طیبہ ضیا
قطری خط کی بھونڈی سیاست کے بعد اب پیش خدمت ہے ‘‘ خطری خط ‘‘۔ وزیراعظم نے 1 گھنٹہ 4 منٹ کی تقریر کے بعد کہا ‘‘ میرے نوجوانو! اب میں ایک سیریس (سنجیدہ ) بات کرنے جارہا ہوں۔۔ بزدار سے استعفی لے لیا گیا۔ بزدار بڑ بڑاتے ہوئے ‘‘یکلخت وچھوڑا اوکھا ہے،چن میڈی من کجھ قسطاں کر۔جب اک دم عیاشی چھن جائے تو حالت کچھ ایسی ہی ہوتی ہے۔اساں سرائیکی ہسے۔اساں پنجابیاں نال کئی واسطہ کوئے نیں۔۔۔ سیاستدان بری طرح ایکسپوز ہو چکے ہیں ، کرسی کے جنگ میں سب ننگے ہو چکے ہیں۔خان کے ‘‘ڈاکو’’بڑی ہوشیاری سے خان سے پنجاب چھین لے گئے۔ق بڑوں کی پرانی کارآمد سٹپنی ہے۔ پورا ملک اور ادارے بزدار کو ہٹانے کے لئے چلاتے رہے خان ڈٹا رہاجب بات کرسی چھن جانے پر آئی تو بزدار فارغ کرنے میں لمحہ نہیں لگایا خان جھکتا نہیں سیدھا سجدہ ریز ہوجاتاہے۔ مونس الٰہی کے کیسز کا خاتمہ پرویز الٰہی اور عمران خان کے درمیان نئی انڈرسٹینڈنگ کی بنیاد بنا.خان کا جلسہ حسب توقع شاندار رہا۔ مجمع اکٹھا کرنے میں ماہر ہیں۔ ڈالر کی روز بروز قاتل اڑان بھی امریکی سازش ہے۔ رب دشمناں دی قبر وچ کیڑے پاوے ، لگے ہاتھوں جلسے میں بددعا ہی کرادی ہوتی۔ بلا شبہ آپ مجمع اکٹھا کر سکتے ہیں مگر ‘‘خطری خط ‘‘کا انکشاف سنجیدہ دفاعی اجلاس میں کرنے کی بجائے ڈیڑھ گھنٹہ پرانی تقریر کے آخر میں بطور تبرک پیش کرنے کا مشورہ کس مسخرے نے دیا تھا ؟ کوئی ایک مغربی طاقت بتا دیں پاکستان جس کامقروض نہیں ؟بھکاری پہلے ہی معاشی موت مر رہا ہو آقا اسے دھمکی دیں گے وہ بھی written ؟بھٹو کی ڈرامہ بازی کا دور جا چکا۔ حکومت نے چودھری پرویز الہی کو وزارت اعلی بنا ہی دیا۔کل کے ڈاکو آج کے اتحادی ہیں تو آج کے چور کل اتحادی ہوں گے،ہوس اقتدار نے خان کو سیاست سکھا دی۔اور جس سازشی خط کا ذکر کیا گیا جسے ہم ‘‘ خطری خط’’ کہتے ہیں اس کے بارے میں شیخ رشید نے کیا چالاکی سے دامن بچا لیا۔ موصوف فرماتے ہیں مجھے خط کا کچھ نہیں پتہ۔۔یہ بندہ ملک کا وزیر داخلہ ہے۔ایٹمی دھماکوں کے موقع پر بھی یہ دوغلا ملک سے فرار ہو گیا تھا۔ ثابت کردیں دھمکی آمیز خط مغربی ملک کے کسی اعلی عہدیدار نے بھیجا ہے تو حقیقت میں صادق امین مان لیں گے ، عوام تیری سادگی کو سلام۔ ‘‘خطری خط’’ کی کاپی سینئر صحافیوں کے پاس بھی ہے،پاکستان کواخلاقی دیوالیہ سے خطرہ ہے،ریاست مدینہ کا داعی مذہبی کارڈ نہ کھیلے ہمت ہے تونفاذ قرآن کا اعلان کرے۔ باہر والے ‘‘ایڈے کا کے ‘‘ دھمکی لکھ کر دینے کا بلنڈر کریں ؟قطری خط کے بعد اگلی سیاست ‘‘ خطری خط’’ پرکرو۔ایٹمی طاقت اندرونی بیرونی سازشوں سے نبٹنا جانتی ہے، انصافیوں کوپوری دنیا سے بلوایا گیا لوگ اپنا سارا کام کاروبار چھوڑ کر آئے لیکن باتیں وہی جو پچھلے کئی سالوں سے سن رہے ہیں ،سرپرائز ترپ کا پتہ سب ٹھس ؟ پرانی تقریر دہرانے پر دل کی گہرائیوں سے مبارک ہو،اعلان تو بڑاکرنا تھا پر گھر کو آگ لگ گیء گھر کی کرپشن سے۔ادھر شاہ محمود قریشی کا فرمان ہے میرے سینے میں بہت سے راز ہیں، اگر بتا دوں تو ‘‘وہ’’ مْنہ دکھانے کے قابل نہ رہیں ‘‘۔ منہ کھول کیوں نہیں دیتے فائلوں سے ڈرتے ہیں ؟ میں آپ کو ملک میں پیسہ لا کر دکھاؤں گا۔نوجوانوں کیلئے روزگار پیدا کروں گا۔عمران خان۔یوں معلوم ہو رہا تھا پرانی ریکارڈنگ کا بٹن دب گیا ہو۔ ریاست مدینہ کے جلسے میں مغرب کی اذان میں اذان فجر کی ٹیپ لگا کر دین کا مذاق بنایا گیا ؟ ریاستِ مدینہ” اور "امر بالمعروف” کے نام پر منعقد جلسے میں تلاوت قرآن حمد و ثنا کی بجاے نیوزک بھنگڑے حتی کہ عورت مارچ والا ہم جنس ٹولہ بھی ؟ حکومت کرنا مشکل اوراپوزیشن کرنا آسان ہے،خان بھی حکومت کے خلاف جلسہ کر کے سواد لے رہاتھا۔ نیوٹرل کو پاور شو سے فرق نہیں پڑتا جانور جب خطرناک ہونے لگے بوٹوں تلے روند دیا جاتا ہے۔ نوے دنوں میں تبدیلی کادعویدار چار سال بعد اسی چوک پر وہی پرانا راگ الاپ رہا ہے،ہائے پاکستان تیرا نصیب بدل سکا نہ تیری قوم۔ پہلے سونامی اب طوفان ،تبدیلی بیچاری توبن کھلے ہی مرجھا گئی،جادوجو سر چڑھ بولے۔ بڑوں نےسمجھایا تھا لہجہ مہذب رکھو،تھوک کر چاٹنا پڑتا ہے ،پھر چاٹنا پڑگیا نا ؟لوٹوں ضمیر فروشوں سے ترلا کہ آجائو تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا؟قابل رحم حالت۔ کوٹھا بدنام ہوا توکوٹھی میں کاروبار ہونے لگا،پہلے وکٹیں گرتی تھیں،آج ضمیر فروشی ہو گئی ؟ٹھکانہ بدلتا ہے کاروبار نہیں۔ تم ضمیر خریدو تو ‘‘ تبدیلی ‘‘ کوئی اور خریدے تو‘‘ ضمیر فروشی‘‘ ؟ بڑوں نے ہاتھ اٹھا لیا ،اب اس حمام میں سب ‘‘ نیو ٹرل‘‘ ہیں۔ زرداری بیماری مولانا ڈیزل شہباز شو باز نواز بھگوڑا بلاول کانپیں ٹانگ ؟ یہ ہے آکسفورڈ یافتہ مہذب و شائستہ وزیر آعظم پاکستان کی تعلیم یافتہ زبان۔ پہلوں کی طرح خان کا تکبر اور خود پسندی بھی اسے لے ڈوبی۔صادق و امین کا لفظ آئین سے خارج کیاجائے، یہ اعزاز پر وقار فقط ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو نوازا گیامنافق توہین کرتے ہیں۔خطری خط اگر اتنا خطرناک تھا تو جلسے کےآخیر میں ذکر کر کے غیر سنجیدہ ایشو بنا دیا گیا۔ بھکاریوں کو دھمکی اگر لکھ کر بھیجی گئی تھی تو اسے انتہائی سنجیدہ اور حساس ایشو لیا جاتا۔ عسکری اور دفاعی اجلاس بلایا جاتا اور اس میں قوم سے خطاب کیا جاتا مگر یہاں تو اس قسم کے خط کا نہ عسکری قیادت نے حوالہ دیا نہ حکومت نے سنجیدہ اجلاس بلایا۔ بس خان آپ جلسہ جلسہ کھیلو یہی آپ کا نشہ ہے اور یہی آپ کی تحریک۔ نوے دن کے وعدے اپنی موت آپ دفن ہو چکے۔۔۔۔۔
Next Post