سپردِ حراست

48

آزاد زندگی کو جان بوجھ کر یاکسی احتجاج کے کارن پسِ زنداں کرنا اعتراف ِ شکست کہلاتا ہے جیسے مصائب کا سامنا کرنے کی بجائے اللہ کی عطا کی ہوئی جاگتی ،چلتی پھرتی زندگی سے منہ موڑنا جسے کفران ِ نعمت سے تعبیر کسی طور غلط نہیں ۔عاجزی و انکساری سے جیون کی درگھٹناوں کا مقابلہ کرنا اللہ سے بہتری کی اُمید رکھتے ہوئے اپنی جستجو میں لگے رہنا ہی تو ایمانی طاقت کی دلیل ہے لیکن ہتھیار پھینک کر خود کو مشکلات کی نذر کرنا ایمانی کمزوری کی عکاس ہے جس سے اُصولی طور پر پہلو تہی کرنا ہی راہ ِ دانش ہے مگر جو مناظر نگاہوں میں بارہا گھوم کر یہ احساس دلاتے ہیں کہ دنیا داری میں مگن انسان اب اپنے زور ِ بازو سے کچھ حاصل کرنے کے قابل ہی نہیں رہا اُس میں یہ ہمت ہی نہیں رہی کہ وہ مشکلات کے سومنات پر سترہ نہیں تو چار حملے تو کرے اُس میں یہ جرأت ہی دم توڑ چکی کہ وہ بھوکا پیاسا رہتے ہوئے اللہ کی رضا کے لئے عصر ِ حاضر کی کربلا میں کچھ قربان کر سکے وہ جوانمردی بھی ہوا ہو چکی کہ ریاست کی حفاظت کے لئے میجر عزیز بھٹی کی طرح دشمن کے ٹینکوں کو پاک دھرتی پر ٹکنے نہ دے ۔اس قدر قحط الرجال ہو گا تاریخ کو علم ہوتا تو وہ اپنے اوراق ہی بند کر لیتی کیونکہ اب تو نہ جالب ہیں نہ فیض ہیں اور نہ ہی فراز جو اپنی شاعری سے ڈھنگ سے جینے کا پیغام تو دیتے ابتری اور پیچیدہ صورت ِ حال کے پیش ِ نظر وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے کہ ہمارا مسئلہ اخلاقیات کا نہیں معاشیات کا ہے معاشرتی اخلاق کے سنورنے کی بنیاد معاشی حالات کے بہتر ہونے پر منطبق ہے جانے کیوں دانشور اس بات کی نازکی کو اپنی سمجھ میں جگہ دینے سے اُکتاہٹ کا شکار ہوتے ہیں کہ پیٹ بھرا ہو تو بات کی سمجھ آتی ورنہ انسان تو گندم کا دانہ کھانے کی پاداش میں جنت سے محروم ہوا تھا اور آج تک جنت کی تلاش میں ہے شکم سیری کی جہدوجہد میں زندگی ہار دیتا ہے مگر مطمئن ہونے سے محروم ہوتا ہے یہ وہ طبقہ جس کی بہتری کے دعوے ہر سیاسی جماعت کرتی آئی ہے مگر آج تک ایسا کوئی بجٹ معاشی ماہرین نہیں لا سکے جو خط ِ غربت سے نیچے گرنے والوں کا ہاتھ تھام سکے جو پسے طبقات کو شکم سیری کے ضروری لوازمات میسر کر سکے جو مفلسی کے پھیلتے کینسر کا سدباب کر سکے اسی لئے تو مفلسی حس ِ لطافت کے رنگوں سے آشنا نہیں ہے غریب تہذیب کے آداب سے انجان صرف نان و نفقہ کے حصول میں فکر مند ہیںکیونکہ بچے جب آدھا پیٹ یا بھوکے سو جائیں تو سربراہ کیسے اخلاقیات کے دائرے میں رہ سکتا ہے اسی لئے میرے ملک کا مسئلہ نہ نئے انتخابات ہیں اور نہ ہی اخلاقیات بلکہ میرے ملک کا سب سے اہم مسئلہ معاشیات ہے جسے قرضوں کی زنجیروں سے ،خارجہ پالیسیوں کی پابندیوں سے آزادی دلانا ہے اگر عوامی نمائندے ایک دوسرے پر الزام تراشیاں ،مقدمے ،اسمبلیوں کی تحلیل یا عدم اعتماد کی کاروائیوں میں اپنی توانائی اپنے وقت کا ضیاع مسائل سے نظر ہٹا کر کرتے رہے تو پھر صرف غربت نہیں پھیلے گی بلکہ حساس مسئلوں سے چشم پوشی ، اور نااہلی کی سزا ہو سکتی ہے ان حالات میںخود کو یا ہم خیال جم ِ غفیر کو سپرد ِ حراست کرنا اعتراف ِ جرم و نااہلی ہے جو ریاست کی توانا صحت کے لئے کسی طور سود مند نہیں ہے علامہ کے خواب کی تعبیر کی باز آفرینی کا وقت گزری صدی کی منازل طے کرتا ہوا اس صدی میں آ پہنچا ہے اپنی حقیقی شکل اس ریاست کے آئینے میں دیکھنےکا متمنی ہے کیوں نا اس ملکی نظم و نسق کو بر ہنگی سے محفوظ کرتے ہوئے اسلامی جامہ حیات سے آراستہ کیا جائے یہ بات ہر ذی شعور کی دانست میں پس پردہ بار بار صدائیں دے رہی ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والی اس ریاست میں معاشی لین دین کا کاروبار سود سے پاک ہونا چائہے جس میں خیر بھی ہے اور برکات ِ رزق بھی ہیں بہتر ہو گا کہ ہم اسرائیلی تسلط سے آزادی پانے کے لئے آئی ایم ایف کی گرفت سے اپنے آپ کو باہر کر لیں تو پیش آنیوالی ممکنہ سختیاں اللہ کے فضل سے عارضی ہونگی ۔معاشی خوشحالی ہی ہماری پاک ریاست کی حیات ہے جس کے لئے تمام اداروں ،تمام سیاسی جماعتوں کا اللہ اور رسول ﷺ کے بتائے گئے فرمان پر عمل کرتے ہوئے ملک کو اسلامی ریاست میں تبدیل کرنا ضروری ہے کسی سیاسی مسئلے پر ہیجان انگیزی کا رحجان اپناتے ہوئے خود کو سپرد ِ حراست کرناکہاں کی دانشمندی ہے ؟ اسلامی ریاست اور اس کے باسیوں کی خوشحال بقاء کا راز سود سے پاک نظام میں پنہاں ہے بس اس بات پر عمل ہی ریاستی خوشحالی کا ضامن ہو سکتا ہے ۔