سورانجنا تیواڑی بی بی سی کی ایشیاء بزنس کی مراسلہ نگار ہیں – انھوں نے اپنے ایک مراسلہ میں لکھا تھا کہ ” گذشتہ صدی کے دوران تیل اور توانائی کے ذرائع پر کنٹرول نے دنیا کو جنگوں کو جنم دیا ، مختلف ممالک کو غیر متوقع اتحاد کرنے پر مجبور کیا اور متعدد سفارتی تنازعات کو جنم دیا “- وہ مزید لکھتی ہیں کہ ” مگر اب دنیا کی دو بڑی معیشتیں ایک اور اہم اور قیمتی ٹیکنالوجی پر لڑ رہی ہیں اور یہ ٹیکنالوجی سیمی کنڈکٹرز ہیں – وہ چھوٹی مائیکرو چپ جو ہماری روز مرہ زندگی کا اہم ترین جزو بن چکی ہیں -“ ان کی بات کسی حد تک درست بھی ہے – اسے وہ لڑائی کہہ رہی ہیں اور ہم اسے چوری سینہ زوری کہہ رہے ہیں- چین ایک عرصے سے ہماری ایجادات اور تخلیقات سے مستفید بھی ہو رہا ہے اور اسے ہماری کمزوری بنا کر ہمیں کو زیر کرنے کی کوشش میں لگا ہؤا ہے – سیمی کنڈکٹر یا مائیکروچپس ہماری روز مرہ کی زندگی کا لازمی حصہ بنتے جا رہے ہیں – دنیا بھر کی معاشی طاقتوں کا اس پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے – چین چاہتا ہے کہ سیمی کنڈکٹر کی مینوفیکچرنگ سے لے کر اس کی سپلائی تک پر اس کی بالا دستی قائم ہو جائے – تایئوانی سیمی کنڈکٹر کی بالا دستی اسے ایک آنکھ نہیں بھاتی لیکن کیا کرے کہ اس کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے جو چین کو اس چھوٹے سے ملک پر ہاتھ ڈالنے سے روکتا ہے – گذشتہ سال دسمبر میں امریکہ کی جانب سے چین کی 36 کمپنیوں کو ’اینٹی لسٹ‘ میں شامل کیا جانا اور ان پر تجارتی پابندیاں عائد کرنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے – ہمارے خیال میں ایسا کرنے سے امریکہ کا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ایجادات اور اپنے اثاثوں کی حفاظت کرے – بلومبرگ نیوز کے مطابق اگر کسی کمپنی کو اینٹی لسٹ میں شامل کر لیا جاتا ہے تو امریکہ میں اس کے سپلائرز کو کسی بھی قسم کے تکنیکی اجزاء کی سپلائی کے لیئے لائسنس حاصل کرنا ہوتا ہے – جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر ان 36 چینی کمپنیوں کو کسی سپلائی کی ضرورت ہے تو اسے امریکی سرکار سے اجازت درکار ہو گی – ابھی اس حکم کی سیاہی سوکھی بھی نہیں تھی کہ چین نے غباروں کی سیاست شروع کر دی جس کے نتیجے میں صدر بایئڈن نے اس کی فوج سے منسلک 6 مزید اداروں پر پابندی عائد کر دی ہے جن میں ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی شامل ہے – امریکہ ان جاسوس غباروں کے اپنی فضائی حدود میں داخلے کو قومی سلامتی کے لئے خطرہ محسوس کرتا ہے جو ایک فطری رد عمل ہے – واضح رہے کہ یہ کمپنیاں چین کی فوج کے لئے طیاروں اور جاسوسی غباروں پر مشتمل ہوا بازی کے جدید پروگرامز تیار کرتی ہیں – یو ایس بیورو آف انڈسٹری اینڈ سیکیورٹی کا کہنا ہے کہ یہ چھ چینی کمپنیاں چین کی فوجی جدید کاری کی کوششوں کو خاص طور پر پیپلز لبریشن آرمی PLA کے ایر اور اسپیس پروگراموں کو سپورٹ کرتی تھیں – نیز PLA انٹیلی جنس اور جاسوسی کی سرگرمیوں کے لیئے ہائی اونچایئوں والے غباروں کو استعمال کر رہا ہے – چین یہ کہتا ہے کہ ان غباروں پر امریکہ ضرورت سے کچھ زیادہ اپنا رد عمل دکھا رہا ہے – اس کے مطابق یہ غبارے کچھ اور نہیں موسم کا پتہ دیتے ہیں – ان کی اس معصوم ادا پر قربان ہونے کا دل چاہتا ہے – تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکہ کی جانب سے گرائے جانے والے چینی جاسوس غبارے کے ملبے سے اہم سینسر برآمد کر لیئے گئے ہیں – جیسے جیسے تحقیقات آگے بڑھ رہی ہے ویسے ویسے امریکہ اور چین کے باہمی تعلقات میں فرق بھی پڑتا دکھائی دے رہا ۔