دل گرفتہ وزیر دفاع کے مجرمانہ اعترافات!

59

ایک جمہوری مملکت کا وزیر دفاع اصولی طور پر بہت زیادہ اہمیت کا حامل شخص ہوتا ہے ،یا ہونا چاہیے۔ اگرچہ ایسے عہدے دار کا عقلمند ہونا بھی بہت ضروری ہے کہ جملہ عسکری ادارے اس کے براہ راست ماتحت ہوا کرتے ہیں۔ آرمی چیف نے بھی اگر وزیر دفاع سے ملاقات کرنی ہو تو وہ وفاقی سیکرٹری دفاع کی وساطت سے مل سکتا ہے ۔وزیر دفاع ہی دفاع سے متعلق ہمہ جہت معاملات طے کرنے ، بیرونی ممالک سے طرح طرح کے معاہدے کرنے اور اس ضمن میں مذکرات کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اور اگر وہ مملکت اپنی سکیورٹی کے حوالے سے کچھ خدشات و خطرات بھی رکھتی ہو ،تو صورت حال اور زیادہ حساس ہو جاتی ہے۔ وزیر دفاع کا نفسیاتی طور پر موزوں اور متوازن ہونا بھی لازم خیال کیا جاتا ہے ۔اس کا ایک سیاستدان کے طور پر کسی قسم کی خیانت مجرمانہ پس منظر نہیں ہونا چاہیئے۔اس کی شخصیت ایسی ہونی چاہیئے ،جو سخت ٹریننگ اور کڑے ڈسپلن کے عادی افسران سے ، ان کی ذہنی تربیت کو مد نظر رکھتے ہوئے،نہایت ذہانت اور دلیری کے ساتھ اور اپنی حکومت کی طے کردہ حکمت عملی اور دفاعی ترجیحات کے مطابق کام لینے کی اہلیت رکھتا ہو۔ یہاں رک کر پہلے آپ کو بتادوں کہ اچانک ابن انشا کے ایک شعر نے دماغ کے اردگرد چکر لگانے شروع کر دیئے ہیں ۔آپ بھی سن لیں ، شاعر کہتا ہے ؛
؎یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشاؔ جی کا نام نہ لو کیا انشاؔ جی سودائی ہیں!
اب آپ خود ہی بتایئےکہ اگر ایک بزرگ شاعر ،جو اب اس دنیا میں بھی نہ ہو ، ایسی باتوں کو ،جو ہم ابھی کررہے تھے ،جھوٹی باتیں کہہ رہے ہیں اور ساتھ یہ بھی بتا رہے ہیں کہ یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں،تو پھر ایسی باتوں سے پرہیز بلکہ گریز ہی بہتر ہے ۔ چلیئے اپنے والے لوکل وزیر دفاع خواجہ آصف کی ایک حیران کن گفتگو پر توجہ دیتے ہیں، جو انہوں نے اپنے آبائی شہر سیالکوٹ کے ایک مقامی کالج میں جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد کی ۔ خواجہ آصف نے اپنے دل گرفتہ خطاب کے بعد کامیابی حاصل کرنے والے لاء گریجویٹس میں شیلڈز بھی تقسیم کیں تھیں ۔تعلیم مکمل کرنے والے پرجوش نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے یہ بتانا نہایت ضروری اور برمحل خیال کیا ہے کہ ان نوجوان بچوں کا وطن عزیز ڈیفالٹ ہو چکا ہے،یعنی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ ابھی سے اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ؛ چونکہ ان کا ملک ڈیفالٹ ہو چکا ہے ، اس لیے انہیں ایک نادہندہ مملکت سے کوئی اچھی توقع یا امید وابستہ نہیں کرنی چاہیئے۔اور اپنی بقیہ زندگی علامہ اقبال کی اس تجویز کے مطابق ترتیب دینے کی کوشش کرنی چاہیئے جس میں انہوں نے فرمایا تھاکہ
اپنی دُنیا آپ پیدا کر اگر زِندوں میں ہے
سرِّ آدم ہے، ضمیر کُن فکاں ہے زندگی!
مطلب خواجہ آصف نے نژاد نو کے ذہن سے ایک فلاحی اور اپنے شہریوں کے لیے ذمہ دار ریاست کے تصور کا چوغہ نوچ کر اتار پھینکا ہے۔اس حیرت انگیز وزیر دفاع نے نوجوان نسل کو بتایا ہے کہ اس جمہوری ریاست کے موجودہ ابتر معاشی حالات کے ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ، بیورو کریسی اور سیاستدان سب ہیں۔ستم ظریف کا خیال ہے کہ نوجوان طالب علم بیوروکریسی اور سیاستدانوں کے بارے میں تو جانتے ہیں ،یعنی یہ کہ سیاستدان خواجہ آصف جیسے لوگ ہی تو ہوتے ہیں،اور بیوروکریسی انہی سیاستدانوں کے ساتھ کار سرکار انجام دینے والے افسران ہوتے ہیں ،جو اپنے لئے ہمہ قسم اور ہمہ جہت مراعات کا تعین اور نوٹیفکیشن خود ہی کر لیتے ہیں۔لیکن ستم ظریف کا تاثر ہے کہ نژاد نو” اسٹیبلشمنٹ ” کے بارے میں شاید زیادہ نہیں جانتی۔لہٰذا جاننا اور بتانا چاہیئے کہ اسٹیبلشمنٹ کسے کہتے ہیں اور یہ کیا ہوتی ہے۔میں نے ستم ظریف سے پوچھا کہ اچھا تم بتاؤ کہ اسٹیبلشمنٹ کسے کہتے ہیں؟ بولا پاکستان میں تو فوج کو کہتے ہیں۔میں نے کہا کہ دوسرے ممالک میں کسے کہتے ہیں ؟ کہنے لگا دوسرے ممالک میں فوج کا درجہ سول اتھاریٹیز کے ماتحت ادارے کے طور پر آتا ہے۔لہٰذا وہاں اسٹیبلشمنٹ سے مراد مملکت کے جمہوری طور پر منتخب نمائندے اور ان کا قائد ایوان خیال کئے جاتے ہیں۔اچھا تو پاکستان میں فوج کو اسٹیبلشمنٹ کیوں سمجھا جاتا ہے ؟ چونکہ پاکستانی اپنی ولادت کے ساتھ ہی فوج سے محبت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔اور یاد رکھنا چاہیے ،جس سے حد درجہ محبت کی جائے ،جس نے آپ کے دل و دماغ پر پورا تصرف حاصل کر رکھا ہو ،وہی آپ کو اپنے اشاروں پر چلانے والی اسٹیبلشمنٹ کہی جاسکتی ہے ۔یہ کیا بات ہوئی؟یہی بات ہے ،محبت کریں گے تو اپنی مرضی و منشا دان کرنی پڑے گی۔یاد رکھیے محبت اپنی قیمت خود طے کرتی ہے ۔ہمارے والی محبت جب اپنی قیمت طے کر کے وصول بھی کر لیتی ہے تو یہ سیاستدان اور یہ بیوروکریٹ تلملانے لگتے ہیں۔اور انگشت نمائیاں کرنے لگتے ہیں ۔ستم ظریف نے ایک سراسر احمقانہ سوال کیا ،کہنے لگا کہ اگر ہم اس طرح کی محبت کرنا بالکل چھوڑ دیں ، کیونکہ اکیسویں صدی محبت کی اسیری کی نہیں ، برابری کی بنیاد پر دوطرفہ تعلق کی آزادی اور اختیار کی صدی ہے ۔میں نے اس نادان کو سمجھایا کہ یہ وہ والی محبت نہیں، یہ زبردستی والی محبت ہے۔جو کی نہیں ،کروائی جاتی ہے۔ایسی محبت سے جز بغاوت رہائی ممکن نہیں۔ یہ سن کر ستم ظریف کا منہ مزید لٹک گیا۔
وزیر دفاع نے کالج کے نوجوانوں کو مزید بتایا کہ ملک کی معیشت کو مستحکم بنانے کے لیے ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہو گا۔شکر ہے کہ کالج کے کسی شوخ طالب علم نے یہ نہیں پوچھ لیا کہ خواجہ صاحب کیا حیران کن بات ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھی سیاستدان ،بیوروکریٹ اور آپ کی مبینہ ” اسٹیبلشمنٹ” آج تک اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو سکے؟ اور کیا وجہ ہے کہ اپنے پیروں پر کھڑے نہ ہونے کے باوجود یہ سارے کے سارے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کئے جا رہے ہیں؟ کیا وجہ ہے ڈیفالٹ ہو چکی مملکت کے سیاستدان ،بیوروکریٹ اور اسٹیبلشمنٹ کے لوگ دنیا کے دولت مند ترین لوگ ہیں ؟ ان کے اندرون ملک اور بیرون ملک ہوشرباء اثاثے ہیں۔؟ کیا وجہ ہے کہ سارا فضل وکرم مملکت کے شہریوں کے بجائے ان تین "پاکٹ مار گروہوں” میں تقسیم ہو جاتا ہے؟ یہ کون سی پولیٹیکل سائنس ہے کہ قرض کی رقم یہ کھا جائیں اور واپسی کی رقم عام لوگوں کی جیبوں سے نکالی جائے؟
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کالج کے طالب علموں کو اپنی ساس ماں سمجھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی شکائتیں بھی لگائیں،انہوں نے کہا کہ 1500کنال پرگالف کلب، کرایہ500روپے،وہاں "اشرافیہ” شام گزارتی ہے ، یہ جو سیاست کےسب سےبڑے "مامے بنےہوئےہیں،2گالف کلب بیچ دیں،تو پاکستان کاایک چوتھائی قرضہ اترجائے گا. ویسے میں حیران ہوں کہ کالج کے بچوں سے شکائتیں لگانے کی بجائے ،بطور وزیر دفاع یہ حضرت ملک بھر کے گلف کلبوں کی لیز ختم کر کے اور اپنے بتائے نسخے کے مطابق اس زمین کو فروخت کرکے خود ملک کے سر چڑھا قرضہ کیوں نہیں اتار دیتے۔ستم ظریف کہتا ہے کہ بستی میں غنڈوں کے بھتہ گیر گروہ اندر سے آپس میں ملے ہوئے ہوتے ہیں۔وہ مجبور و مقہور اور بے نوا لوگوں کے سامنے ایک دوسرے پر سنگین الزامات کا اعادہ کرتے رہتے ہیں۔لیکن وہ یہ سب اپنی دادا گیری کو دوام دینے کے لیے کرتے ہیں۔تاکہ عام لوگوں کا غصہ ایک حد سے تجاوز نہ کر جائے ۔ستم ظریف کی رائے یہ ہے کہ اگر خواجہ آصف بطور وزیر دفاع کچھ نہ کرسکنے پر پشیمان اور دل گرفتگی کے عالم میں کئے گئے اپنے مجرمانہ اعترافات پر قائم ہیں ، تو پھر یہ باتیں انہیں خودکشی کرنے سے پہلے اپنے آخری پیغام میں لکھنی چاہیے تھیں۔ لیکن ،امر واقعہ یہ ہے کہ وہ اب بھی وزیر دفاع کے عہدے پر براجمان اور اس نابکار سسٹم سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے ایک ہیں!!!!