اس ہفتے کافی طویل عرصے کے بعد پاکستان کے معاشی حب کراچی میں ایک ناکام اور بزدلانہ دہشتگرد حملہ کیا گیا، حسب توقع اس دہشت گردی میں بھارت اور اس کی خفیہ ایجنسی’’را‘‘ کا براہ راست تعلق اور ہاتھ پایا گیا ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن آرمی نے قبول کی ہے جس کی پشت پناہی اور براہ راست سپورٹ بھارت اور مدد اس کے خفیہ ادارے کرتے ہیں کیونکہ ماضی میں بھی چینی سفارت خانے پر حملہ ان ہی عناصر نے کیا تھا۔ بی ایل اے کی براہ راست بھارتی امداد کے واضح ثبوت ماضی میں موجود رہے تھے، یہاں تک کہ اس قسم کی کاررائیوں میں زخمی ہونے والے ان غدار دہشت گردوں کا علاج بھی انڈیا کے ہسپتالوں میں ہوتا ہے اور تصاویر انٹرنیٹ پر پڑی ہوئی ہیں، چائنہ کے ساتھ جھڑپوں اور کشمیر میں جاری تحریک سے توجہ ہٹانے کے لئے کسی اس قسم کے واقعے کی توقع کی جارہی تھی مگر شاید بھارتیوں نے پاکستان کے سکیورٹی اداروں کی کارکردگی کا غلط اندازہ لگا لیا۔ چاروں جہنم رسید دہشت گردوں کے قبضے سے ملنے والے خورونوش کے سامان اور ذخیرے اور اسلحہ بارود سے اندازہ تو یہ ہوتا ہے کہ وہ سویلین شہریوں کو یرغمال بنا کر ہفتوں تک بلیک میلنگ کرنے کا پروگرام بنا کرآئے تھے مگر ہمارے جوان مرد سکیورٹی اہلکاروں نے صرف آٹھ منٹ میں چاروں دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا۔ دہشت گرد سٹاک ایکسچینج کی عمارت میں داخل ہی نہیں ہو سکے اور باہر ہی مارے گئے۔ اس آٹھ منٹ کی کارروائی میں تین سکیورٹی اہلکار بھی ارض پاکستان کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ اس ناکام حملے کا ماسٹر مائنڈ بشیر زیب افغانستان فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ یاد رہے کہ ان دہشت گردوں کے فراری کیمپ بھارت اور افغانستان میں موجود ہیں جہاں پر انہیں خصوصی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ ہم غیر ممالک میں مقیم پاکستانی تارکین وطن کا اس قسم کے دہشت گردی کے واقعات پر خون کھول جاتا ہے مگر وہ دیار غیر میں ہوتے ہوئے کچھ نہیں کر پاتے مگر آپ ذرا سوچیں تو ہم ہیوسٹن، نیویارک اور واشنگٹن میں بیٹھ کر بھی ان بھارتی اور ’’را‘‘ کی کارروائیوں کا بھرپور جواب دے سکتے ہیں، ظاہر ہے کہ جواب صرف اسلحہ بارود اور گولیوں سے تو نہیں دیا جا سکتا مگر اس سے بھی زیادہ بھرپور طریقے سے ہم جواب دے سکتے ہیں، سب سے پہلے تو ہمیں اپنی روز مرہ کی چیزوں اور گروسریز کی خریداری کرتے وقت یہ بات حتمی طور پر یقینی بنانا چاہیے کہ ان میں کوئی بھی بھارتی پروڈکٹ نہ ہو، البتہ اپنے تجارتی مفادات سے مجبور اکثر پاکستانی مالکان غلط بیانی سے بھی کام لیتے اور جھوٹ بولتے ہیں کہ نہیں جناب یہ تو کینیڈا سے آئی ہے مگر ان کے بہکاوے میں ہر گز نہ آئیں، وہ پروڈکٹ چاہے لاکھ میڈان کینیڈا ہو مگر آپ کو مینوفیکچرز کا نام دیکھنا چاہیے یا اگر ان پر مورتیاں بنی ہوئی ہوں یا ہندو نام ہوں آپ ہر گز نہ خریدیں، پہلی بات تو آپ اپنی گروسریز کی خریداری کے لئے کسی قیمت بھی انڈین سٹور میں داخل نہ ہوں، ہم ایک عرصے تک پاکستانی آٹا تلاش کرتے رہے مگر وہ دستیاب نہ تھا سب انڈیا کے بنے ہوئے تھے، کافی عرصے تک ہم چاول استعمال کرتے رہے مگر ہندوستانی آٹا نہیں خریدا، ایک تو اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ زیادہ تر انڈین پروڈکٹس میں گائوموتر(گائے کا پیشاب) استعمال کیا جاتا ہے ان کے مذہبی روایات کے پیش نظر جو کہ ہماری مذہبی اور اخلاقی احکامات کے خلاف اور ناپاک ہے۔ لہٰذا ہمیں ویسے ہی ایسی ناپاک چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے، اس کے بعد ہمیں ہر بڑے امریکی شہر میں انڈین شوز آتے ہیں جن کے مہنگے اور آگے کے ٹکٹس سینکڑوں ڈالرز کے ہوتے ہیں اور بدقسمتی سے انہیں زیادہ تر پاکستانی ہی خریدتے ہیں، ان شوز کی آمدنی سے آپ ایک طرح سے کشمیریوں پر کیے جانے والے بھارت کی فوجوں کی مدد کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ بہت ضروری کہ ہم ان انڈین شوز کا مکمل بائیکاٹ کریں اور پاکستانی شوز کو کامیاب بنائیں، ہم سستا ایئر لائن ٹکٹ انڈین بزنس سے خریدیں اور نہ ہی کپڑے جوتے ان بھارتی دکانوں سے خریدیں یوں ہم پاکستان میں دہشت گردی کا اس طرح بھرپور جواب دے سکتے ہیں۔
سلیم سید
Prev Post
Next Post