بعد از مرگ واویلا کا کوئی فائدہ نہیں!!

231

نیاز فتح پوری لکھتے ہیں ’’دنیا میں مولویوں اور سانپوں کی بے شمار قسمیں ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ بعض سانپ زہریلے نہیں ہوتے‘‘۔ باقی آپ سمجھ لیں۔ مثال کے طور پر مولوی فضلو جنہیں فروغ الفساد کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ پہلے خان کی شادی (جمائما سے) ناجائز قرار دیتے تھے اب حکومت کو ناجائز قرار دے رہے ہیں ہمیں تو شبہ ہے کہ فضلو بھی اپنے باپ کی جائز اوالاد ہیں یا نہیں؟ کیونکہ موصوف باپ کی مخبری بھی کرتے تھے (علامہ اقبال کا چشم دید واقع ہے) یہ تمام چور ڈاکو جو اپنے لوٹ کے مال کو بچانے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت گرا کر اپنی پسند کا کوئی ڈاکو حکومت میں لائیں جو خود بھی کھائے اور انہیں بھی کھلائے۔
پاکستان کی سیاست میں جو غلاظت اُبل رہی ہے وہ ایسے لوگوں ہی نے پیدا کی ہے۔ انہیں ملکی مفاد سے کوئی واسطہ نہیں صرف اپنی بہتری مدنظر ہے۔ نت نئے لوٹ مار کے طریقے ایجاد کئے جاتے ہیں۔ اسمبلی میں گالم گلوچ، کردار کشی، دیوار کے پار دیکھنے سے قاصر تو دیوار پر چڑھ کر دوسروں کے گھروں میں جھانکنا، تہمتیں لگانا ،اسمبلی کا وقت اور عوام کا پیسہ ضائع کرنا۔ عوام کے مسائل پر کوئی بات نہیں ہوتی نہ کوئی حل تلاش کیا جاتا ہے ہر ایک اپنی کارکردگی پر فخر کرتا پھرتا ہے۔ اپنے حلقے میں کام کروانے کے بارے لن ترانیاں تو اب میڈیاکچھ بھی نہیں چھپاتا۔ شیخ رشید کی لال حویلی کے آگے پیچھے کی گلیاں تعفن پھیلار ہی ہیں جب شیخ صاحب سے شکوہ کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہو جائے گا اور کچھ نہیں ہوتا حالانکہ شیخ صاحب پنڈی والوں کے بڑے زبانی ہمدرد ہیں۔ یہی حال فیاض الحسن چوہان کے حلقے کا جبکہ موصوف کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے بڑے ترقیاتی کام کروائے ہیں۔ ویڈیو نے تمام راز کھول دئیے ہیں ایک خاتون گندگی سے بھری ابلتی نالیوں کے بارے میں بتارہی ہیں کہ جب بارش ہوتی ہے تو یہ گندہ پانی ان کے گھروں میں داخل ہو جاتا ہے۔ پینے کے لئے صاف پانی میسر نہیں۔
سیاست میں کردار کشی بھی بڑی شدومد سے کی جاتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی وزیراعظم کو اتنے القابوں سے نہیں نوازا گیا جتنا کے عمران خان کے کھاتے میں ڈالے گا۔ سلیکٹڈ، کٹھ پتلی، نالائق، نااہل بقول مریم اورنگ زیب بھی (ماسی مصیبتاں) مالشیے کی بیٹی ہیں خان کی ازدواجی زندگی میں دخل اندازی کرتی ہے۔ریحام خان جنہیں خان نے منہ در منہ کچھ کہنا بھی مناسب نہ جانا ٹیلی فون پر طلاق دے دی اپنے فون پر جو بیگم صاحبہ چرا کر لے گئی تھیں۔ اب انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں اپنی اور خان کی نجی زندگی کے بارے میں بے انتہا لغویات بیان کی ہیں۔ ایسی باتیں جو کوئی مرد بھی اپنی خلوت کے بارے میں نہیں لکھ سکتا وہ لکھی گئی ہیں۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ شوباز نے اچھی خاصی رقم موصوفہ کو دی ہے۔ بہرحال خان کی خاموشی اس بے حیا عورت کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ شیخ رشید کہتے ہیں ’’بڑھاپے کی بینک کی نوکری اور طوائف سے شادی گھاٹے کا سودا ہے‘‘ خان کو تو کیا بدنام کرتیں اپنے منہ پر کالک پوت لی ہے۔ کلنک کا ٹیکہ ماتھے پر سجا لیا ہے۔
شوباز کا خیال ہے کہ وہ ایک بڑا نقصان حکومت کو پہنچائیں گے۔ ابھی تو گجرات کے چودھریوں کے گھر سے بے آبرو ہو کر نکلے اور اب زرداری کے گٹے چھو رہے ہیں۔ PDMکا قافلہ فضلو کی قیادت میں تیار کیا جارہا ہے لیکن بلاول بھٹو گھوٹکی اپنا قافلہ لے کر روانہ ہو چکے ہیں ۔پرچی چیئرمین جس میں مینوفیکچرنگ فالٹ ہے فضلو کے اصرار پر نکل پڑا ہے یہ اتحاد بھی اللہ نے چاہا تو جلد منتشر ہو گا۔ زرداری دور میں ان کے نمائندے نے امریکہ میں ایسے لوگوں کو ویزے دئیے جنہوں نے پاکستان کو بے انتہا نقصان پہنچایا۔
کیا اس ملک کے بائیس 22کروڑ عوام بھیڑ بکریاں ہیں کہ ان پر ہمیشہ من چاہے حکمران مسلط کئے جاتے رہیں۔ نواز شریف قمر جاوید باجوہ پر آرٹیکل 6کے تحت غداری کا مقدمہ دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ انہیں وزیراعظم نہیں بنایا جارہا۔ ان کی یادداشت پر ماتم کیجئے جنہیں یہ بھی یاد نہیں کہ پانامہ کیس میں تاحیات نااہل قرار دئیے جا چکے ہیں۔ کرپشن کے کیسز ثابت ہو چکے ہیں۔ منی ٹریل کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ بے غیرتی کی انتہا ہے کس منہ سے وہ اپنے آپ کو عوام پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اشتہاری بھگوڑا اِسے تو چاہیے تھا مع اپنے ٹبر کے منہ چھپا کر بیٹھ جاتا۔ ایک مسخرے نے اطلاع دی ہے کہ موصوف نے اطلاع دی ہے ’’میرے شرم سے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کی خبر غلط ہے‘‘ نواز شریف۔ جی ہاں مریں ان کے دشمن ڈھیٹ بے غیرت شخص کو تو اللہ ہی اٹھائے گا۔
جب سے نو سرباز کی گرفتاری کی خبر عام ہوئی ہے ان پر برابر انجانی بیماریوں کے حملے ہورہے ہیں۔ زرداری اور فضلو کے گٹھ جوڑ میں فون کے ذریعے شریک ہوئے تاکہ یہ تاثر دے سکیں کہ بیمار ہیں عدالت میں حاضر نہیں ہو سکتے اس لئے فرد جرم بھی عائد نہیں کی جا سکتی۔ کبھی وکیل لمبی تان کر سو جاتے ہیں سو معاملہ کھٹائی میں ہی پڑا رہتا ہے۔ 16ارب کی منی ٹریل کاحساب کون دے گا۔ یہ لوگ وقت گزاری کررہے ہیں۔ اب یہی ایک حل ہے کہ عوام جو بکریوں کی طرح منمنا رہے ہیں کھل کر سامنے آئیں۔ نکل پڑیں سر پر کفن باندھ کر اپنی تقدیروں کا فیصلہ ان چوروں ڈاکوئوں پر نہ چھوڑیں۔ جمہوریت کو قائم کریں۔ ایسے مستحکم کریں اور یہ جو موروثی حکمران کے خواب دیکھ رہے ہیں ان کے خواب کو چکنا چور کر دیں ورنہ پھر ہاتھ نہ ملئے گا۔ جب چڑیاں چگ جائیں کھیت۔ بعد از مرگ واویلا کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ اپنی نسلوں کو غلام ابن غلام مت بنائیے کہ زرداری کے بعد اس کا بیٹا اگر وہ خواجہ سر نہ چل سکا تو آصفہ بھٹو یا پھر بختاور کا سپوت یا مریم کا بیٹا ۔ مریم کو اس وجہ سے گرفتار نہیں کیا جارہا کہ عورت کی حرمت کی پاسداری ہے تو پھر یہ جیلیں عورتوں سے کیوں بھری ہوئی ہیں۔ عورتوں کی حرمت کی خاطر انہیں ختم کرنا چاہیے۔ عورت کو پھولن دیوی کی طرح چوری ڈکیتی غبن کی کھلی چھوٹ ہونی چاہیے۔ ملک کا سب سے بڑا ڈاکو کہہ رہا ہے کہ اگر اُسے (منہ میں خاک) وزیراعظم نہ بنایا گیا تو وہ کارگل کے تمام راز کھول دے گا۔ ! وہ بھگوڑا اشتہاری بڑی دھمکیاں دے رہا ہے۔ عوام کیوں خاموش ہے؟