بیسویں صدی کے سب سے بڑے اور کامیاب انقلابی، چین کے آنجہانی رہنما اور بانی ماؤزے تنگ کا ایک بہت معروف قول ہے کہ طاقت بندوق کی نالی سے نکلتی ہے۔
ماؤزے تنگ کا ایک اور مشہور قول یہ ہے کہ جب تم کمزور ہو اور دشمن طاقتور تو ایسے وقت میں پیچھے ہٹ جانا ہی عقلمندی ہے۔
پاکستان میں جو انقلاب ان دنوں آرہا ہے اور قوم کے نوجوانوں، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں تک کو اپنے ساتھ لیکر چل رہا ہے اس کے بانی عمران خان نے عظیم انقلابی ماؤ کے ان دونوں اقوال کو غلط ثابت کردیا ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ان دونوں اقوال کو ان کے سر پہ کھڑا کردیا ہے۔
عمران نے پاکستان کی اس خاموش اکثریت کو، جس کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ خوابِ خرگوش میں سوئی ہوئی ہے بندوق یا کسی اور ہتھیار کی ایک گولی چلائے بغیر یوں بیدار اور آمادہء پیکار کردیا ہے کہ دوست دشمن سب ہی حیران ہیں اور اس بیداری سے، انقلاب کی اس کروٹ سے وہ سازشی سب سے زیادہ پریشان اور خوفزدہ ہیں جنہوں نے کبھی خواب میں بھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ جس کو کمزور اور بے سہارا سمجھ کر وہ اقتدار سے محروم کررہے تھے وہ ایسی قوت بن کر ابھرے گا کہ ان کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔
عمران نے شکست کھاکر پیچھے ہٹنا تو کبھی سیکھا ہی نہیں تھا۔ وہ تو اپنے خلاف ہونے والی سازش کی بو سونگھنے کے بعد سے مستقل اپنے دشمنوں کو، پاکستان کے عوام کو اور پوری دنیا کو خبردار کررہاتھا کہ اگر اسے اقتدار کے ایوان سے نکالا گیا تو وہ سازشیوں اور دشمنوں کیلئے کہیں زیادہ خطرناک ہوجائے گا اور واقعی ایسا ہی ہورہا ہے کہ ہر گذرتے دن کے ساتھ عمران زیادہ مضبوط، کہیں زیادہ طاقتور ہوتا جارہا ہے اور اس کے کمینے اور بزدل دشمن اس کی طاقت کے سامنے پانی ہوئے جارہے ہیں۔
سو عمران نے ماؤکے اس دوسرے قول کو بھی غلط ثابت کردیا کہ جب تم کمزور ہو اور دشمن زیادہ طاقتور تو پیچھے ہٹ جاؤ، دبک جاؤ اور اس وقت کا انتظار کرو جب وقت کا دھارا تمہارے حق میں بہنے لگے۔
عمران کے ملت فروش، بے ضمیر اور سامراج کے غلام حریفوں کا بھی یہی گمان تھا کہ وہ جب وار کرینگے اور عمران کو گرادینگے تو عمران بھی ان جیسے کمینوں اور پست ہمتوں کی طرح یا تو ملک سے فرار ہوجائے گا یا پھر بنی گالہ میں منہ چھپاکے بیٹھ جائے گا۔ ہر شخص اپنی ذات کے آئینے میں دوسرے کو پرکھتا ہے اور پاکستان کے چور، بزدل اور ملک دشمن سیاسی گماشتوں کا یہ عام وطیرہ رہا ہے کہ اقتدار سے محروم ہوتے ہی وہ لندن، دبئی یا واشنگٹن کی راہ لیتے تھے جہاں ان کا چوری کا مال رکھا رہتا ہے اور جہاں انہوں نے حرام کی کمائی سے، ملک سے لوٹی ہوئی دولت سے بڑے بڑے محلات بنائے اور خریدے ہوئے ہیں۔ یہی تو نواز چور نے کیا تھا کہ وہ جنرل مشرف سے معافی مانگ کر، اس کے ہاتھ پیر جوڑ کر سعودی عرب بھاگ گیا تھا اور اب، یہ ملک کی عدالت عالیہ کے فیصلہ کے بعد قید ہوکر عمران حکومت کو جھانسہ دیکر لندن فرار ہوگیا اس بہانے سے کہ وہاں علاج کروائے گا لیکن اب ساڑھے تین برس سے وہاں بیٹھا ہوا ہے اور پاکستان کے خلاف اپنے سامراجی اور بھارتی آقاؤں کے ساتھ مل کر سازشیں کررہا ہے۔ ڈکیت زرداری بھی جب اقتدار میں نہیں تھا تو امریکہ اور دبئی کی پناہ گاہوں میں چوہے کی طرح چھپا رہا تھا اور پھر جب بینظیر بھٹو کے خلاف اس کی سازش کامیاب ہوگئی تو وہ راتوں رات پاکستان واپس آگیا اور ملک کا صدر منتخب ہوگیا۔
لیکن عمران نواز اور زرداری کی طرح نہ بزدل ہے نہ کمزور چوہا۔ وہ شیر ہے، ٹیپو سلطان کی سنت پر عمل پیرا شیر جو آزادی اور حریت کی ایک دن کی زندگی کو بے عزتی، غلامی اور ملت فروشی کی گیدڑ جیسی صد سالہ حیات پر شیر کی ایک دن کی زندگی کو ترجیح دیتا ہے۔
سو ماؤزے تنگ جیسے کامیاب انقلابی کی نصیحت کے برعکس عمران نے اپنے بظاہر کمزور ترین لمحہ کو اپنی سب سے بڑی طاقت اور قوت کی گھڑی بنالیا۔
عمران نے برسوں کرکٹ کھیلی ہے، پاکستان کرکٹ ٹیم کے سب سے کامیاب اور مقبول کپتان کی حیثیت میں پاکستان کو کرکٹ کی دنیا میں ایک اعلیٰ مقام عطا کیا ہے اور اپنے اسی تجربہ کو اپنی تلوار بناکر عمران نے ہمیشہ اپنے ماننے والوں اور اپنی پارٹی کے اراکین کو یہی نصیحت کی ہے کہ کرکٹ کے کھیل میں فیصلہ آخری گیند کے بعد ہی ہوتا ہے۔
عمران کے بزدل، سازشی اور سامراجی طاقت کے آلہء کار دشمنوں کا خیال یہ تھا، جو بہت جلد خام خیال ثابت ہوگیا، کہ انہوں نے پالا مارلیا اور عمران کو چاروں خانے چت کردیا اور ان کا یہ زعم ان کی دانست میں غلط نہیں تھا اسلئے کہ ان کی پشت پناہی کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت تھی جس کا آزمودہ ہتھیار، آج سے نہیں بلکہ برسوں بلکہ صدیوں سے، یہ رہا ہے کہ جس ملک کی حکومت اسے پسند نہ آئے، اور پسند اس وقت نہیں آتی جب وہ حکومت سامراجی مفادات کے خلاف کام کرتی دکھائی دے، تو اس آزاد حکومت کا تختہ الٹوادو اور الٹوانے کا کام اسی ملک کے بے ضمیر ملت فروشوں کی ہوسِ زر کو پورا کرکے حاصل کرلو۔
تو امریکہ بہادر، ہمارے عہد کی سب سے بڑی اور منہ زور سامراجی قوت، نے یہی کیا کہ پاکستان میں ملت فروش خرید لئے۔ زرداری، نواز اور ملا ڈیزل جیسے بدنہاد تو اپنے کالے کرتوتوں کیلئے برسوں سے مشہور ہیں اور پاکستان کا ہر بچہ بھی یہ جانتا ہے کہ ان سگانِ زر کے سامنے جو بھی سونے چاندی کے ورق میں لپٹی ہڈی پھینکے یہ اس کے پیچھے دم ہلاتے ہوئے چل دیتے ہیں لیکن عمران کے خلاف سازش کا جال بننے میں سب سے بڑا کردار ادا کرنے والے پاکستانی ریاست کے وہ دو ستون ہیں جو بظاہر، آئینِ پاکستان کی رو سے، ریاست کے استحکام کے ضامن سمجھے جاتے ہیں۔
لیکن عمران کے خلاف سازش کرنے والوں میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ اور فوجی قیادت نے جو گھناوناکردارادا کیا ہے اس پر تو مستقبل کا مورخ ان کے خلاف جو فیصلہ کرے گا اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ انہیں کن القاب سے نوازے گا لیکن ہم، جو اپنے وقت کے شاہد ہیں ہمارے لئے یہ کہنا بہت تکلیف دہ ہے کہ
دیکھا جو تیر کھاکے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی!
اعلیٰ عدلیہ کی غیر جانبداری تو پاکستان میں ایک عرصے سے مذاق بنی رہی ہے اور پاکستان کا ہر با شعور شہری اور فرد اس حقیقت کو، با دلِ ناخواستہ ہی سہی، تسلیم کرچکا ہے کہ پاکستان میں عدلیہ، ہر سطح پر، نیچے سے لیکر اوپر تک، غیر منصف اور جانبدار ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا المیہ اس حقیقت کو، آج سے پہلے تک، ایک کڑوے گھونٹ کی طرح سے اپنے حلق سے نیچے اتارتا آیا ہے کہ ملک میں عدل اس معنی میں جس میں اسے دنیا بھر میں تصور کیا جاتا ہے معدوم ہے، غیر موجود ہے۔ اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ کہ اس مملکت میں جسے خدا داد کہا جاتا ہے اور جس کے اٹھانوے فیصد باسی اس دین کے پیرو کار ہیں جس کی بنیاد ہی عدل اور انصاف کے اصولوں پر ہے وہاں عدل ہوتا نہیں بلکہ عدل و انصاف کا کلون ہوتا ہے۔ عوام انصاف کو عمر بھر ترستے رہتے ہیں لیکن امیر اور بااثر اپنی امارت اور سماجی قد کاٹھ کی بنیاد پر انصاف کو خرید لیتے ہیں اور عدالتیں بک جاتی ہیں، انصاف کی ترازو کا پلڑا مالدار اور طاقتور کے حق میں جھک جاتا ہے۔
سو پاکستان سے محبت کرنے والے اور اس کے نام پر جان دینے کو تیار رہنے والوں کو اس پر اتنی حیرت نہیں ہوئی، اگرچہ بات انتہائی تکلیف دہ تھی، کہ عمران حکومت کو گرانے اور سازشیوں کی سازش کو کامیاب کروانے میں ہماری عدالت عالیہ نے وہ کردار ادا کیا جس پر انصاف اور عدل کی تاریخ رہتے دنیا تک اس پر لعنت بھیجے گی اور جب اس واقعہ کا تذکرہ ہوگا تو پاکستان کی سپریم کورٹ کو جائز ہدفِ ملامت بنایا جائے گا اور یہی سچ بھی ہوگا اسلئے کہ ہماری اس عدالت نے اپنے افعال سے اپنے منہ پر کالک ملی ہے۔
لیکن جو کردارہماری فوجی قیادت نے، چوروں اور خائنوں کی کھلم کھلا طرفداری کرکے اور عمران جیسے کھرے، دیانت دار اور مخلص قائدِ قوم کی کھلی دشمنی کرکے تاریخ میں رقم کیا ہے وہ پاکستانی تاریخ کا سقوطِ ڈھاکہ کے سانحہ کے بعد سیاہ ترین باب ہے۔ اور اس کی تمام تر ذمہ داری فوجی قیادت کے چیف جنرل قمر باجوہ پر عائد ہوتی ہے۔
جنرل باجوہ نے جو شرمناک اور دوغلا کردار ادا کیا ہے اس کے بعد وہ بجا طور پر حقدار ہیں کہ ان پر وہی لعنت ملامت کی جائے جو تاریخ میں میر جعفر اور میر صادق جیسے ملت فروشوں پر کی جاتی ہے۔ عمران نے اٹک کے عوامی جلسہ میں اپنی تقریر میں بالکل درست حوالہ دیا تھا کہ میر جعفر کس کا سپہ سالار تھا۔ حریت کیلئے لڑنے والے نواب سراج الدولہ کا ضمیر فروش سپہ سالار تھا میر جعفر جس نے فرنگی سامراج سے ساز باز کرکے اور دنیا کیلئے اپنا دین بیچ کر سراج الدولہ سے غداری کی، بنگال کی سرزمین سے غداری کی اور فرنگی سامراج کی فتح کا راستہ ہموار کیا۔
قمر باجوہ نے بھی من و عن یہی کیا ہے اپنے سربراہ عمران کے خلاف امریکی سامراج کی سازش کو کامیاب کرواکے ملت فروشی کا وہی کارنامہ سر انجام دیا ہے جو میر جعفر نے کیا تھا تو پھر کیوں نہ باجوہ پر بھی اسی طرح لعنت بھیجی جائے جیسے میر جعفر کے نام پر بھیجی جاتی ہے؟
عمران کی حکومت کی سازش امریکی سامراج نے تیار کی لیکن پاکستان کے معاملات میں مداخلت، جسے پاکستان میں ہر سطح پر تسلیم کیا گیا ہے سوائے مریم نواز کے جن کی غلط فہمی یہ ہے کہ وہ شاید پاکستان کی سب سے بڑی دانشور ہیں اور جو وہ جانتی ہیں اور کوئی نہیں جانتا، کی راہ ہموار کرنے والے دو کردارتھے، ایک کرپٹ اور سیاہ کار موروثی سیاست کے اسیر سیاستدانوں کا ٹولہ، جس کی قیادت زرداری، نواز اور ملا فضلو جیسے بد کردار کررہے تھے اور دوسرا کلیدی عنصر جنرل باجوہ جس نے اپنے ذاتی مفاد کیلئے قوم کی عزت اور حریت کا سودا کرلیا۔
تو گویا یہ وہ تثلیث ہے، امریکہ، پاکستانی لوٹے اور باجوہ جو عمران دشمنی میں اس حد تک اندھے ہوگئے کہ ایک سامراجی طاقت کے ہاتھ پاکستان کا سودا کرنے میں انہیں کوئی عار نہیں محسوس ہوئی۔
لیکن عمران نے اس سازش کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ اپنی زندگی کہ بظاہر سب سے تکلیف دہ ناکامی اور ہزیمت کو اپنی سب سے شاندار اور بڑی کامیابی بنالیا۔اور یہاں عمران نے ماؤزے تنگ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عام آدمی کو اپنی قوت اور طاقت بنالیا۔
ماؤ کی انقلابی مہم کی کامیابی میں ان کا ساتھ دینے والے چین کے وہ عوام تھے جنہیں سامراجی اور سامراجی گماشتے کوڑا کرکٹ سمجھتے تھے۔ عمران نے بھی اپنے عزم، اپنے حوصلے اور اپنے مشن اور مقصد پر پوری طرح اعتماد اور ایمان رکھتے ہوئے پاکستان کے ان عوام میں بیداری کی وہ لہر دوڑادی ہے جس کا تصور بھی محال تھا، نہ صرف عمران کے حریفوں کیلئے بلکہ دوستوں نے بھی شاید کبھی نہ سوچا ہوگا کہ کپتان کی للکار پر پاکستانی عوام، ہر طبقہء فکر سے تعلق رکھنے والے، سماج کے ہر صاحب ثروت اور نادار طبقے سے تعلق رکھنے والے، یوں جوق در جوق گھروں سے نکل آئینگے جیسے انہیں انتظار رہا ہو کسی منادی کا، کسی ایسے قائد کا جس کے پیچھے وہ اس پر کامل یقین رکھتے ہوئے اس منزل کی طرف گامزن ہوجائیں جہاں وہ رہنما انہیں لیجانا چاہتا ہو۔
آج پاکستان کے طول و عرض میں، اور پاکستان سے دور دنیا کے ہر اس ملک میں جہاں پاکستانی آباد ہیں، بیداری کی جو لہر نظر آرہی ہے وہ بالکل اس بیداری کے مانند ہے جو پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے آج سے اسی برس پہلے ہندوستان کے مسلمانوں میں پیدا کی تھی۔ عمران میں بہت سی وہ صلاحیتیں ہیں جنہوں نے محمد علی جناح کو قائدِ اعظم بنایا تھا۔ کردار کی اصابت، قول و فعل کی سچائی، دیانتداری اور قولِ حق کہنے کی جرائت یہ وہ اعلیٰ قدار ہیں جو قائد میں بدرجہء اتم تھیں اور عمران میں بھی پائی جاتی ہیں۔
عمران کے کردار کی انہیں خوبیوں نے آج اسے پاکستانیوں کے دلوں سے یوں جوڑ دیا ہے جیسے بدن کے ساتھ روح کا رشتہ ہوتا ہے۔کل میں نے ٹورنٹو میں اپنے علاقہ کے ایک پارک میں عمران کی حمایت میں منعقد ایک تقریب میں پاکستانیوں کا جو جوش و خروش دیکھا وہ دیدنی تھا۔ تو پھر بصیرت کیوں نہ گواہی دے کہ جو کچھ بصارت دکھا رہی ہے وہ پاکستان کے حوالے سے تاریخ کی سب سے بڑی سچائی ہے۔ پاکستان میں وہ لہر اٹھ کھڑی ہوئی ہے جو پاکستان کی موروثی سیاست کے گماشتوں اور ان کے سہولت کاروں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائیگی۔
باجوہ، بندیال، زرداری، نواز، شہباز، ملا ڈیزل، ان سب کو تاریک اس کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دے گی جس کے یہ اپنے کرتوتوں کی بنیاد پر مستحق ہیں اور عمران کو تاریخ اس حقیقی تبدیلی کا تاج پہنائے گی جو ابتک ایک خواب تھا لیکن عمران کے دشمنوں اور ان کے سرپرستوں کی سازش نے اسے حقیقت بنادیا ہے۔ اب اگر باجوہ اور دوسرے سازشیوں کو یہ غلط فہمی ابتک ہے کہ وہ دھاندلی، دھونس اور دیگر شیطانی حربوں سے عوامی بیداری کی اس یلغار کا منہ پھیر دینگے تو یہ ان کی خوش فہمی ہے۔ عوام کے سرچشمہ سے نکلنے والی طاقت بندوق کی نالی یا توپ کے دہانے سے نکلنے والی طاقت سے ہزار گنا زیادہ موثر اور دیرپا ہوتی ہے۔
کپتان نے بالکل درست کہا تھا کہ اقتدار سے محرومی اسے اس کے دشمنوں کے گلے کی ہڈی بنادے گی اور آج یہی ہورہا ہے کہ سامراج کی غلام امپورٹڈ حکومت اور اس کے بظاہر طاقتور سہولت کار سب ہراساں ہیں، سب پریشان ہیں کہ عمران کی قیادت نے جس دھارے کا بند توڑدیا ہے اس کی یلغار کو کیسے روکیں؟
Prev Post