ایک امریکی لکھتا ہے کہ ویلنٹائن ڈے کمرشل دن ہے، مردوں کا بجٹ خراب کرنے کا دن ہے، شادی کے خلاف ایک پادری کی سوچ کا دن ہے، اس دن شوہروں کو پھر سے بوائے فرینڈ بننے کی اداکاری کرنا پڑتی ہے ‘محبت کرنا آسان ہے محبت کی دلدل سے نکلنا مشکل“۔ مغرب میں ایسے لوگوں کی تعداد بھی موجود ہے جو ویلنٹائن ڈے منانے کے خلاف ہیں۔کئی لوگ ویلنٹائن ڈے کو extortion dayبھی قرار دیتے ہیں یعنی محبت کی آڑ میں دھونس اور بلیک میلنگ ہوتی ہے۔ مردوں کو اس روز ہر صورت اپنا مال خرچ کرنا پڑتا ہے ورنہ پورا سال طعنے سننے پڑتے ہیں۔ اس مصنوعی تہوار نے دیسی شوہروں کو بھی سینٹ ویلنٹائن کا صدقہ جاریہ بننے پر مجبور کر دیا ہے ۔بیویوں کوبھگتانا چاند پر جانے کے مترادف ہے۔ پھر سے نو بیاہتا شادی کا ڈرامہ رچانا پڑتا ہے۔ سرخ گلاب ،دل کا کباب اوربجٹ خراب سے بابے ویلنٹائن کو ثواب پہنچانا پڑتا ہے،یہ اداکاری اس بیوی اور محبوبہ کے لئے کرنا پڑتی ہے جس کی شادی سے پہلے دعا تھی ”ربّا یا تے سّس چنگی ہووے یا اودھی فوٹو دیوار تے ٹنگی ہووے “۔۔۔ جی جناب آجکل کی لڑکیوں کے یہی حالات ہیں ، شادی کے بعد خانہ داری نام کو نہیں، ہر روز ویلنٹائن ہونا چاہئے۔ شوہر کے آگے مجبورََا کھانا رکھنا پڑ جائے تو صورتحال یہ ہوسکتی ہے، بیوی ’ڈنر کھا لو۔۔۔ ‘ شوہر ’دوپہر کاوقت ہے، اسے لنچ کہتے ہیں‘۔ بیوی ’اتنی انگریزی مجھے بھی آتی ہے، یہ رات کا بچا ہوا کھانا ہے“۔ ویلنٹائن ڈے لازمی منانا پڑے گا لیکن بیوی کی انگریزی ٹھیک کرنے کی غلطی نہ کی جائے ورنہ بیزاری یہاں تک پہنچنے کا اندیشہ ہے، بیوی ”سنیئے جی ! خوش نصیب کو انگریزی میں کیا کہتے ہیں؟ شوہر ”ان میریڈ“۔۔۔ اور اگر حالات اس سے بھی بدتر ہو جائیں تو شوہر کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑ سکتا ہے۔ ڈاکٹر مریض کی بیوی کو ایک طرف لے جاتے ہوئے کہتا ہے’ دیکھئے،آپ کے شوہر شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔انہیں ذہنی سکون کی اشد ضرورت ہے ۔ان کو ہر طرح کی ٹینشن سے دور رکھا جائے۔ دل و جان سے محبت اور خدمت کی جائے۔ شوہر نے پوچھا ’ ڈاکٹر کیا کہہ رہا تھا ؟ بیوی ’ ڈاکٹر نے جواب دے دیا ہے ‘۔۔۔ اور ہاں ویلنٹائن ڈے کا تحفہ اضافی ہوتا ہے، پہلی کی گئی شاپنگ کا ذکر نہ کیا جائے ورنہ جواب آپ کو معلوم ہی ہے۔ شوہر’ تم پھر ایک سوٹ لے آئیں،ابھی پرسوں ہی تو۔۔۔۔بیوی’ پرسوں کیا،بولو ،بولو۔۔۔ پرسوں کیا ۔۔۔! شوہر ’کچھ نہیں میں تو کہہ رہا تھا پرسوں ایک ہی سوٹ لائی تھی ،آج دو لے آتی ‘۔ ۔۔لیکن ایسا بھی دیکھا گیاہے کہ فرمائشیں منوانے کے لئے اکثر بیویاں ماحول بناتی ہیں۔بیوی’فرض کرو اگر میں تمہاری ہر بات مانوںاور سمجھوں تو۔۔۔۔اور شوہر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوئے جا رہا ہے۔ بیوی اپنا جملہ نا مکمل چھوڑتے ہوئے ’ کیا ہوا ؟ شوہر پیٹ پر ہاتھ رکھے ہنستے ہوئے ’ مجھ سے تو فرض بھی نہیں کیا جا رہا ‘۔۔۔بابا ویلنٹائن کی بے بے نے اس لعنتی کو جنم دے کرصدیوں سے مردوں کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ شاپنگ مال ویلنٹائن تحائف سے سجے ہوئے ہیں۔ مرد وں کو ایسے تحفے کا انتخاب کرنا پڑتا ہے جو ان کی محبت کا ثبوت پیش کر سکے۔ ایک سرخ گلاب یا کھلونے کادل پیش کرنے سے بات نہیں بنتی۔ہمارے نزدیک تو محبت کا بہترین ثبوت چلغوزے چھیل کر پیش کرنا ہے۔ کسی امریکی کو چلغوزے دیئے جائیں اور کہا جائے کہ بیٹھ کر چھیلو اور اپنی محبوبہ یا بیوی کو پیش کرو ۔ ہمیں یقین ہے اتنی محنت کوئی ”ویلا عاشق“ ہی کر سکتا ہے ، گوروں کے پاس اتنی فرصت نہیں۔دیسی شوہر اگر سال میں ایک مرتبہ اظہار محبت کا ثبوت گھر کی صفائی اور بہترین پکوان تیار کرکے دے تو اس کی بیوی کو مزید کسی ثبوت کی حاجت نہیں رہے گی۔ لیکن وہ بھی اس شوہر کے لئے جو اپنی بیوی کو دل سے چاہتا ہو ورنہ حالات برعکس بھی ہو سکتے ہیں۔ بیوی ’جب آپ کو مجھ پر غصہ آتا ہے تو آپ کیا کرتے ہیں؟ شوہر ’ٹائلٹ صاف کرتا ہوں‘۔ بیوی مسکراتے ہوئے ’ارے واہ‘ وہ کیسے۔۔۔؟ شوہر ’تمہارے ٹوتھ برش سے‘۔۔۔! ایک سردار جی نے کہا کہ محبوب سے شوہر بننے کا سفر بڑا اذیت ناک ہوتا ہے اور رہی سہی کسر بابے ویلنٹائن کے ’سوریاں‘ نے پوری کر دی ہے۔ کسی نے پوچھا ’سوریاں ‘ سے آپ کی کون مراد ہے تو سردار جی سڑ کر بولے ” آپاں دے دیسی ٹی وی چینل“۔ پاک بھارت ثقافت میں بابے ویلنٹائن کا کہیں وجود نہیںتھا ، دیسی میڈیا نے مردوں کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔ سردار جی سے زیادہ تو آسمان پر چاند بیزار ہے۔ ویلنٹائن ڈے کے موقع پر ایک شخص اپنی محبوبہ کو خوش کرتے ہوئے بڑے رومانوی انداز میں چاند کی طرف دیکھ کر مخاطب ہوا ’بتا میرا محبوب کیسا ہے ؟چاند سے آواز آئی ’ایہو جیاں بے غیرتیاں زمین تک ہی رکھیا کرو“۔