔اس لیے پاکستان میں جتنے بھی مارشل لاء لگے وہ سب امریکہ بہادر کی مرضی سے لگائے گئے۔ البتہ جب جنرل پرویز مشرف کا مارشل لاء لگا تو دنیا کے صنعت یافتہ ملک اس طرز حکومت کے خلاف ہو چکے تھے۔ اس لیے امریکہ نے مشرف کو اپنی سفارتی دھونس ماری کر کے قبول کروایا۔ اس کی بڑی وجہ پاکستان کی معیشت کی بد حالی تھی اور پاکستان دیوالیہ ہونے کےلئے پر تول رہا تھا۔ پاکستان کا دیوالیہ ہونا اس وقت کی دنیا میں ایک انتہائی بُری مثال بنتا کیونکہ کتنے ہی اور ملک اس کی مثال پر عمل کرنے کے لیے تیار کھڑے تھے۔۔ مشرف نے آ کر بیرونی قرضوں کی ادا ئیگیوں میں پانچ سال کی تاخیر کی منظوری کروائی ۔ اور دوسرے اقدامات سے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔
مندرجہ بالا حالات کے مد نظر یہ کوئی تعجب نہیں کہ باجوا نے امریکہ کے ایک ادنیٰ سفارتکار کے حکم پر عمران خان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ در حقیقت جنرل باجوہ کے عمل نے پورا ایک کیڑوں کا ڈبہ کھول دیا۔لوگ اب سمجھنا شروع ہو گئے ہیں کہ کس طرح ہماری پیاری افواج نے کبھی بلا واسطہ اور کبھی بالواسطہ ملک پر حکمرانی کی۔ ایک انٹرویو میںکسی نے امریکہ کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن سے پوچھا کہ یہ ڈیپ سٹیٹ ((Deep state کیا چیز ہے؟ ہیلری نے کہا یہ اصطلاح علم سیاست کے ماہرین نے اختراع کی ہے۔ یہ ایسے ممالک کے نظام حکومت کی طرف اشارہ کرتی ہے، جیسے پاکستان، جہاں بظاہر جمہوری حکومت حکمرانی کرتی ہیں، لیکن در حقیقت پس پردہ وہاں فوج اور حساس اداروں کا حکم چلتا ہے۔ اگر آپ انتخابات جیت بھی لیں لیکن وہ آپ کو پسند نہیں کرتے تو آپ کو ہٹایا جا سکتا ہے، گرفتار کروایا جا سکتا ہے ، ملک بدر کیا جا سکتا ہے، حتیٰ کہ آپ کو قتل بھی کروایا جا سکتا ہے۔ اب آ پ غور کریں کہ ایوب خان نے تقریباً دس برس حکومت کی لیکن اس کے بعد سے فوج بظاہر تو آتی جاتی رہی لیکن جو جمہوری حکومتیں بنیں وہ بھی در اصل فوج کی مرضی سے ہی چلتی تھیں۔پاکستان کو غیروں نے تو کیا لوٹنا تھا جو اس کے اپنوں نے لُوٹا۔ کیا بات ہے؟ اور تو اور جن لوگوں سے امید تھی کہ ہماری حفاظت کریں گے، وہی ہمیں لوٹ کر کھاتے رہے۔ جس کا کسی کو گمان بھی نہ تھا۔ در اصل یہ ۱۸۵۷ کی جنگ ِآزادی سے پہلے کی بات ہے جب ہندو ملازمین نے انگریز افسروں کے گھر پھلوں کے ٹوکرے پہنچانے شروع کیے۔ پھلوں سے بات کہیں آگے نکل گئی۔ انگریز افسر بھی آخر انسان تھے۔ وہ بھی ڈالی کے جال میں آگئے۔یہ بات تو محترم قدرت اللہ شہاب نے اپنے شہاب نامہ میں رقم کی ہے۔جب پاکستان علم وجود میں آیا تو شاید مفاد پرست طبقہ نے کچھ دیر توقف کیا ہو لیکن قائد اعظم کی وفات کے بعد انہوں نے پر پُرزے نکالنے شروع کیے۔ جب تک ایوب خان کا مارشل لاء لگا تو آبادکاری کے محکمہ میں کھلم کھلا رشوت کا بازار گرم ہو چکا تھا۔ ایوب خان نے مارشل لاء کے تحت تمام سرکاری محکموں میں اہم ذمہ واریوں کے ساتھ فوجی افسر بٹھا دیے، اور فوج کے سب شعبوں سے نمائندہ افسر لیے۔ ان افسروں نے دس سال سول افسروں کے ساتھ کام کیا اور وہ تمام گر سیکھے جن سے وہ افسر اوپر کی آمدنی بناتے تھے اور مراعات حاصل کرتے تھے۔اس طرح فوج دن بدن مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی اور نہ صرف فوج کا حجم بڑھتارہا ، اس کے اخراجات بھی۔ اسی دوران فوج نے اپنے ریٹائرڈ ساتھیوں کی مدد سے کاروبار بھی کرنے شروع کر دیے۔فوج نے بینک بنائے، ہوائی کمپنیاں بنائیں، ملیں بنائیں ، اور طرح طرح کی فیکٹریاں۔ ان کے اس شعبہ سے فوجی دوگنا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کیونکہ اگر انہیں کوئی سامان خریدنا ہوتا ہے تو اپنے کاروباری اداروں سے سودا خرید کر منافع کماتے ہیں جو ان کی جیبوں میں جاتا ہے۔پاکستان کی ایک سکالر خاتون عائشہ صدیقہ نے اس موضوع پر سیر حاصل کتاب لکھی ہے جس میں سب تفصیل بیان کی گئی ہے۔کتاب لکھنے کے بعد وہ پاکستان سے چلی گئیں ورنہ کوئی بعید نہیں تھا کہ ان کو مروا دیا جاتا۔فوج کی تعداد اب چھ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ 1971 کے بعد سے ہندوستان کے ساتھ کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی۔ کارگل میں بھی چھوٹے پیمانے پر لڑائی ہوئی جس سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔جب سے پاکستان نے ایٹمی ہیتھیار بنا لیے ہیں، اسے اب اتنی بڑی فوج رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟پاکستان ہر سال اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاعی اداروں کی ضرورتوں پر خرچ کرتا ہے۔ملاحظہ ہو:
مالی سال 2003-04 پاک روپیہ 195.2 billion
مالی سال 2007-08پاک روپیہ 289.8 billion
مالی سال 2012-13پاک روپیہ 627 billion
مالی سال 2018-19پاک روپیہ 1.1 trillion
مالی سال 2021-22پاک روپیہ 1.4 Trillion
غور کا مقام ہے کہ سن ۲۰۰۳ء سے ۲۰۲۲ء تک میں دفاعی بجٹ میں سات گنا سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ ملک کی معیشت پر بے پناہ بوجھ بن چکا ہے۔ فوج کا ہر سال مطالبہ بڑھ جاتا ہے اور حکومتیں ان کے دبائو میں آکر مان لیتی ہیں جبکہ ان کے پاس اتنا مالیہ بھی نہیں ہوتا۔ اور حکومت اندرونی بینکوں سے قرضے لیکر، فوج کا منہ بند کرتی ہیں۔ بنیادی طور پر اس کو بھتہ خوری کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ ان کے اور عام بھتہ خوروں میں کوئی فرق نہیں۔وہ بھی بندوق دکھا کر بھتہ لیتے ہیں اور یہ بھی۔ ہماری فوج دو دو ہاتھوں سے پاکستانیوں کو لُوٹتی ہے۔ ایک ہاتھ سے تو بجٹ کے ذریعے اور دوسرے اپنی انڈسٹریز کے ذریعے، جنکی کُل مالیت کی معلومات مارکیٹ سے نہیں دستیاب۔ ایک اندازے کے مطابق، فوج کے کاروباری اداروں کی مالیت پاکستان کے جی ڈی پی کا 7%-9% ہے۔ جو امریکن ڈالروں میں دس سے پندرہ بلین بنتا ہے۔یہ اندازہ بھی پندرہ سال پرانا ہے۔ موجودہ تخمینہ تو کہیں زیادہ ہو گا۔ملک کے تجارتی نمائیندے فوج کے ان اداروں سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ فوجیوں کو جو مراعات حاصل ہیں وہ ان کو نہیں۔چند روز پہلے ملک کے نامور وکیل جناب بابر اعوان نے ا یک و ڈیو شو میں بتایا کہ پاکستان کا کل بجٹ ۸ء۸ کھرب روپے ہے۔ اور آمدن صرف ۵ء۵ کھرب ۔ ادھر فوج کا نیا بجٹ ۸ء۱ کھرب ہے، پانچ کھرب قرضوں پر سود اور واپسی پر درکار ہے۔ سب ملا کر، کل اخراجات ۳ء۱۱ کھرب بنتے ہیں۔ جب کہ آمدنی صرف ساڑھے پانچ کھرب۔ ان حالات میں کیا فوج پر اتنا زیادہ خرچ پاکستان برداشت کر سکتا ہے؟آپ خود ہی سوچئیے۔موجودہ حکومت سے تو توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ فوج کو اپنا بجٹ کم کرنے کا کہے۔عمران خان اگر اکثریت سے عام انتخابات میں جیت کر قومی حکومت بناتے ہیں، تو وہ شاید فوج پر اثر انداز ہو سکیں؟ اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ کیوں فوج پوری قوت کے ساتھ پی ٹی آئی کی مخالفت کر رہی ہے ۔ فوج کا سیاست میں اس قدر اثر انداز ہونا ملک سے غداری کے مترادف ہے۔ اس کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے نہ کہ سیاست میں دخل ا ندازی کرنا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ فوج صرف جرنیلوں اور کرنلوں کی نہیں۔ اس میں اکثریت نو جوانوں کی ہے جو ہر جنگ کے موقع پر جانوں کی قربانی دیتے ہیں۔ اور سب جنرل اور کرنل بھی راشی اور کرپٹ نہیں۔ اس لیے یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم ساری فوج کے خلاف ہیں۔ البتہ فوج کے سربراہوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیئں اور فوج کی تعداد کو ایک منصوبہ کے تحت بتدریج کم کرنا شروع کر دیں۔ نوجوانوں کو کوئی ہنر سکھائیں تا کہ وہ فوج سے نکل کر کوئی کاروبار کر سکیں یا ملازمت۔ حکومت کو چاہیے کہ فارغ فوجیوں کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے مواقع دیں۔اور ان کو سرکاری نوکریوں میں ترجیح دیں۔ان کے علاوہ بھی اور طریقوں سے ایسی اصلاحات کریں کہ فوج کے اخراجات بھی کم ہوں اور فارغ فوجیوں کو بھی با عزت روزگار ملے ۔