چھ کھرب روپوں کا سوال ہے با با!

100

پاکستانیوں! آپ کا پیارا ملک آج معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، اس کی وجہ کہیں آپ ہی تو نہیں ہیں؟۔اس حال میں پہنچانے میں شاید ہر اُس پاکستانی نے اپنا حصہ لیا ہے، جس نے نہ خود تعلیم لی اور نہ اپنے بچوں کو پڑھایا۔اس نے اپنے کاروبار میں ترازو میں ڈنڈی ماری، جو سودا بیچا اس کے نقائص سے گاہک کو آگاہ نہیں کیا۔ اس نے اپنے کام نکالنے کے لیے سرکاری اہل کاروں کی مٹھی گرم کی۔ اس نے گھر کا کوڑا کرکٹ گلی میں پھینکا ۔ اس نے اپنے بچوں کو چوری کرنے، جھوٹ بولنے اور امتحانوں میں نقل مارنے پر کچھ نہیں ٹوکا۔ اس نے ہمسائے کی بیوی پر بری نظر رکھی، اس نے سرکای زمین پر اطمینان سے قبضہ کیا، اس نے جب موقع ملا، چوری کرنے میں کوئی برائی نہیں سمجھی، اس نے نماز، روزہ دکھاوے کے لیے کیا، اس نے اگر مسلمان تھا تو یا قران کبھی پڑھا ہی نہیں اور اگر پڑھا تو بغیر اس کا مطلب جانے، اس نے ہر ملا مولوی کی بات کو بغیر تحقیق کے سچ جانا، اس نے جانوروں اور بچوں پر تشدد کرنے میں کوئی برائی نہیں سمجھی، اس نے انتخابات میں اپنا ووٹ ان امید واروں کو دیا جو اس کی برادری سے تھے یا کسی با اثر کے کہنے پر، کبھی یہ سمجھ کر اپنا ووٹ نہیں ڈالا کہ اس کو اس امید وار کے منشور سے اتفاق تھا۔ جس نے جب کبھی مشکل کا وقت آن پڑا، تو اپنی کرتوتوں پر نظر ڈالنے کے ارد گرد کے با اثر لوگوں سے مدد مانگی یا رشوت دے کر کام چلایا، اس نے جب کبھی اس کے سودے کی مانگ بڑھی تو سودے میں ملاوٹ کر لی، بکرے کا گوشت کم پڑ گیا تو کسی حرام جانور کے گوشت کو ملا لیا، مردہ مرغیوں کا گوشت بیچا یا کھانوں میں ملا لیا، اس نے رشوت کی آمدنی سے خیرات دی، مساجد کو چندے دیے اور حج بھی کیے۔رشوت کی آمدنی کو اپنی جائز آمدنی میں ملا کر خود بھی کھایا اور فیملی کو بھی کھلایا۔ اس نے کبھی حرام اور حلال میں تمیز نہیں کی۔ اس نے اپنے ماحول کو صاف کرنے کے بجاے اس کو مزید گندا کیا۔ اس نے گاڑی یا موٹر سائکل چلاتے وقت ٹریفک قوانین کا لحاظ نہیں کیا، اس نے اپنے غریب رشتہ داروں، ہمسایوں اور دوستوں کی مدد نہیں کی، اور نہ کبھی پوچھا کہ وہ بھوکے ہیں۔اس نے ہمیشہ بس اپنے آپ کو دیکھا اور جب آمدنی بڑھی تو بجائے پورا ٹیکس ادا کرنے کے، محکمہ کے ملازمین کے ساتھ ساز باز کر کے ٹیکس میں کمی کروا لی۔ یہ تو چند مثالیں ہیں۔ باقی آپ بہتر سمجھتے ہیں۔
اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ہم کہیں کہ ہمارے بُرے حالات میں سب سے زیادہ قصور ہمارے چور اور نااہل حکمرانوں کا ہے جنہوں نے اس ملک کی دولت کو ماں کا دودھ سمجھ کر ہر طریقے سے لوٹا۔آج آپ کو دال روٹی کے لالے پڑے ہیں۔ آپ کے چولہوں میں گیس نہیں ہے۔ بجلی اگر آتی ہے تو اسقدر مہنگی کہ بلب جلانے کے بجائے دل جلاتی ہے۔آپ کا لاڈلااگر کام پر جانے کے لیے پٹرول لینے جاتا ہے تو وہ اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ کم سے کم لینے پر مجبور ہوتا ہے۔ انہوں نے بجائے عوام کو یہ بتانے کہ پٹرول،چائے، کھانے کا تیل، دوائیں، پیاز، ادرک ، ٹماٹر، بہت سے پھل پاکستان کو ڈالر دیکر درآمد کرناپڑتے ہیں ، اور ایک دن آ سکتا ہے کہ ہمارے پاس وہ ڈالر نہ ہوں اور ہم یہ درآمدات نہ کر سکیں تو ہمیں اس صورت کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے؟ یہاں آ کر ہم حکمرانوں کے رویہ پر نظر ڈالتے ہیں۔ہمارے اکثر حکمران صرف اس لیے سیاست میں آتے ہیں کہ انہیں اختیار ملتا ہے۔ اس اختیار سے ان کے لیے اوپر کی آمدنی کے کئی دروازے کھل جاتے ہیں۔ اگر وہ انتخاب کے راستے اختیار حاصل کریں، تو وہ اس اختیار کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں، نہ کہ ان لوگوں کے لیے جو اس امید پر ووٹ دیتے ہیں کہ نو منتخب ان کے مسائل حل کریں گے۔حکمران فی الفورسیاسی فائدوں کے لیے ملک کا خزانہ استعمال کرتے ہیں، نا کہ طویل المدتی منصوبوں پر ، جیسے بجائے دریائوں پر بندھ بنا کر بجلی حاصل کریں، وہ فوری تیل پر چلنے والے پلانٹ لگواتے ہیں جن سے کمیشن ملتا ہے۔ جب سرکاری دفاتر میں بھرتیاں کی جاتی ہیں تو امیدواروں کی لیاقت اور قابلیت نہیں دیکھتے بلکہ کون کتنی رشوت دے رہا ہے یا کس سیاستدان نے بھجوایا ہے؟ ا س پالیسی کی وجہ سے نا اہل اور نکمے اہلکار بھرتی ہوتے ہیں ۔اور یہ اہلکار اپنی دی ہوئی رشوت کی واپسی کے لیے اپنے اختیارات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔یوں ملک سے انصاف کا جنازہ اٹھ جاتا ہے۔
اپنا دل خراب نہ کریں۔ اللہ تو ہماری مدد کرے گا خواہ ہم اللہ کے احکامات کی ذرہ بھر پرواہ نہ کریں۔تھوڑا اصل اور فوری مسائل کی طرف غور کریں:
پاکستان کے حکمرانوں نے رشوت خور اہلکاروں کو نہیں قابومیں کیا جس کی وجہ سے پورا مالیہ اکٹھا نہیں ہوتا۔ یہ مالیہ کے افسران تاجروں کے ساتھ ساز باز کر کے ٹیکس کی وصولی میں خطرناک حد تک ڈنڈی مارتے ہیں۔، جس سے سارا نقصان قومی خزانہ کا ہوتا ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے، حکومت بجائے کرپٹ اہلکاروں کو پکڑنے کے، اور تاجر برادری کے ساتھ پھڈاکرنے کے، اندرونی اور بیرونی بینکوں سے بڑے بڑے قرضے لیتے ہیں۔ابھی چند روز قبل، ہمارے انتہائی معتبر وکیل جناب بابر اعوان نے اپنی وی لاگ میں بتایا کہ پاکستان کا موجودہ بجٹ کی کل رقم 8.8 کھرب روپیہ ہے۔ لیکن پاکستان کا کل مالیہ یعنی آمدن صرف 5.5 کھرب ہے۔ حکومت کے کل اخراجات 4.5 کھرب ہیں، اور پانچ کھرب کی ادائیگی صرف قرضوں پر سود اور ادائیگی ہے۔ حکومتی بجٹ میں 1.8 کھرب محکمہ دفاع کے لیے مختص ہے۔اس طرح کل اخراجات 11.3 کھرب بنتے ہیں۔ اسے خسارے کا بجٹ کہتے ہیں کیو نکہ حکومت کی کل آمدنی 5.5 کھرب ہے۔ اب حکومت اپنے تقریباً چھ کھرب روپے کے خسارے کو کیسے پورا کرے گی؟ ماضی میں ہمیشہ قرضے لیکر ایسا خسارہ پورا کیا جاتا تھا۔ لیکن اب وہ قرضہ اتنے بڑھ چکے ہیں کہ انہیں اتارنے کی کوئی صورت نظر نہیںآتی۔ ملکی بینکوں کے قرضے تو زور جبر کر کے، بہلا پھسلا کے، مزید مدت بڑھا کر ٹالے جا سکتے ہیں۔ (حکومت بینکوں کو خوش کرنے کے لیے سود کی شرح بڑھاتی رہتی ہے)۔مسئلہ توبیرونی قرضوںکی واپسی کا ہے، جن کے لیے ہمارا خزانہ تیزی سے، ڈالروں سے خالی ہو رہا ہے۔ جب پاکستان بیرونی قرضوں کی قسطیں یا سود واپس کرنے سے معذرت کرے گا، تو دیوالیہ کا اعلان ہو گا۔یہ اب جلد ہی ہوتا نظر آتا ہے، تا آنکہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پا جائے، اور اس کی بنیادپر دوسرے ممالک جیسے سعودی عرب اور چین پاکستان کو قرضے دینے کے لیے تیار ہو جائیں؟ سوال یہ ہے کہ یہ ملک کب تک بھیک مانگ مانگ کر اور قرضوں پر چلے گا؟ اوراس کے چور اور نا اہل حکمران کب تک ملک کی دولت فضول خرچیوں پر لٹاتے رہیں گے؟ لگتا تو یہ ہے کہ اب بھیک بھی نہیں ملے گی۔اور نہ ہی قرضہ، کیونکہ ہم قرضہ واپس کرنے کی حالت میں نہیں ہیں۔
اب آئی ایم ایف کی کہانی مختصراً پڑھیں۔ پاکستان آئی ایم ایف سے 1.18 بلین ڈالر کا قرضہ لینے کے لیے اس کی کڑی سے کڑی شرائط مان رہا ہے۔ لیکن سنا گیا ہے کہ آئی ایم ایف اصرار کر رہا ہے کہ حکومت معاہدے پرعمران خان کے دستخط بھی کروائے۔ اس معاملہ پر تشویش رکھنے والے پاکستانیوں نے آئی ایم ایف کے پاکستان میں متعین نمائندے کو ایک کھلا خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ
’’ ہم عام شہری پاکستان کی موجودہ حکومت کی نا اہلی پر سخت تشویش رکھتے ہیں۔اور اس بے تحاشا کرپشن پر جو ملک کے فوجی جنرلز، ججوں، سیاستدانوں اور نوکر شاہی میں پھیلی ہوئی ہے۔پاکستان ۷۵ سال سے کرپٹ اور نا اہل حکمرانوں کے ہاتھوں ِپٹ رہا ہے۔ اور پاکستان کی زندگی کے نصف سال فوجی جنرلز نے آئین کو بار ہا پامال کیا ہے، جمہوری حکومتوں کے تختے الٹے ہیں، اور سرکاری طور پر ملک کو چلایا ہے۔یہ کرپٹ جنرل، سیاستدانوں، ججوں اور جنرلز کے ساتھ ملکر،حکومتیں بنا کر ان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان کئی بلین ڈالر کا قرضدار ہے۔ 270 بلین کا، جو اس کی سالانہ پیداوار کا ۷۹ فیصد بنتا ہے۔پاکستان کی ایک چوتھائی آبادی غربت کی لکیر کے نیچے رہتی ہے۔۲۱ فیصد پاکستانی غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔ اور پانچ سال سے کم عمر کے ۴۴ فیصد بچے اپنی قدرتی افزائش سے کم بڑھ رہے ہیں۔اوسطاً ہر سال، ایک ہزار نو مولود بچوں میں سے۶۵ پانچ سال کی عمر سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں۔پاکستان کی آبادی کے ایک چوتھائی حصے کو بجلی اور صاف پانی دستیاب نہیں۔موجودہ مخلوط حکومت ، سیاسی مخالفین کی آواز دبانے کے لیے، مخالفین اور صحافیوں پر فسطائی حربے استعمال کر رہی ہے، جیسے گرفتاریاں، تشدد، اور غیر قانونی حراست، جن میں ایک مقبول صحافی ارشد شریف کا قتل بھی شامل ہے، یہ ان انسانی حقوق کی انتہائی پامالی کی وہ چند مثالیں ہیں جو فوج کے زیر اثر غیرجمہوری حکومت کر رہی ہے۔ اس پر، حکومت ایک نیا قانون پاس کرنے جا رہی ہے جس سے فوج اور عدلیہ پر نکتی چینی کرنے والوں کو پانچ سال قید اور دس لاکھ روپے کا جرمانہ ہو گا۔(پاکستانیوں کا اظہار رائے کا آئینی حق گیا بھاڑ میں)۔آئی ایم ایف با قاعدگی سے پاکستان کو قرضہ دیتا رہا ہے لیکن ان قرضوں سے عام پاکستانی عوام کی حالت نہیں سدھرتی۔ بے روزگاری، مہنگائی، صحت اور حفظ عامہ کے مسائل نے پاکستان کو ایک ایسا ملک بنا دیا ہے جس میںمحنت کشوں کے لیے زندگی دوبھر کر دی ہے۔ اگرچہ آبادی کا پانچ فیصد سے کم رشوت خور اشرافیہ اورسرکاری ملازم مزے کرتے ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر ہم متفکر شہری آئی ایم ایف سے درخواست کرتے ہیں کہ پاکستان کو مزید قرضے دینے سے پہلے یہ یقینی بنائیں کہ:
۔ انسداد رشوت ستانی کے قوانین کی سختی سے عملداری اور نگہداری
۔ ایک سختی سے عملدرامد طریق کار جس میں فوج، عدالتی عملہ، اور نوکر شاہی، ملک کے اندر یا باہر، اپنے اور اپنے اہل خانہ کے اثاثوں کا اندراج اقرار ناموں کے ذریعہ با قاعدگی سے کروائیں۔
۔ ججوں، فوجیوں، اور نوکر شاہی کے اثاثوں کی تفصیلات عوام کو پتہ چل سکیں۔
۔ ٹیکس کے قوانین سے ہر قسم کی پردہ داری ختم کی جائے تا کہ عوام ان لوگوں کی حقیقت کی تفصیلات جان سکیں۔
۔ فوج اور عدلیہ پر نکتہ چینی کے زیر غور کالے قانون پر کاروائی کو ختم کیا جائے۔‘‘
آئی ایم ایف متفکر پاکستانیوں کی اس درخواست پر کس حد تک عمل کرے گا،وہ جاننا تو مشکل ہے۔ لیکن ان کا وفد کم از کم ان مسائل سے تھوڑا بہت متاثر تو ہو گا کیونکہ یہ باتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔کچھ معاملات میں انکے ہاتھ بندھے بھی ہوتے ہیں۔ان مسائل پر پاکستانی عوام کو اپنے احتجاجوں کے ذریعے طاقتور حلقوں تک پہنچانا چاہیے۔ان باتوں سے کچھ اور تو مطلب نکلے یا نہ نکلے، کم از کم یہ تو روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے کہ کیوں اشرافیہ، فوج، عدلیہ اور نوکر شاہی عمران خان کے خلاف ہیں۔ہم بار بار یہ شعر دہراتے رہیں گے:
؎اٹھو وگرنہ حشرنہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا!