پیر کے تباہ کن زلزلے کے بعد کئی دنوں تک شام میں کسی قسم کی امداد نہ پہنچی تھی لوگ خود ہی ملبے کے ڈھیروں کو کھود کر لاشیں نکا ل رہے تھے اسپتال تھے نہ ڈاکٹر‘ سردی میں ٹھٹھرتے لوگوں کے لیے خوراک اور خیمے تک نہ تھے سرحد کی دوسری طرف سے کمبلوں میں لپٹی لاشیں آ رہی تھیںیہ کمبل رنگین بھی تھے اور ان پر پھول بھی بنے ہوئے تھے ان میں سے ہر ایک میںکاغذ کا ایک ٹکڑا بھی پڑا ہوا تھا جس پر آخری سفر پر روانہ ہونے والے کا نام لکھا ہوا تھا ترکی کی سرحد پر کھڑا سپاہی نام پکا ر کر کاغذ واپس کمبل میں رکھ دیتا تھا سرحد کی دوسری طرف انتظار کرنے والے لواحقین اپنے رشتے دار کا نام سن کر آگے بڑھتے ‘کانپتے ہاتھوں اور روتی آنکھوں سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے والوںکی شناخت کرتے اور پھر سرحد پار سے آنے والے مسافر کو گاڑی میں ڈال کر اسکی آخری آرام گاہ تک لے جاتے ترکی میں جان کی بازی ہار کر واپس آنے والے چند برس پہلے نئی امنگوں اور ولولوں کیساتھ ایک نئے سفر پر روانہ ہوتے تھے وہ اپنے ملک کی خانہ جنگی میں عمارتوں کے ملبوں سے لاشیں نکالتے نکالتے تنگ آ چکے تھے اپنے بچوں کے لیے کسی محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں انہوںنے ایک موہوم سی امید اور ایک مبہم مستقبل کے دھندلے خواب کے تعاقب میں انجانی منزلوں کا سفر اختیار کیا تھا انہیں معلوم نہ تھا کہ موت انہیں سرحد پار بھی زندہ رہنے نہ دے گی ایک نئی سرزمین پر جو گھر انہوں نے بڑی محنت سے بنائے تھے ان ہی کے ملبوں سے ان کے بے جان جسم نکال کر واپس انکے وطن بھجوا دئے جائیں گے ایک ترک صحافی نے اس المیے کے بارے میں لکھا ہے Those who did not die in Syria , died in Turkey وہ جو شام میں نہ مرے ترکی میں مر گئے صحافی کو یہ بات شام کی سرحد پر کھڑے ایک سینتیس سالہ شخص احمد ال یوسف نے بتائی جو منگل کی رات اپنے کزن کی تیرہ سالہ بیٹی کی لاش لینے سرحد پر بنے باب ال حوا پر کھڑا تھا اس بچی کا نام یارہ البنیات تھا اسکے جسد خاکی کو ایک عمارت کے ملبے میں سے نکالا گیا تھا اسکے والدین اسوقت تک ملبے کے ڈھیر میں دفن تھے احمد ال یوسف شام کے سرحدی گائوں سرمدہ کے ایک ٹینٹ میں رہتا ہے اس نے صحافی کو بتایا کہ اسکا کزن 2013 میں اپنے گائوں کو چھوڑ کر ترکی چلا گیا تھا ان دنوں شام کے سرحدی علاقے گولہ بارود اور فضائی حملوں کی زد میں تھے
شام میں بارہ برس پہلے شروع ہونیوالی جنگ ابھی تک جاری ہے چار ملین سے زیا دہ لوگ ترکی‘ اردن‘ لبنان اور یورپ چلے گئے ہیں ان ہی اجڑے ہوے لوگوں میں ہند قیدوحا کا گھرانہ بھی شامل ہے ترک صحافی نے لکھا ہے کہ قیدوحا دس برس تک اپنے شوہر اور تین بچوں کے ہمراہ شام کے شہروں میں ملازمت اور پناہ گاہیں تلاش کرتی رہی اس نے سوچا تھا کہ اپنا وطن ہر حال میں بہتر ہے مگر دو برس پہلے انہوںنے ارادہ تبدیل کر لیا اور ترکی چلے آئے یہاں قسمت نے انکا ساتھ دیا اور انہیں ملازمتیں اور کرایے کا گھر بھی مل گیا مگر ایک ہفتہ پہلے انتاکیہ میں آنے والے زلزلے نے ہزاروں عمارتوں کو زمین بوس کردیا ترکی میں اب تک جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 40 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے سخت سردی اور بارش میں لوگ بچوں اور بوڑھوں سمیت رات گذارنے کے لیے پنا گاہیں ڈھونڈ رہے ہیں ہند قیدوحا نے صحافی کو بتایا کہ شام کی خانہ جنگی میں گھر تبدیل کرتے کرتے وہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ رات سونے کے لیے جو جگہ بھی میسر آ جائے وہی گھر ہوتاہے اس نے کئی مرتبہ دیواریں اور چھتیں گرنے کے مناظر دیکھیں ہیں عمارتوں کے ملبے سے زندہ اور مردہ لوگوں کے نکالے جانے کے دلدوز مناظر بھی اس کے لیے نئے نہیں شام کی خانہ جنگی سے دور آ جانے کے بعد قیدوحا نے سوچا تھا کہ اب یہ سانحات اسے پھر کبھی نہ دیکھنے پڑیں گے مگر اب وہ یہ سوچ رہی ہے کہ یہ زلزلہ اس خانہ جنگی سے کہیں بڑی تباہی ہے جس سے بھاگ کر وہ یہاںآئی تھی
دس برس پہلے ترکوں نے لٹے پٹے شامیوں کو خوش آمدید کہا تھا مگر اب انہوںنے اپنے مہمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا ہے وہ اس زلزلے سے پہلے ہی انہیں واپس چلے جانے کا کہہ رہے تھے پینتیس سالہ ہند قیدوحا نے صحافی کو بتایا کہ اب تو انتاکیہ کے شہریوں نے ان پر لوٹ مار کے جھوٹے الزامات بھی لگانے شروع کر دیے ہیں مگر سب لوگ ایک جیسے نہیںہوتے زلزلے کے بعد انتاکیہ کے کئی شہریوںنے شامیوں کو اپنے گھروں میں پناہ بھی دی ہے قیدوحا ایک منہدم عمارت میں اپنی فیملی سمیت رہ رہی ہے اس نے کہا کہ اسے اپنے بچوں کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہیے زندگی اسنے پہلے بھی کئی مرتبہ زیرو سے شروع کی تھی وہ ایک بار پھر اسی مقام پر آ کھڑی ہوئی ہے جہاں سے وہ پہلے بھی کئی مرتبہ گذر چکی ہے اس نے کہا کہ اسے اس منہدم عمارت سے خوف آتا ہے وہ چند دنوں کے لیے ترک حکومت کے بنائے ہوے ٹینٹ کیمپ میں جانا چاہتی تھی مگر افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ شامی باشندوں کو ان کیمپوں میں رہنے کی اجازت نہیں قیدوحا اب اپنے بچوں کو انتاکیہ سے کہیں دور لے جانا چاہتی ہے وہ اپنی جمع پونجی کو ایک نئی منزل کی جانب ایک نئے سفر پر خرچ کرنا چاہتی ہے فیض صاحب نے شاید ایسے ہی سوختہ سامانوں کے لیے دعا کی ہے
؎ہر ایک خانۂ ویراں کی تیرگی پہ سلام
ہر ایک خاکِ بسر‘ خانماں خراب کی خیر!
Prev Post
Next Post