بے لباسی!

85

دنیا نیوز چینل پر ایک ٹاک شو چلتا ہے، اس کا نام ہے THINK TANK جیو نیوز پر اس سے پہلے ایک پرومو چل رہاتھا اور ایک نئے پروگرام کو لانچ کرنے کی تیاری ہورہی تھی جیو ٹیلی وژن نے اس کا نام THINK TANKتجویز کیا تھا مگر دنیا نیوز پہلے ہی یہ نام لے اڑا، اب دنیا نیوز پر چار بزرگ اس پروگرام کے شرکاء ہوتے ہیں جن میں امیر ایاز، ڈاکٹر حسن عسکری، سلمان غنی شامل ہیں۔ خاور گھمن کا مزاج ARYسے مطابقت رکھتا تھا سو وہ ARYکو پیارے ہوئے، اس پروگرام کا چوتھا شریک گفتگو بدلتا رہتا ہے، اس پروگرام میں سب سے زیادہ VOCALایاز امیر اور سلمان غنی ہیں، ڈاکٹر حسن عسکری فلسفہ اور POLITICAL SCIENCEسے تعبیریں نکال کر لاتے ہیں جو اکثر و بیشتر عمران کے حق میں ہوتی ہیں، پچھلے دنوں ایاز امیر فرمارہے تھے کہ عمران نے ہر ادارے کو بے نقاب نہیں بے لباس کر دیا، اس پر سلمان غنی نے لقمہ دیا کہ اس کوشش میں عمران خود بھی بے لباس ہو گئے، ان دونوں بزرگوں نے جو گفتگو فرمائی اس سے ان کا ذہن بھی عریاں ہوا، یہ کون لوگ ہیں جو بے لباس ہونے پر اپنی خوشی کا اظہارکرتے ہیں اور یہ کس ماحول کے تربیت یافتہ ہیں، جو بے لباس ہونے پر طنزیہ فقرے بازی کرتے ہیں، مغرب میں THINK TANKکا خیال اس وقت آیا جب ارباب اختیار نے یہ سوچا کہ ایک دانشور عوام کو متاثر کرتاہے اور وہ ملک کے ماحول کو بدل دیتا ہے اور حکومت اپنی پالیسیوں کا دفاع کرتی رہ جاتی ہے اور عوام کا اصرار ہوتا ہے کہ اسی دانشور کی بات مانی جائے مغرب میں FREEDOM OF SPEECH کا بہت احترام کیا جاتا ہے تو یہ تو ممکنات میں نہ تھا کہ دانشور پر مضامین اور کتابیں لکھنے پر پابندی لگا دی ہے یا اس کو میڈیا سے دور رکھا جائے اس کی روک تھام کے لئے کسی SMART BEAUROCRATEنے سیاست دانوں کو یہ مشورہ دیا کہ ملک کے مختلف ماہرین کو ایک جگہ جمع کیا جائے اوران کو ان کی فیلڈز کی مناسبت سے پراجیکٹ بانٹ دئیے جائیں اور وہ ان پراجیکٹس پر اپنا اپنا نکتہ ء نظر پیش کریں پیپر لکھیں تمام ماہرین کے لکھے گئے پیپرز کو COMPILE کیا جائے ان تجاویز پر مباحثہ ہو اور ان کی آراء پر مشتمل رپورٹ جاری کی جائے اس کا مطلب یہ تھا کہ رپورٹ میں قاری کو مختلف تجزئیے مل جاتے ہیں اور کوئی دانشور DOMINATEنہیں کرتا، کبھی ایک کی رائے کو پذیرائی ملتی ہے تو کبھی کسی دوسرے دانشور کی بات کو مان لیا جاتا ہے، یہ سب دانشور ایک مسئلے کے مختلف پہلوئوں پر انفرادی طور پر رائے قائم کرتا ہے مگر مباحثے کے دوران اس میں ترمیم بھی کی جاسکتی ہے، کچھ THINK TANKSاپنی رپورٹس حکومت کو بھیجتے ہیں وہ اگر PRACTICALہوں تو ان کو پالیسی بنا لیا جاتا ہے ان ماہرین کو بھاری معاوضہ دیا جاتا ہے اور ان کو مختلف ممالک میں لیکچرز کے لئے بھی مدعو کیاجاتا ہے اور وہ ایک پرتعیش زندگی گزارتے ہیں، جب مغرب نے یہ طریقہء کار اختیار کیا تب سے مغرب یا امریکہ میں نہ تو برٹرینڈرسل پیدا ہوا اور نہ ہی امریکی میں برنارڈ شا اور جس دانشور نے SOLO FLIGHTپکڑی اس کی پذیرائی نہیں ہوئی نوم چومسکی بڑا نام ہے ہر چند کہ اس کے نظریات لوگوں کو محسور کرتے ہیں مگر نوم چومسکی کو اس دور کا برٹریڈ رسل یا برناڈشاہ نہیں کہا سکتا۔
اب رہی بات بے لباسی کی تو عرض یہ ہے کہ پاکستان کب بے لباس نہیں ہوا قیام پاکستان کے بعد ہی مسلم لیگ نے اپنا لباس اتار پھینکا، قائداعظم کو قتل کیا اور قائد کی تصویر اٹھا لی پرانا بیانیہ دفن کیا اور قرارداد مقاصد کے ذریعے اللہ کی حاکمیت قائم کر دی، پچھتر سال سے پاکستان پر اللہ کی حاکمیت ہے اور اب پاکستان کے غریب دانے دانے کو محتاج، مسلم لیگ ہر آمر کی رکھیل، وہ کنونشن مسلم لیگ اور کونسل مسلم لیگ تھیں وہ کہاں چلی گئیں، کون سا ادارہ تھا جو بے لباس نہیں کیا فوج ، کیا عدلیہ، کیا بیوروکریسی، کیا میڈیا سب ہی بے لباس ذرا غور کریں کہ فوج نے اس ملک پر تین آمروں کے علاوہ کیسے کیسے بودے لوگ ملک پر مسلط کئے، نواز شریف، جونیجو، جتوئی، مزاری، قریشی، شوکت عزیز، شجاعت حسین، جمالی اور عمران یہ سب کے سب فوج کے ڈنڈے کے سامنے برسوں بیٹھے رہے اور ان سب کا نام فوج نے پاکستان رکھا، اور یہ سب کے سب پاکستان کی جڑیں کھودتے رہے اور کہتے رہے کہ ہم غریبوں کی مدد کے لئے آئے ہیں۔ عدلیہ فوجی بوٹوں کے نیچے ہی رہی، بیوروکریسی بھی فوج کی غلام، میڈیا سے فوج نے خوب خوب کام لیا، ملک کا سب سے بڑا مسئلہ فیوڈل لارڈز ہیں مگر میڈیا فوج کے کہنے پر آج بھی سمجھتا ہے کہ اسلام خطرے میں ہے، فوج جو بیانیہ بنا کر دیتی ہے میڈیا اس کو من و عن عوام کے ذہنوں میں اتار دیتا ہے، فوج مجاہدین کے نام پر دہشت گرد بناتی ہے میڈیا لارڈز دہشت گردوں کو مجاہدین ہی کہتے ہیں، فوج نے آہستہ آہستہ عوام کے ہاتھوں سے سیاست چھین لی اور اشرافیہ کو پکڑا دی، اب اشرافیہ کے دو دھڑے اقتدار کے لئے رسہ کشی میں مصروف ہیں وہ جو جنرل مشرف کی کابینہ کا حصہ تھے وہ جنرل مشرف کے جنازے میں بھی نہیں گئے۔
ان پچھتر سالوں میں سب سے زیادہ بے لباس مولوی ہوا، نہ علم، نہ کردار، نہ شرم نہ حیا مگر طاقت ایسی کہ ایک سری لنکن کو سرعام موت کے منہ میں پہنچا دے ننکانہ صاحب میں ایک شخص کو پولیس سے چھین لائے اور سرعام اس کو موت کے گھاٹ اتاردے، ہم نیوز چینل کے ڈاکٹر مالک نے حلالہ سنٹر پر ایک بڑا پروگرام کیا تھا ڈاکٹر مالک کو ہم نیوز چینل نے الگ کر دیا، میڈیا کا کوئی چینل مذہب پر کوئی پروگرام کرے گا تو قابل گردن زدنی ٹھہرے گا مولوی کو اذان دے کر اور نماز پڑھا کر تین وقت کی روٹی مل جائے تو اس کو اور کیا چاہیے اور پھر یہ کہ علاقے کا SHOاس کا تابعدار ہو، اغلام بازی، لواطت، بچیوں سے زنا، لوٹ مار، ڈکیتیوں میں شامل، بھتہ خوری، وہ کون سا جرم ہے جس میں مولوی کا حصہ نہیں مگر بھلا مجال کہ مولوی کو عدالت سزا دے سکے، جج کے سامنے ایک کم سن لڑکے نے عدالت میں ایک ذہنی معذور کو کافر کہہ کر قتل کر دیا اور جج کچھ نہ کر سکا، مگر یہ عقل سے عاری مسجد کے امام اسلام کے پاسبان، برہنہ مگر ولی کے رتبے پر فائز ، یہ دو رکعت کا امام اس اسلام کا پاسبان ہے جس کو دنیا میں کوئی تسلیم نہیں کرتا، پاکستان کا دانشور بھی بے لباس، اس نے بھی چپ سادھ لی، شاعر بھی بے لباس سچ کہنے سے عاری، سچ لکھتے ڈرتا ہے، جھوٹ، ریا کاری، مکاری، بددیانتی، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، زنا، قتل، ہوس، لالچ، چوری، ڈکیتی، کیا برائی ہے جو اس قوم میں نہیں، مگر خدا کے منتخب بندے اور دنیا پر حکمرانی کے خواب ان بدقماش لوگوں کی وجہ سے دین سے لوگ متنفر ہوتے جارہے ہیں اور لوگوں کو مذاق اڑانے کا موقع ملتا ہے، بادشاہ سمیت قوم کا ہر فرد بے لباس نہ علم نہ ہنر نہ کردار، نہ عزت نہ ووقار۔