’’کووڈ‘‘ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا، جب شروع میں یہ سنا تھا کہ چین میں یہ وائرس پھیل رہا ہے تو سوچا’’ SARS‘‘کی طرح یہ صرف چائنا تک ہی رہے گا اور ہم تک صرف CNNکے ذریعے پہنچے گا، یعنی ہم اس کے متعلق خبریں سی این این پر دیکھیں گے، سنیں گے، کچھ عرصے آپس میں اس کے متعلق تشویش کا اظہار کریں گے اور پھر بھول بھال جائیں گے۔
چائنا نے اس وائرس کے شروع ہوتے ہی سخت اقدامات لیے اور فوراً پورے ملک میں کرفیو لگا دیا، کوئی گھر سے نکلتا تو پولیس والے اسے باقاعدہ ڈنڈے مارتے، گروسری اور کھانے پینے کی اشیاء اور ضرورت کے دیگر سامان کے لئے گورنمنٹ کے مقرر کردہ سٹورز سامان گھر گھر پہنچانے پر مامور کر دئیے گئے مگر وہ بھی گھر کے دروازے پر سامان رکھ دیتے تھے، اندر جانے کی اجازت نہیں تھی، کسی کو قریب آنے کی ہاتھ ملانے وغیرہ کی اجازت نہیں تھی، ایک مہینے تک کسی نے گھر کے باہر قدم نہیں نکالا، کچھ وائرس کا ڈر اور کچھ پولیس کے ڈنڈوں کا ڈر اور پھر جب باہر نکلنے کی اجازت ملی تو بہت سخت گائیڈ لائن کے ساتھ۔
لوگ ضرورت کے تحت تھوڑا تھوڑا گھر سے نکلتے، صرف کچھ جگہ جانے کی اجازت تھی اور لوگ اس پر عمل کرتے، کسی بھی بلڈنگ میں داخل ہونے سے پہلے ٹمپریچر لیا جاتا اور اگر یہ چند ڈگری بھی نارمل سے زیادہ ہوتا تو اندر جانے کی اجازت نہ ہوتی، ماسک لگانا ضروری تھا، کسی کو ان پابندیوں پر کوئی اعتراض نہ تھا۔
تائیوان، چین کا ہمسایہ ملک ہے، کورونا وائرس کی خبر ملتے ہی انہوں نے حفاظتی اقدامات کے لئے، پورے ملک میں ہر شخص کو ماسک تقسیم کر دئیے گئے، لوگوں کو معلومات دیں کہ اگر کورونا ملک میں پھیل جائے تو کیا ہو سکتا ہے اور اسے دور رکھنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہیے، تائیوان کے عوام نے ان باتوں کو سمجھا اور ان تمام ہدایات پر عمل کیا جو حکومت نے ان کو بتائی تھیں، تائیوان میں کرونا آیا لیکن کبھی ملک بند کرنے کی نوبت نہیں آئی کیونکہ اس کی شدت اس نوعیت کی نہیں تھی، پورے ملک میں صرف آٹھ لوگوں کی اموات ہوئی، لوگ مستقل ماسک لگاتے رہے اور شہروں میں اسی طرح ہل چل رہی۔
جہاں چائنا کو دیکھ کر تائیوان نے فوراً اپنے ملک میں چیزوں کو سمجھ لیا اور قابو میں رکھا وہیں امریکی حکومت نے سوچا کہ یہ تو صرف ٹی وی پر نظر آنے والے ایک خبر ہے۔ ہم تک کہاں پہنچے گا حالانکہ جبکہ یہ خبر عام تھی کہ یہ ایک نہایت تیزی سے پھیلنے والا وائرس ہے۔
وہی وا جو ہونا تھا یعنی کرونا امریکہ تک بھی پہنچ گیا لیکن جیسے ہی یہ یہاں پہنچا چائنا سے خبریں آنے لگیں کہ وہاں اس کا زور ختم ہورہا ہے، ہم نے سمجھا کہ جتنی جلدی وہاں سے یہ ختم ہونے لگا ویسے ہی امریکہ میں بھی ہو گا لیکن یہ سوچ بالکل غلط تھی۔
امریکہ کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ہر انسان کو لگتا ہے کہ اس کے ساتھ اگر کوئی بھی مسئلہ ہے تو وہ کسی اور کی غلطی ہے اور اس کو کسی بھی طرح صحیح کرنا ان کی ذمہ داری نہیں ہے اور کرونا جو یکدم ہی امریکہ میں آدھمکا اس سے نمٹنے کیلئے امریکہ کبھی بھی تیار نہیں تھا۔
سب سے پہلی بات یہ کہ امریکہ کو سخت لاک ڈائون کی ضرورت تھی، ماسک پہننے کے آرڈرز ہونے چاہیے تھے، سختی سے لوگوں کو Educate کرنے کی ضرورت تھی، کرونا وائرس اور اس سے بچائو کیلئے کوشش تائیوان نے کی اور اس کیلئے ایک مضبوط لیڈر شپ کی ضرورت تھی جو امریکہ کے پاس نہیں تھی۔امریکہ کے صدر صاحب وہ کرتے ہیں جو ان کا دل کرتا ہے، اگر ان کو کسی چیز پر غصہ آجائے یا ان کی دلچسپی ختم ہو جائے تو پھر وہ اس کے بارے میں بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے اور کرونا کے ساتھ بھی یہی ہوا۔
صدر صاحب نے پہلے روزانہ پریس کانفرسیں کیں، جب صحافیوں نے امریکہ میں تیزی سے پھیلتے وائرس کے متعلق سوالات کیے تو ناراض ہو کر انہوں نے یہ پریس کانفرنس بند کر دیں لیکن عوام کو یہ ضرور بتا گئے کہ وہ ماسک پہننے کے خلاف ہیں اورکئی ایسی باتیں کہ جس سے کرونا کم ہونے کے امکانات کم سے کم ہو سکتے ہیں انہیں بھی لفٹ نہیں دی۔
کچھ دن پہلے فلوریڈا کی پارلیمنٹ میں کچھ لوگ باقاعدہ شکایت لے کر گئے ہمیں ماسک پہننے کو کیوں نہیں کہا جارہا ہے، مختلف جگہوں پر، کئی لوگوں کو بولنے کا موقع دیا گیا جو لوگ مائیک پر بول رہے تھے ان میں سے ایک یہاں تک کہا کہ ’’ہوا خدا نے بنائی ہے اور ہم کو اس ہوا میں آزادانہ سانس لینے سے کوئی نہیں روک سکتا‘‘ ان میں سے بیشتر لوگوں نے صدر ٹرمپ کی حمایت والی ٹی شرٹس پہنی ہوئی تھیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنی الیکشن کمپین بھی شروع کر دی ہے جس میں وہ چاہتے ہیں کہ بیس پچیس ہزار لوگ آئیں انہیں سپورٹ کرنے کے لئے جبکہ CDCکی گائیڈ لائن صاف صاف یہ ہدایت دیتی ہے کہ ایک کمرے میں دس سے زیادہ لوگ جمع نہ ہوں۔
صدر ٹرمپ کی پہلی ریلی میں 19000ہزار کی جگہ صرف 6000لوگ آئے پھر بھی یہ مقدار بہت زیادہ ہے اور اس ملک کیلئے یہ مثال قائم ہوئی ہے کہ CDCکی بات کو نہ سننا درست ہے۔ جہاں چائنا میں 81000پر جا کر کرونا کیسز رک گئے تھے وہیں امریکہ میں 2.5ملین پر پہنچ گئے ہیں ابھی چند روز پہلے ہی ایک دن میں 31000کیسز رپورٹ ہوئے، کیا اس تیزی سے پھیلتے کرونا وائرس میں حفاظتی اقدامات کو نظر اندازکردینا درست ہے؟؟ ایسا ہی رہا تو کیا پتہ نہیں ہے کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا!!
وجاہت علی عباسی
Prev Post
Next Post