جمہوریت بوجھ نہ بن جائے !

49

راوی کا دل و جان سے اس بات پر یقین کامل ہے کہ جو رستہ احکام ِ خداوندی کے خلاف گامزن رکھے انجام عاد و ثمود جیسا ہی ہوتا ہے ہمارے یہاں جمہوریت کو تو ویسے ہی برائے نام دکھاوے کے لئے پیش کیا جاتا رہا جس کا تسلسل ابھی بھی رواں ہے کیونکہ مقتدر حلقوں ،ان دیکھی طاقتوں کی نرسری میں جمہوریت کو اتنا ہی پروان چڑھنے دیا گیا جتنی وقت کے باغبان کی مرضی تھی یعنی جمہوری شعور کو پنپنے سے روکا بھی گیا اور جمہوری ادوار کی راہ میں آمریت کے طویل طویل ناکے بھی لگا کر قوم کو غلامی کی حبس بیجا میں رکھا گیا 75سال کی ریاست میں بسنے والے باسی قومی شعور ،ہم آہنگی ،قومی یکجہتی جیسے عزائم سے بے بہرہ رہ جائے جیسے قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمان اتحاد ،تنظیم ،یقین ِ محکم کو ہم نہ جان سکے نہ اپنا سکے اور نہ ہی ان کے حصول کوئی جہدوجہد کارفرما رہی ہے آئین میں ہماری ارض ِ ِ پاک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے درج کیا گیا ہے لیکن وطن ِ عزیز میں اسلامی نظام کے لئے سیاست تو کی گئی مگر اسلامی نظام کو عملی طور پر کبھی بھی نافذ نہیں کیا گیا اقتدار کے پجاری ہر بار نئے نئے ناموں انوکھے نعروں سے سفر کرتے ہوئے نئی صدی کی چوکھٹ پر 23سال گزارنے کے باوجود قوم کی بنیادی ضرورتیں کیا پوری کرتے وہ سودی نظام سے ہی چھٹکارا نہ دلا سکے یوں اسلامی تعلیمات کے کلیدی بنیادی نکتے سے انحراف کی وجہ سے عذاب ِ الٰہی معاشی بدحالی کی صورت نازل ہے جس کا حل روشن خیال معاشی ماہرین کے اذہان میں نشوونما ہی نہیں پارہا کیونکہ وہ دین ِ اسلام کے اس نکتے کو اہمیت ہی نہیں دے رہے کہ سود کا لین دین کرنا اللہ تبارک تعالی سے جنگ کرنا ہے ( استغفراللہ ) یہ 170 ارب کا ضمنی بجٹ یہ پٹرول گیس اور بجلی کی قیمتوں میں ازحد اضافے۔ کیا یہ عوام کو جمہوری نظام کی حمایت میں سیاسی جماعتوں کو اپنا ووٹ دینے کی سزا ہے ؟ جنھیں عوام نے پارلیمان میں اپنے ووٹ کی مدد سے مسند نشین کیا وہی لوگ ٹیکس در ٹیکس اور اغیار کے کہنے پر مہنگائی کے زہر آلود تیر خلق ِ خدا کے سینوں میں اُتار رہے ہیں کیوں عوام کو پھر غیروں کا غلام بنایا جارہا ہے اس میں سربستہ مفاد کن طبقات کا ہے ؟آج تک ان سودی قرضوں کے معاہدوں کو ملفوف ہی رکھ کر نظام معیشت کی کمزور کمر پر ڈال دیا گیا اور ان قرضوں کی سود سمیت واپسی عوام اپنے وسائل سے،محدود ذرائع آمدن سے یا پھر مہنگائی کے جبر سہتے ہوئے ادا کر رہی ہے میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ قرضے لینے پر یا نہ لینے پر کسی بھی حکومت اور عوام کے مابین ریفرنڈم کروایا جاتا تو جیت نہ لینے والوں یعنی عوام کی ہوتی کیونکہ قرضے حکومتیں لیتی ہیں مگر اس کی ادائیگی عوام کے ذمے ہو تی ہے اس ناانصافی پر سب سے زیادہ سیخ پا وہ طبقہ جو گزشتہ دہائی کی حکومتوں میں خطِ غربت کی لکیر کے نیچے رہنے پر مجبور کر دیا گیا اور اس کے اسباب سود سے مزین قرضے ہیں جن سے مخصوص اشرافیہ ایوب آمریت سے فیض یاب ہو رہی ہے اُس زمانے میں ذکر بائیس خاندانوں کی امارت کا ہوتا تھا اب شاید یہ بائیس ہزار ہو چکے ہیں جبکہ دوسری جانب غریبی خواہشات جو قرض کے ملبے تلے انتہائی گہری کھائی میں دفن ہیں اور قحط الرجال کا قحط اس قدر بڑھ چکا ہے کہ جن معاشی ماہرین یا مشہور شخصیات نے غریب کو مزید غریبی کے اندھیروں سے دوچار کیا ہے اُس کے جواب میں موجودہ معاشی ماہرین کے پاس کوئی آب ِ مقطر کا چشمہ نہیں جو بنیادی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے چھوٹے طبقات کی پیاس بجھاسکے مگر اہل سیاست اقتدار کے متمنی اپنی منقار کھولے تخت نشینی کے لئے بیتاب مگر اہلیت سے تہی دست جس سے وطن ِ عزیزاور اس کے خاک نشیں ابھی تک ضروریات زندگی کی کمی پورا کرنے سے محروم ہیں حالیہ مہنگائی نے سیاست اور جمہوریت دونوں کے نقاب اُلٹ دئیے ہیںگیس و بجلی کا بحران موجود مگر قیمتیں بڑھ گئیں دودھ،گھی اور بچوں کے بسکٹ بھی ٹیکس کی زد میں ہوں تو اعتماد و اعتبار کی فضاء عوامی سطح پر اوجھل ہوجاتی ہے کیونکہ سیاسی مفکرین معاشی بہتری کے اقدامات کرنے کی بجائے انتخابات کرنے نہ کرنے کے منصوبوں میں گم ہیں وہ مہنگائی کی سطح نیچے لانے کی بجائے اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے میں مگن ہیں ہوشربا مہنگائی میں وڈیو،آڈیو کالز کی سیاست،اور جو عوام کاپیٹ بھرنے کے اقدام نہ کرسکے اب وہ جیل بھرنے کی ترغیب میں پیش پیش ہیں ان حالات میں تجسس و خوف کے طاری ہونے سے یہ بیان ذہن پر حاوی ہونے سے نہیں کتراتا کہ مستقبل قریب میں مذکورہ جمہوریت کہیں بوجھ نہ بن جائے اور اسے پُرانے کپڑوں کی طرح کہیں پھینک نہ دیا جائے ۔