عورت آزاد ، سماج آزاد!

38

پہلے میں آپ کو فاطمہ جناح پارک، ایف نائن کا محل وقوع سمجھا دوں ۔آپ کا رخ اگر مارگلہ پہاڑیوں کی طرف ہو،تو اس پارک کے دائیں طرف سیکٹر ایف ایٹ ہے۔اس سیکٹر میں اسلام آباد کی سول کورٹس واقع ہیں۔ انہی سول کورٹس کے ساتھ وکلاء کے چیمبرز کا جنگل بھی ہے۔اگرچہ ایف نائن کا سارا سیکٹر ہی پارک کے لیے مختص کیا گیا تھا پھر بھی اس کے دائیں اور بائیں کناروں پر چند عمارات نے جگہ بنا رکھی ہے ۔دائیں طرف بنی عمارات میں ایک عمارت نظریۂ پاکستان کونسل والوں کی ہے ۔یقینا سرکاری فنڈز سے ہی بنی ہو گی۔اور یہاں اسلام آباد کے وسط میں شائد "نظریہ پاکستان ” نامی وہ تصور رہائش پذیر ہے، جس نے ایک اچھی خاصی مادی اور عملی ریاست کو محض نظریاتی ریاست بناکر جادوگروں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔بائیں کنارے پر میکڈونلڈز یعنی برگر فروش عمارات بنائے کھڑے ہیں۔فاطمہ جناح پارک کے مغرب میں سیکٹر آئی نائن ہے ، یہاں ائر فورس کا ہیڈکوارٹر ہے اور اس سے بالکل متصل پاک فوج کا نیا جی ائچ کیو کا سیکٹر آئی -ٹن واقع ہے فاطمہ جناح پارک کے مغربی کنارے پر راؤنڈ اباوٹ کے ساتھ پاک فوج کے نئے جی ایچ کیو کا ایک پر شکوہ داخلی دروازہ تعمیر کیا گیا ہے ۔اس داخلی دروازے کی شان دیکھ کر کوئی بھی یہ بات نہیں مان سکتا کہ پاکستان کا بال بال قرض میں پھنسا ہوا ہے۔پارک کے بائیں جانب سیکٹر ایف-ٹن کا کمرشل مرکز ہے جہاں رات گئے تک رونق رہتی ہے۔اس قدر محفوظ اور مامون محل وقوع والے پارک میں چند روز قبل رات کے آغاز پر فاطمہ جناح پارک میں سیر کرنے والی ایک جوان لڑکی کو دو افراد کی طرف سے پستول کی نوک پر پہلے برہنہ کیا گیا ،اور اس کے بعد اسے باری باری تھپڑ مار مار کر بے آبرو کرنے کے بعد وہ دونوں بد بخت نہایت آرام و سکون اور کامل تحفظ کے احساس کے ساتھ رفو چکر ہو گئے۔یہ اسلام آباد شہر کے پررونق وسط کا واقعہ ہے۔پاک فضائیہ ، نئے جی ایچ کیو، سول عدالتوں کا جھرمٹ اور ہائی الرٹ پولیس کی ناک کے نیچے قوم کی ایک بیٹی کی عزت پامال کر دی گئی۔شہر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں میں یہ ایک معمولی سی خبر ہے ،چند روز میں لوگ بھول بھال جائیں گے۔ اس واقعے سے نہ تو ریاست کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوا ہے اور نہ ہی نظریۂ پاکستان کے مجروح ہونے کی خبر ہے۔پارک کے ہمسائے سول عدالتوں کے جنگل سے بھی کوئی صدا بلند نہیں ہوئی ، اور نہ ہی ،جیسا کہ اسلام آباد میں رواج ہے ،رات کی تاریکی میں کسی اعلیٰ عدالت کے دروازے کھل سکے ہیں ۔اگلے روز پولیس نے ادھر پھرنا شروع کیا ۔بدقسمتی سے آبرو ریزی کے واقعات کی تفصیلات سے لطف کشید کرنے والے معاشرے سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے۔اس شہر میں ہمہ وقت غصے میں رہنے والا آگ بگولہ وزیر داخلہ بھی رہتا ہے۔وزیر داخلہ جرائم کی حرکیات ، وجوہات اور تدارک کی جملہ تدابیر سے آگاہ ہے ۔لیکن انہوں نے اس سب کے باوجود آئی جی اسلام آباد کو چند گھنٹوں کے اندر مجرم پکڑنے کا ٹاسک نہیں دیا۔ آئی جی پولیس نے متعلقہ علاقے کے ایس ایچ او کو ایک گھنٹے کے اندر اندر مجرم پیش کرنے کا حکم جاری نہیں کیا ۔یہ سارے ذمہ دار لوگ صرف کوشش کر رہے ہیں۔جس کے بے سود ہونے پر کسی کو بھی ذرا برابر شک و شبہ نہیں ہے۔وجہ یہ ہے کہ ہمارے راست باز اور شدت کے ساتھ نیکی بدی کے تصورات اور معافی تلافی کے انعامات میں الجھے لوگوں کے نزدیک شہر کے وسط میں ایک جوان لڑکی کی آبرو لٹ جانا قابل توجہ امر نہیں ہے ۔وہ گھر سے باہر کیوں نکلی تھی؟ رات کے آغاز پر پارک میں سیر کرنے کیوں گئی تھی؟ پردہ کیوں نہیں کرتی تھی؟ میں پولیس کے طرز عمل پر حیران ہوں۔پارک میں پولیس والے گشت کرتے رہتے ہیں ۔میں اس مفروضے کو تو درست نہیں سمجھتا کہ اتنے اطمینان اوراحساس تحفظ کے ساتھ ، شہر کے وسط میں واقع پارک کے اندر ، جہاں پولیس کا گشت بھی جاری رہتا ہے اور وہ خصوصی طور سیر کرنے والے جوڑوں پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں ، بلا خوف و خطر ایک لڑکی کے کپڑے اتار کر ،اسے تھپڑ مار کر، اس کی آبرو پائمال کرنے والے شائد خود پولیس والے ہی ہو سکتے ہیں۔یہ ایک انتہا پسندانہ مفروضہ ہے ، لیکن میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اگر متعلقہ ایس ایچ او کو حکم دیا جائے کہ وہ شام سے پہلے مجرم پیش کر دے ،بصورت دیگر اسے مجرم قرار دے کر سزا دی جائے گی ،تو اصل مجرم شام سے پہلے سامنے آ سکتے ہیں۔ستم ظریف ایک مختلف بات کر رہا ہے ۔وہ کہتا ہے کہ اسلام آباد کی پولیس کرے بھی تو کیا کرے۔آئی جی سے لے کر ایس پی تک سب کے دروازوں پر حاضری لگانی اور مسکراہٹ سجانی پڑتی ہے ۔اس شہر میں عمال حکومت ہر وقت شدید خطرے میں رہتے ہیں ،لہٰذا ان سب کی سیکیورٹی پر مامور رہنا پڑتا ہے۔دو دو ٹکے کے لوگ وزیر مشیر بن کر پروٹوکول بھی مانگتے ہیں۔ان سارے کے سارے گھن چکروں میں جو نفری بچ رہتی ہے ،وہ چوک چوراہوں میں گھات لگا کر موٹر سائیکل سواروں کا شکار کر کے ڈیوٹی پوری کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ان پولیس والوں کے پاس عامتہ الناس کے تحفظ یا خدمت کا کوئی وقت بچتا ہی کہاں ہے۔؟
فاطمہ جناح پارک میں ہونے والے المناک واقعے پر کسی مذہبی سیاسی جماعت ،کسی تبلیغی گروہ، کسی موٹیویشنل اسپیکر( ایک نئی بیماری) کسی سیاسی جماعت یا رہنما نے نہ تو آواز اٹھائی ، نہ احتجاج کیا ، نہ جلوس نکالا۔ وجہ شائد یہ ہے کہ اس منافق معاشرے میں عورت کی عزت و تکریم کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔یہ بڑا گہرا اور الجھا ہوا معاملہ ہے ۔ایک معاشرے کو تہی دامن ، تہی ذہن اور غلام بنائے رکھنے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ عورت کو غلام بنا کر رکھا جائے ۔غلام عورتیں کبھی بھی آزاد مرد پیدا نہیں کرتیں ۔اسلام آباد جیسے بے حس شہر میں ،شہر کی آبرو کا باعث خواتین کی ایک متحرک اور دلیر تنظم ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ (ایف ڈبلیو ایف) بنی ہے ،جس نے پروگریسو اسٹوڈنٹ فیڈریشن اور عوامی ورکرز پارٹی کے اشتراک و تعاون سے ایف نائن پارک میں منظم جلوس ،جلسے اور احتجاج کا اہتمام کیا ۔اس جلوس ،جلسے اور احتجاج میں خواتین کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کی روح رواں محترمہ عصمت شاہجہان نے احتجاجی جلوس کی قیادت کی۔انہوں نے معاشرے میں خواتین کی برابری ، تحفظ ، مساوی حقوق اور ایک زندہ اور روبہ ترقی معاشرے کے لیے عورت آزاد ، سماج آزاد کے تصور پر روشنی ڈالتے ہوئے شہر کے مرکز میں ایک خاتون کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی بھرپور مذمت کی۔اسلام آباد کی ترقی پسند اور روشن خیال تنظیموں کی طرف سے احتجاج اور جلسے نے اس سوئے ہوئے شہر میں بیدار اور باشعور خواتین ، مردوں اور نوجوانوں کی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔تحقیق یہی بیدار مغز لوگ اور بیدار بخت معاشرے کی بنیاد بنا کرتے ہیں۔