خبر جو بنگلہ دیش کے حوالے سے ہے ایسی ہے کہ وطنِ عزیز پاکستان کے باسی اس پر مشکل سے ہی یقین کرینگے اور انہیں قبولیت میں دقت یوں ہوگی کہ ان کے قومی تجربہ میں ایسی انہونی بات نہ کبھی ہوئی نہ اس کے ہونے کا وہ اپنے تاریخی پس منظر میں کبھی تصور کرسکتے ہیں۔ خبر یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے ایک سابق چیف جسٹس کو، جی ہاں ایک سابق چیف جسٹس، قید کی سزا سنائی گئی ہے اور وہ بھی گیارہ برس کی جیل یاترا کی سزا۔ بنگلہ دیش کی منتخب جمہوری حکومت بھی آزاد ہے اور اس کی اعلیٰ عدلیہ بھی ہمارے ملک کے برعکس فوجی جرنیلوں کی تسلیم و رضا سے آزاد ہے وہاں عدالتیں ایسے فیصلے سنانے سے پہلے جن میں کوئی فوجی طالع آزما یا بونا پارٹ ذہنیت رکھنے والا جرنیل فریق ہو یا ملوث ہو فوج کے ہیڈکوارٹر کی طرف نہیں دیکھتیں کہ سرکارِ عالی مدار سے کیا فرمان جاری کیا جاتا ہے بلکہ آزاد بنگلہ دیش کی آزاد اور خود مختار عدالتیں قانون اور انصاف کے تقاضوں کے تحت فیصلے سناتی ہیں۔ بنگلہ دیش ہمارے فوجی طالع آزماؤں اور ان کے ہمنوا و ہم پیالہ سیاسی گماشتوں کی سازش کے نتیجہ میں قائم ہوا تھا اور اس کے قیام کے وقت ہمارے طالع آزماؤں نے بڑی نخوت اور تکبر کے ساتھ یہ فرمایا تھا ، جس کی تائید ان کے سامراجی آقاؤں نے بھی کی تھی، کہ یہ نیا دیس ہمیشہ ہی کشکولِ گدائی لئے کھڑا ہوگا ۔ پاکستانی طالع آزماؤں نے شکر ادا کیا تھا کہ بنگالیوں کا بوجھ ان کے سر سے اتر گیا۔ لیکن آج وہی بنگلہ دیش پاکستان کے مقابلہ میں کہیں زیادہ خوشحال ہے ۔ اس کی معیشت تیزی سے ترقی کررہی ہے اور اس کی گارمنٹس کی برآمدات ہی پاکستان کی مجموعی برامدات سے زیادہ ہیں۔ کشکولِ گدائی تو ہماری پہچان بن چکا ہے اور دوست دشمن سب اب ہماری بھیک مانگنے کی عادت سے تنگ آچکے ہیں۔ بنگلہ دیش نے یہ اصل معنوں میں آزادی اس لئے حاصل کی ہے کہ اس نے پہلے تو پاکستانی جرنیلوں سے نجات حاصل کی اور پھر بعد میں اپنے ان جرنیلوں کو بھی ان کی اوقات دکھلادی جو پاکستا ن کے تربیت یافتہ تھے اور پاکستانی جرنیلوں کے غرور اور تکبر کے زہریلے کیڑے ان کے اعصابی نظام میں بھی شامل تھے۔ بنگلہ دیش کے سابق چیف جسٹس کو کرپشن کے الزام میں سزا سنائی گئی ہے جبکہ پاکستان میں صورتِ حال کچھ یوں ہے کہ ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے غدار اور ملت فروش، جنرل قمر باجوہ کو عمران خان سے بیر اسی لئے ہوا کہ عمران پاکستان کو لوٹنے اور کنگال کرنے والے نواز شریف اور زرداری جیسے ناسوروں کو ملک کے جسدِ سیاست و حکمرانی سے کاٹ کر پھینک دینا چاہتا تھا۔ ملت فروش باجوہ خود بھی کرپشن میں گلے گلے تک غرق تھا اور اسے اپنے ہی جیسے چوروں اور ڈاکوؤں، نواز ہو یا زرداری، سے ہمدردی تھی ہم پیشہ ہونے کے حوالے سے تو پھر سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ عمران کی کرپشن کے خلاف مہم سے اسے چڑ یوں تھی کہ کہیں قانون کے ہاتھ اس کے گریبان تک نہ پہنچ جائیں۔
سو باجوہ نے عمران کے خلاف سازش کا جال بنا۔ اس کی حکومت ختم کروانے کیلئے ایک طرف تو اپنے ہی جیسے چور اور کرپٹ سیاستدانوں کو اکسایا، ایم کیو ایم جیسے فوج کے پروردہ چھٹ بھیوں کو مجبور کیا کہ وہ عمران کے ساتھ اپنے سیاسی اتحاد کو ختم کردیں اور دوسری طرف اس نے اپنے بدیسی اور سامراجی مربیوں اور آقاؤں کے کان بھرے کہ عمران امریکہ کا مخالف ہے۔ سو سامراجی بھی اپنے پاکستانی میر جعفر کے جھانسے میں آگئے۔ قمر باجوہ نے تو اپنے ہی جیسے اس رسوائے زمانہ ملت فروش اور کلبِ سامراج حسین حقانی کی خدمات بھی اس مذموم کام کیلئے حاصل کیں کہ وہ عمران خان کے خلاف باجوہ کی مہم میں کلیدی کردار ادا کرے۔ ایک طرف تو باجوہ عمران کے خلاف اپنی بساط پر بھانت بھانت کے پاکستان دشمن مہرے بٹھا رہا تھا تو دوسری طرف اس کے اشارے پر رسوائے زمانہ پاکستانی عسکری انٹیلیجنس پاکستانی عوام کو گمراہ کرنے کیلئے مسلسل یہ جھوٹا اور شرانگیز پروپیگنڈا کررہی تھی کہ عمران اور عسکری قیادت ایک ہی صفحے پر تھے اور ان کے مابین کوئی اختلاف نہیں تھا۔عمران خان نے ایک دن پہلے وائس آف امریکہ کو جو تازہ ترین انٹرویو دیا ہے اس میں یہ صراحت کے ساتھ بتایا کہ یہ باجوہ تھا جس نے امریکہ کے کان بھرے کہ عمران امریکہ کا مخالف تھا اور اس کی قیادت میں پاکستان امریکی پالیسیوں کی نفی کرتا رہے گا۔ وہ باجوہ کہ شہ تھی جس پر امریکی دفترِ خارجہ کے ایک سینئر رکن، ڈیوڈ لو، نے پاکستانی سفیر کو واشنگٹن میں ملاقات کے دوران دھمکی دی کہ اگر عمران کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد ناکام رہی تو پاکستان کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ اس دور کی پاکستانی تاریخ کا دردناک باب ہے جس کی تفصیل میں جانے کی ہمیں ضرورت نہیں کہ وہ پاکستان کے بچے بچے تک پر عیاں ہے کہ کس طرح عمران کی حکومت کو ختم کرکے اقتدار کی باگ ڈور باجوہ نے اپنے ہی جیسے چور اور کرپٹ سیاسی بونوں اور گماشتوں کو سونپ دی اور اپنے اربوں روپے لیکر صحیح سلامت ملک سے فرار ہوگیا۔بنگلہ دیش میں قانون کی عملداری ہے، ملک کے آئین اور قانون کا احترام ہے، توقیر ہے لہٰذا وہاں بڑوں کو بھی وہ سزا ہوسکتی ہے جس کا پاکستان میں تصور ناممکن ہے۔ ہمارے ہاں تو اندھیر نگری ہے جس میں بڑے اور طاقتور ہر قانون سے بالا ہیں اور ان کی ذات پرکسی قانون یا آئین کا اطلاق نہیں ہوتا۔جنرل پرویز مشرف ابھی اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے ہیں لیکن ملک کے قانون اور آئین کا ان کی نظروں میں کیا مقام اور احترام تھا اس کےلئے ان کا یہ جملہ ہی کافی ہے جو انہوں نے اپنے روایتی کمانڈو تکبر کے ساتھ ارشاد فرمایا تھا کہ آئین تو محض کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے جسے وہ جب چاہیں پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتے ہیں۔ اور انہوں نے من و عن یہی تو کیا تھا۔ اقتدار حاصل کرنے کیلئے انہوں نے ایک منتخب وزیر اعظم کا تختہ الٹا، آئین توڑا اور پھر اپنے تابع فرمان ججوں سے یہ پروانہ حاصل کرلیا کہ وہ نہ صرف آئین کو معطل کرسکتے تھے بلکہ اس آئین میں اپنی مرضی کی جو چاہے ترمیم بھی کرسکتے تھے۔ انہوں نے اس رعایت پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ جب ان کے خلاف چیف جسٹس افتخار چودہری کی بیجا برطرفی کے جواب میں عوامی مہم نے زور پکڑا تو انہوں نے ایک بار پھر آئین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی۔ پاکستان کی ایک عدالت نے اتنا حوصلہ کیا تھا کہ پرویز مشرف کی آئین شکنی کو اس نے غداری سے تعبیر کیا، اور درست کیا کہ آئین کا آرٹیکل 6 یہی کہتا ہے کہ ملک کے آئین کو توڑنے والا ملک سے غداری کا ارتکاب کرتا ہے جس کی سزا موت ہے۔ لیکن اعلیٰ عدالت نے ان کی موت کی سزا کو کالعدم قرار دے دیا اور وہ تلواروں کی چھاؤں میں باعزت دبئی جاکر بس گئے اور وہیں ان کو موت کے فرشتہ نے آلیا۔ لیکن اس غدارِ وطن کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا اور اس مٹی کے سپرد کردیا گیا جس مٹی کو انہوں نے پاکستان دشمنوں کے ہاتھ بیچا تھا۔ عمران خان نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ باجوہ کی ملت فروشی پر ان کے خلاف فوجی قانون کے مطابق تفتیش کی جائے اور یہ فیصلہ کیا جائے کہ آیا وہ پاکستان سے غداری کے مرتکب ہوئے ہیں یا نہیں؟ لیکن عمران کا یہ مطالبہ صدا بہ صحرا ہی رہے گا اسلئے کہ پاکستان کی اشرافیہ اپنے آپ کو ہر قانون سے ماوراء گردانتی ہے۔ قانون تو پاکستان میں صرف کمزور اور نادار کو سزا دیتا ہے۔ بڑے اور طاقتور اس کی پہنچ سے ہمیشہ دور رہے ہیں۔ عسکری قیادت اور اعلیٰ عدلیہ کا گٹھ جوڑ ملک و قوم کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ کھوکھلا کردیا ہے پاکستان کو اس گٹھ جوڑ نے، کنگال بنادیا ہے اس قوم کو جس میں ہر طرح کی صلاحیت ہے، ہنر ہے، جوہر ہے لیکن بدقسمت قوم اس سیاسی قیادت سے محروم ہے جو اسے نجات اور کامرانی کی منزل تک لیجاسکے۔ محروم ہے کہنا شاید درست نہ ہو اس صورتِ حال میں کہ پاکستانی قوم کو اپنی قیادت کیلئے قائدِ اعظم اور قائدِ ملت لیاقت کے بعد عمران کی شکل میں ایک صالح، دیانت دار اور ملک و قوم سے مخلص رہنما میسر آیا تھا لیکن اس کی ایمانداری اور ملک سے والہانہ لگاؤ پاکستانی اشرافیہ کو اپنے گلے میں تنگ ہوتی ہوئی پھانسی محسوس ہوئی سو قمر باجوہ جیسے ملت فروش نے اپنے غیر ملکی آقاؤں کی مدد سے اس کانٹے کو نکال کر پھینک دیا۔ باجوہ اور گماشتوں نے یہ سوچا تھا کہ جو کانٹا انہوں نے نکالا تھا وہ اب کبھی ان کے پیروں میں نہیںچبھے گا لیکن عمران کی عوامی پذیرائی اور مقبولیت نے ان کی راتوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ باجوہ کے جانشین سپہ سالار، عاصم منیر سے یاس زدہ قوم نے یہ امید وابستہ کرنی چاہی تھی کہ وہ اپنے ملت فروش پیشرو کی روش سے ہٹ کر کوئی نیا راستہ اپنائیں گے۔ فوج کے ترجمانوں اور نقیبوں نے بھی ان کے حافظِ قرآن ہونے کا بہت ڈھنڈورا پیٹا تھا کہ شاید سادہ لوح عوام اس چورن کو ہضم کرلیں کہ ان کا حافظ ہونا ان کے نیک سیرت ہونے کی دلیل تھا۔ لیکن ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ قرآن کو رٹ کر حفظ کرلینا کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ حافظ دودھ کا دھلا ہوگیا۔ قرآن کردار اور سیرت میں جاگزیں ہو تب بات بنتی ہے۔ عاصم منیر نے تین مہینے میں کوئی ایسی روش نہیں اپنائی جس سے یہ اشارہ مل سکے کہ وہ قمر باجوہ کے راستہ کو اپنانا نہیں چاہتے۔ ان دنوں ان کے ضمن میں سوشل میڈیا چلا چلا کر کہہ رہا ہے کہ وہ اپنے امریکی آقاؤں سے اپنے لئے ہدایات لینے خفیہ دورے پر آئے تھے۔ چشم دید گواہوں نے گواہی دی کہ ان کا گلف سٹریم جیٹ وہاں دیکھا گیا جہاں ان کے سرپرست انہیں طلب کرنا چاہتے تھے لیکن فوج کے ترجمان نے اس کی تردید کی ہے۔ مشکل عسکری طالع آزماؤں کیلئے اب یہ ہوچکی ہے کہ قوم اب ان ترجمانوں کے ہاتھوں مزید بیوقوف بننے کیلئے تیار نہیں ہے۔ باجوہ نے وہ کام کیا ہے کہ پاکستانی عوام کا نہ صرف فوج پر سے بھروسہ اٹھ گیا بلکہ ان کے دلوں میں اپنی فوج کے خلاف نفرت نے جنم لے لیا ہے۔ یہ پیش رفت نہ پاکستان کے حق میں درست ہے نہ ہی عسکری قیادت کے حق میں ۔ لیکن بجائے اس کے کہ نئی عسکری قیادت قوم کے اعتماد کو بحال کرنے کی کوشش کرے اب تک تمام تر کوشش یہ ہے کہ عوامی امنگوں کے خلاف مذموم فسطائی حرکتیں جاری رہیں۔ ملک کا وزیر داخلہ ایک جرائم پیشہ اور نابکار شخص ہے لیکن رانا ثناء کو عسکری قیادت نے کھلی چھٹی دی ہوئی ہے کہ وہ ہر نئے دن اپنی مجرمانہ حرکتیں نہ صرف جاری رکھے بلکہ ان میں اضافہ کرتا رہے۔ اس قاتل کا تازہ فیصلہ یہ ہے کہ عمران دور کے وزیر خزانہ، شوکت ترین کو گرفتار کرنے کیلئے ایفٖ آئی اے کو پروانہ دے دیا گیا ہے۔ طاقت کا نشہ کیسے سر چڑھ کر بولتا ہے یہ نہ صرف رانا ثناء جیسے جرائم پیشہ کی حرکتوں سے عیاں ہے بلکہ عسکری قیادت کے اپنے گماشتے اس کی بھرپور تائید کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کیلئے پاکستان یوں لگتا ہے کہ ایک مفتوحہ ملک ہے جس پر وہ قابض ہیں اور جس کے بائیس کڑوڑ عوام ان کیلئے کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اور کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ پاکستان کے مفلوک الحال عوام کی نجات ان فاتحین سے کیسے ممکن ہوگی اس سوال کا جواب فی الوقت ہمارے پاس تو نہیں ہے۔ لیکن ان کی حالتِ زار اور ملک کی حرماں نصیبی پر ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں :؎
کیا کردیا وطن کا مرے حال، الاماں
چولہے ہیں سرد سینوں سے اٹھتا ہے پر دھواں
ظلمات کے بسیرے میں گم کردہ راہ ہے
ہر کوچے، ہر گلی میں بکا، آہ اور فغاں!
Prev Post