میرا آج کا کالم امجد اسلام امجد کی یاد میں ہے – یہ ایک مکالماتی مضمون ہے جو سعید واثق کے انٹرویو ، جاوید چودھری کے مضامین اور ڈاکٹر سید تقی عابدی کی کتاب امجد فہمی سے ماخوذ ہے – یہ ایک خط کی شکل میں ہے جو انہوں نے راقم کو برزخ سے لکھا ہے – اس میں بیشتر باتیں خود مرحوم امجد اسلام امجد کی مختلف موقعوں پر کہی ہوئی ہیں یا ان کے بارے میں کہی گئی ہیں – اگر اس میں کوئی کمی پیشی ہو تو اس کے لئے پیشگی معذرت کا خواست گار ہوں۔
جب تک رہو خوش و سلامت رہو- آج میرا ہی ایک شعر مجھ پر صادق آرہا ہے
ڈرتا ہوں آنکھ کھولوں تو منظر بدل نہ جائے
میں جاگ تو رہا ہوں ، مگر جاگتا نہیں !
10 فروری کو آنکھ کھلی تو اپنے آپ کو یہاں پایا جہاں سب جاگ بھی رہے ہیں اور جاگے ہوئے نہیں بھی – اس تیزی سے منظر بدل جائے گا سوچا بھی نہیں تھا – بس فیض کی طرح میرے دل وحشی نے بھی وہ زور مارا کہ ہر رگ و جاں سے الجھ پڑا – قافلۂ شوق تو وہیں کہیں رہ گیا ، پر میں درد سے گذر کر یہاں پہنچ گیا – یہ سوچ کر ہنسی آ رہی ہے کہ ٹی وی پر میرا لکھا ہوا پہلا ڈرامہ جو پیش ہوا تھا اس کا نام ” برزخ “ تھا اورآج تمہیں جو خط لکھ رہا ہوں وہ بھی پہلا خط ہے جسے برزخ سے براہ راست لکھ رہا ہوں – زندگی میں تو فرصت ملی نہیں – یہاں آیا ہوں تو فرصت ہی فرصت پاتا ہوں – معاً تم سے کیا ہوا وعدہ یاد آگیا – کتنی بار شکاگو آیا – تمہاری نظامت میں اُردو ٹائمز کی شکاگو اُردو کانفرنس ، اسنا شکاگو اور ہیلپنگ ہینڈ شکاگو کے مشاعرے بھی پڑھے – لیکن تمہارے ساتھ فرصت سے بیٹھنے اور بات کرنے کا موقعہ ہی نہ ملا – ابھی صحبت دل کی یادیں تازہ ہیں سوچا آج یہ قرض بھی چکتا کر دوں –
تم نے میرا مزاج پوچھا ہے تو اتنا کہوں گا کہ یہاں تو کوئی مزاج ہی نہیں ہوتا – پر زندگی میں میرا مزاج یہ تھا کہ بھیا ، جیو اور جینے دو-
میرے خون کے رنگ کا کیا پوچھتے ہو – یہاں نہ کوئی ارمان ہے اور نہ خون تو پھر رنگ کیسا – البتہ رہتی زندگی تک اسے کبھی سفید نہیں ہونے دیا –
جہاں تک کمزوریوں کا تعلق ہے تو بھائی وہ تو بہت سی تھیں – لیکن بِلا پرکھے دوسروں پر اعتماد کر لینا میری سب سے بڑی کمزوری تھی
تم نے صحیح کہا کہ میں بہت سوچتا رہتا تھا – زندگی بھر ، یہی سوال میں خود اپنے آپ سے کرتا رہا ہوں کہ میں اتنا کیوں سوچتا ہوں – شائد اس کی وجہ یہ تھی کہ
عکس در عکس ، فقط حیرت تھی
عقل جب آئینہ خانے میں گئی !
میرا ائیڈیل ان معنی میں کوئی نہیں تھا جن معنی میں تم پوچھ رہے ہو – میرا آئیڈیل انسان نہیں ، انسانی صفات تھیں جن کا کسی فرد واحد میں یکجا ہونا ممکن نہیں ہے –
تم نے سوال کیا ہے کہ وہ کیا شئے تھی کہ جس کے بغیر میں رہ نہیں سکتا تھا – تو میری جان وہ تھے دوست – میں دوستوں کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا – میرا شعر ہے نا
حساب عمر کا اتنا سا گوشوارہ ہے
تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارہ ہے
میرے دوستوں کی ایک لمبی فہرست ہے اور ان کے بڑے قصے بھی ہیں میرے پاس – کبھی سناؤں گا –
میری پسندیدہ کتاب دیوان غالب کے علاوہ اور کونسی ہو سکتی ہے؟ یہ حسرت دل میں ہی رہ گئی کہ:
خوشبو سے بھری شام میں ، جگنو کے قلم سے
اک نظم ترے واسطے ، لکھیں گے کسی دن!
غالب کے بارے میں جو میں چاہتا تھا وہ لکھ نہ سکا جس کا افسوس رہے گا –
میری غیر ادبی مصروفیت کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ ہے کرکٹ – تمہیں کیا اکثر لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ میں اپنے اسلامیہ کالج میں کلر ہولڈرہوا کرتا تھا -بھائی صاحب ، یہ میں ہی تھا جس نے 12 سال بعد گورنمنٹ کالج کو شکست دی تھی – لیکن پھر ایک ایسا واقعہ ہوا کہ میرا دل کرکٹ کی طرف سے مایوس ہو گیا – ہوا یوں کہ بی اے کا امتحان ہوا تو یونیورسٹی کی ایک ٹیم بنی – حالانکہ میں چیمپئن ٹیم کی طرف سے تھا لیکن مجھے ریزرو میں رکھا گیا، اور ہمارے ایک بیورو کریٹ کا بیٹا تھا جو کرکٹ کھیلنے کا قطعی حقدار نہیں تھا اسے ٹیم میں رکھ لیا گیا ۔ میرا تو دل ہی ٹوٹ گیا تھا – میں نے کرکٹ کو خیر آباد کہا اور اپنا دھیان دوسری طرف لگا لیا – لیکن کرکٹ نے مجھے ایک ایسی چیز دی جو میرا اثاثہ بن گئی اور وہ ہے حسِ مزاح اور جملے بازی – کرکٹ کی وجہ سے ہماری ٹیم مختلف شہروں کا سفر کرتی تھی ٹیم کے ساتھ رہنے اور وقت گذارنے کا موقعہ ملتا تھا – ان کے ساتھ خوب خوش گپیاں اور جملے بازیاں رہا کرتی تھیں – جملے بازی اور حس مزاح وہیں سے میری طبیعت کا حصہ بنیں – میں بلا کا جملہ باز تھا – عطا الحق قاسمی اور میری جملے بازی تو مشہور تھی – ہم جہاں بیٹھ جاتے تھے وہاں سے کسی کا اٹھنے کا دل نہیں چاہتا تھا – یہی جملے بازی اور حس مزاح آگے چل کے میرے بہت کام آئی –
ادب اور آداب کی دنیا میں کب آیا؟ ادب و آداب ، اچھا کہا تم نے – ادب میں آنے کی ایک وجہ تو میں نے تمہیں ابھی بتا ہی دی- کرکٹ میں مایوسی – اور دوسری وجہ قدرت کا انعام تھی – ہوا یوں کہ مجھے بی اے میں اسکالر شپ مل گئی ۔ یہ ایک اضافی سہولت تھی کہ اب میں سرکاری خرچے پر یونیورسٹی میں پڑھ سکتا تھا۔ ہمارے معاشی حالات چونکہ بہت اچھے نہیں تھے اور میں فیملی میں بڑا بھی تھا ۔ ایسے میں اس قسم کی سہولت بہت بڑی نعمت تھی ۔ اُردو میں اچھا ہونے کی وجہ سے مجھے اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا ۔ 5th ایئر میں لٹریری سوسائٹی پنجاب یونیورسٹی کا چیئرمین بنا اور یہیں سے میرا ادبی سفر شروع ہوا۔ پھر6th ایئر میں پنجاب یونیورسٹی کے میگرین ’’محور‘‘ کا ایڈیٹر بنا۔
ویسے میری ادبی دنیا میں قدم رکھنے کی اور بھی کئی وجوہات ہیں – اس میں میرے والد کی کتب بینی کی عادت کا بھی دخل ہے – انھیں جاسوسی ناول پڑھنے کا شوق تھا – ان کے لئے ایک آنہ لائبریری سے ابن صفی کی جاسوسی ناولیں میں ہی لایا کرتا تھا – ان کی دیکھا دیکھی مجھے بھی کتب بینی کا شوق ہو گیا تھا – اس کے علاوہ وہیں ہمارے علاقے میں آقا محمد بیدار بخت بھی رہا کرتے تھے جو بڑے عا لم و فاضل تھے – ان کا ایک ادارہ تھا جس میں وہ ادیب ، اور عالم فاضل کا کورس کراتے تھے – ان کے گھر میں نت نئے رَسائل اور طرح طرح کی کتابیں آتی تھیں – میرے پڑھنے کے شوق کو دیکھتے ہوئے آقا صاحب نے اپنے اہل خانہ کو ہدایت کر رکھی تھی کہ اگر یہ بچہ کوئی کتاب لینا چاہے تو اسے بالکل نہ روکنا – میں اس وقت آٹھ نو سال کا ہوا کرتا تھا – اس طرح نہ صرف میری کتب بینی کی عادت پختہ ہوئی بلکہ پڑھنے کی رفتار بھی تیز ہوتی چلی گئی – میں اپنے والد کے لیئے لایا ہوا ابن صفی کا ناول سڑک پر چلتے چلتے پڑھ لیا کرتا تھا – پڑھنے کی اس عادت نے میری لکھائی میں خوب مدد کی –
ہاں ایک اور بات! اس ادبی دنیا میں داخلے کی کہانی میں کہیں میری ایک خالہ بھی آتی ہیں جو نابینا تھیں – شائد نابینا ہونے کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو تنہا محسوس کیا کرتی تھیں اور اپنا اکیلا پن ہمیں کہانیاں سنا کر دور کیا کرتی تھیں – ہمیں ان سے کہانیاں سننے کو مل جاتی تھیں اور انھیں ہم بچوں کی توجہ – بس وہیں سے کہانی سے میرا رشتہ بھی پیدا ہو گیا – ہمارے زمانے میں چھٹی جماعت میں بزم ادب سجا کرتی تھی – میں اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتا تھا – خالہ سے سنی کہانیاں خوب نمک مرچ لگا کے اور انہیں ایڈٹ کر کے ڈرامائی انداز سے سناتا تھا اور محفل لوٹ لے جایا کرتا تھا ۔میں بہت جلد مشہور ہو گیا تھا – ہائے وہ بھی کیا دن تھے – خوب کہانیاں سنایا کرتا تھا – میرے ایک استاد نے تو مجھے کہانی کی مشین کا خطاب تک دے دیا تھا –
بس بھائی اس کے بعد کہانیوں کی یہ مشین کبھی رکی نہیں – وقت کی دہلیز کو پار کرتے ہوئے اور رات ، دن کے فاصلوں کے فرق کو مٹا تے ہوئے اتنا لکھا کہ اسے نہ صرف سمندر کر دیا بلکہ ہمیشہ کے لئے ان تحریروں کا بلا شرکت غیرے وارث بھی بن گیا – میں نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ:
؎دل کو گواہ کر کے ، لکھا جو بھی کچھ لکھا
کاغذ کا پیٹ بھرنے کو ، لکھتا نہیں ہوں میں
بے شمار مطبوعات ، ان گنت مقالے ، کئی طرز کے ڈرامے ، سیاحت نامے ، ترجمے ، کالمز ، شاعری وغیرہ – کیا کیا کچھ لکھ ڈالا – کتنے ہی اعزازت اور انجمنوں کی ممبر شپ سے نوازا گیا – تدریس ، ٹیکسٹ بورڈ ، اُردو سائنس بورڈ ، آرٹس کونسل پنجاب اور کتنے ہی اداروں میں کلیدی عہدے نبھائے – خود مجھ پر 30 سے زائد تھیسس اور تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں – اللہ نے اس دامن میں کیا کیا کچھ بھر دیا تھا ، اب سوچتا ہوں تو یقین نہیں آتا – مولا کا شکر ہے کہ اس کے کرم سے بھر پور زندگی جی ہے میں نے –
سچ پوچھو تو والدین کی نسبت سے میں بھی سیالکوٹی ہوں لیکن میں پیدا لاہور میں ہوا تھا – میرے والدین لاہور آکر ایسے بسے کہ وہیں کے ہو کے رہ گئے – لاہور میں فلیمنگ روڈ ایک جگہ ہے جہاں ہم رہتے تھے – یہ لوئر مڈل کلاس لوگوں کا علاقہ تھا – تم اسے دستکاروں کا علاقہ بھی کہہ سکتے ہو – میں شکر گذار ہوں اپنے والدین کا کہ جنھوں نے مجھے پڑھنے لکھنے کی اجازت دی – میرے شوق کو سراہا – بالخصوص میرے والد نے میری بہت حوصلہ افزائی کی – مجھے اپنے فیصلے خود کرنے دیئے – ورنہ میرے ہم عمر کزن وغیرہ کاروبار کی طرف چلے گئے تھے – یہی خاندانی ریت تھی کہ آٹھ دس جماعتیں پڑھنے کے بعد ہمیں کاروبار ہی کی طرف جانا ہوتا تھا –
شاعری میری فطرت میں تھی – اپنی نوجوانی کی عمر ہی میں ، میں نے شاعری شروع کر دی تھی – اس سلسلے میں احمد ندیم قاسمی نے میری بھرپور رہنمائی فرمائی – مجید امجد کی شاعری اچھی لگتی تھی – ان کی شاعری پڑھ کر نظم کہنے کا سلیقہ آیا – ٹی وی پر کبھی کبھار میرے گیتوں کو بھی جگہ مل جاتی تھی – جہاں تک ٹی وی ڈراموں کا تعلق ہے تو اس کا کریڈٹ اطہر شاہ خان جیدی کو جاتا ہے – انھوں نے ہی مجھ سے کہا کہ تم لکھ سکتے ہو – تمہارے اندر حس مزاح بھی ہے اور جملے بنانا بھی خوب جانتے ہو – ریڈیو سے اپنے کریئر کا آغاز کیا – ٹی وی ذرا مشکل تھا – اس پر کسی نئے آدمی کا جگہ بنانا ، جوئے شیر لانے کے مترادف تھا – یہ وہ زمانہ تھا جب اشفاق حسین اور منو بھائی کا طوطی بولتا تھا – ان کے سامنے میری بساط ہی کیا تھی – پھر بھی اطہر بھائی کے کہنے پر لکھنا شروع کیا – پہلا ڈرامہ لکھا اور ٹی وی والوں کو دے دیا – اس کے بعد ان کے خوب چکر لگاتا رہا اور اپنے اسکرپٹ کے بارے میں پوچھتا رہا – چند ماہ بعد انہوں نے بتایا کہ میرا اسکرپٹ ان سے کہیں کھو گیا ہے – لو جی کر لو گل – اللہ اللہ خیر صلا – ممکن ہے انہوں نے اسے دیکھے بغیر ہی ردی کی ٹوکری کی نذر کردیا ہو – میں بہت بار ریجیکٹ ہوا – لیکن ہمت نہیں ہارا بس اپنی دھن میں لگا رہا – اسٹیفن کنگ کی مثال میرے سامنے تھی – وہ 60 مرتبہ مُسْتَرَد ہوا تھا جب جا کے اس کی پہلی مختصر کہانی ” دی گلاس فلور “ 35 ڈالر میں بکی تھی – اور جب وہ چل نکلا تو ایسا چلا کہ آج انگریزی ادب کا استعارہ ہو گیا ہے –
مجھے پہلا بریک 73 ء میں ملا – ہوا یوں کہ اسلام آباد ٹی وی نے ” پہلا کھیل “ کے عنوان سے ایک اشتہار شائع کیا جس میں نئے لکھنے والوں کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ اپنا کوئی ڈرامہ پیش کریں – اتنی بار مسترد ہونے کے بعد میں کوئی زیادہ پُر امید تو نہیں تھا لیکن پھر بھی ایک ڈرامہ لکھ کر بھیج دیا اور قسمت سے وہ منظور بھی ہو گیا – نیر کمال اور خالد سعید بٹ نے اس ڈرامے میں نمایاں کردار ادا کئے تھے – اس کے بعد پھر ایک طویل سناٹا چھایا رہا – سِن 74 کی بات ہے ساحرہ کاظمی کا لاہور ٹی وی پر تبادلہ ہو گیا – یہ انٹرنیشنل ویمن والا سال تھا – اسی نسبت سے انھوں نے حوا کے نام سے ایک سیریز شروع کی اور اس میں مجھے بھی دعوت دی گئی – میں نے اس سیریز میں برزخ کے نام سے ڈرامہ لکھا – میرا یہ ڈرامہ اس سیریز کا حصہ بنا – اس کے بعد اسی سیریز کے لئے ” موم کی گڑیا “ کے نام سے ایک اور ڈرامہ لکھا – یہیں ساحرہ کاظمی جو پہلے ساحرہ انصاری ہوا کرتی تھیں کی شادی راحت کاظمی سے ہوئی – عجیب اتفاق تھا کہ راحت پہلے ہی سے میرا دوست تھا بس اس کے بعد ان گنت اور قسم قسم کے کھیل جن میں انفرادی ڈرامے اور ٹی وی سیریل بھی شامل ہیں لکھتا گیا اور نام بنتا گیا – حالانکہ مجھے شاعری زیادہ اچھی لگتی تھی لیکن اس زمانے میں میں نے شاعری سے زیادہ ڈراموں سے شہرت کمائی – کچھ فلمیں بھی لکھیں – چند ایک پنجابی ٹی وی اور اسٹیج ڈرامے بھی تحریر کئے دو تین ٹی وی پروگراموں کی میزبانی کا شرف بھی حاصل رہا –
دھیان میں میلہ سا لگتا ہے ، بیتے لمحوں کا
اکثر اس کے غم سے ، دل کی صحبت رہتی ہے
امین بھائی ، الحمد و للہ میں نے بڑی اچھی زندگی گذاری ہے – اﷲ تعالیٰ نے مجھے بڑی صلاحیتوں سے نوازا تھا – میرا مشاہدہ بہت تیز تھا – چلتے پھرتے سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں پورے ماحول کو اسکین کر لیتا تھا اور پھر انھیں الفاظ کے سانچوں میں ڈھال دیا کرتا تھا – بہت نام کمایا – بڑی عزت کمائی – بڑی سیر کی – دنیا بھر کے دورے کئے – تمام اُردو بستیوں میں میرا جانا ہوا – دوستوں کی خوب خوب محبتیں سمیٹیں – میری فیمیلی لائف بھی بہت اچھی تھی – میری بیوی میری فرسٹ کزن تھی – ہمارا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں – گھر کیا تھا چمن زار تھا – ہمارے ہاں مشترکہ خاندانی نظام کی وجہ سے خوشیاں بھی مشترک تھیں – ہماری طبیعتوں میں ایثار اور اعتبار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا – میں گھر نہیں گلشن چھوڑ کے آیا ہوں جہاں بس پھول ہی پھول کھلتے ہیں – اپنے گرینڈ چلڈرنز پر تو میری جان قربان تھی – میری بیٹیاں مجھ سے شکائت کرتی تھیں کہ ان کے بچپن میں جب میرا کوئی کاغذ ادھر سے ادھر ہو جاتا تھا تو میں انھیں بہت جھڑکا کرتا تھا – اب ان کے بچے آتے ہیں اور کاغذ پھاڑ بھی دیتے تو میں ہنستا رہتا ہوں – اب میں ان کی شکائت کا کیا جواب دوں – ایک دن اس کا جواب انہیں خود مل جائے گا جب وہ نانی دادی بنیں گی – میں اپنے بچوں کے بچوں کے ساتھ خوب کھیلتا تھا – اب بھی ان کے لیئے روح تڑپتی ہے تو ایک چکر لگا آتا ہوں – وہ تو مجھے نہیں دیکھ سکتے لیکن میں انہیں دیکھ لیتا ہوں – میں اب ان کے ساتھ کھیل تو نہیں سکتا لیکن انھیں کھیلتا دیکھ کر میری روح کو قرار آجاتا ہے –
اچھا امین بھائی بہت دیر ہوگئی – اب چلتا ہوں – مرزا غالب کے ہاں جانے کا وقت ہو رہا ہے – ہم سب روز وہیں جمع ہو جاتے ہیں – آج کوئی کہہ رہا تھا کہ ان کے یہاں ضیاء محی الدین بھی آرہے ہیں – بہت لطف رہے گا – آج جب وہ کلام غالب اپنے مخصوص انداز میں سنائیں گے تو مجھے یقین ہے کہ مرزا صاحب اپنے انداز بیان کو بھول جائیں گے – میں ضیاء محی الدین سے ان کی ” نکتہ چیں ہے ، غم دل اسکو سنائے نہ بنے “ کی فرمائش کروں گا – ضیاء محی الدین اپنی ذات میں یکتہ روزگار تھا نہ گذشتہ صدیوں میں کوئی تھا اور نہ حالیہ صدی میں کوئی اس جیسا ہے – وہ تو خوشبو ہے – جب تک زندہ رہا سمے کا نغمہ و ساز بن کے رہا – اور اب جب کہ وہ چلا گیا ہے تو ادب کی آواز بن کے ہمیشہ زندہ رہے گا – وہ تو ایک دبستان تھا اور رہے گا – اللہ اسے غریق رحمت فرمائے آمین
دوستوں کو میرا سلام کہنا – اللہ تم سب کو سلامت رکھے – مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا – خدا پاکستان کو اور تم سب کو سلامت رکھے – آمین
خیر اندیش
امجد اسلام امجد
Next Post