اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں !!

380

آجکل میاں نواز شریف اور ان کی دخترِ نیک اختر، مریم نواز کی ہر بازی مات ہورہی ہے۔ جو پانسہ پھینکتے ہیں وہ اُلٹ ہوجاتا ہے اور اس کے باوجود کہ پاکستان کے لفافہ صحافیوں اور بزعمِ خود تبصرہ نگاروں کی ایک فوجِ ظفر موج، جو میاں صاحب کے دسترخوان کے ٹکڑے چن کر کھانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، ان کی پُرزور حمایت اور تائید کو ہوا دینا اپنا دینی فریضہ سمجھتا ہے، میاں صاحب اور ان کی پاکستان میں جانشین صاحبزادی کا ہر مہرہ پٹ رہا ہے۔
مریم نواز نے ایک عرصہء دراز سے فوج کو مطعون کرنے اور پاکستان کے اس دفاعی ادارہ کو بدنام کرنے کا وطیرہ اپنایا ہوا ہے۔ یہ ان کی کم ظرفی اور ناقص تربیت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ اپنے بھارتی حاشیہ برداروں کے پاکستان دشمن ایجنڈا کو آنکھیں بند کرکے ہوا دے رہی ہیں لیکن حالیہ دنوں میں ان کی توپوں کا رخ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کی سمت بھی ہوگیا ہے۔ وہ اور ان کا برائے نام شریف کنبہ اعلیٰ عدلیہ سے خفا یوں ہے کہ اس کا ہر فیصلہ ان کی منشاء اور رضا کے مطابق نہیں ہوتا۔ یہ اس کے باوجود ہے کہ لاہور ہائی کورٹ اپنی شریف نوازی میں اس حد تک بدنام اور رسوا ہوچکا ہے کہ ایک عام پاکستانی بھی اب اسے لاہور ہائی کورٹ کے بجائے لوہار ہائی کورٹ کہتا ہے کیونکہ اس کے فیصلے، شریف خاندان کے ضمن میں، اس قدر شرمناک ہوتے ہیں، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ شرم و حیا سے عاری ہوتے ہیں جیسے لوہار کا ہتھوڑا انجام سے بیخبر کسی کیل کے سر پہ پڑتا ہے۔
در اصل شریف خاندان کی روایت یہ رہی ہے کہ وہ یا تو ججوں کو خرید لیتے تھے یا انہیں ڈرانے اور دھمکانے کیلئے وہ حربے استعمال کرتے تھے جو ٹھگوں کے ہوا کرتے تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں سپریم کورٹ پر حملہ کروانے کی ایک ہی مثال ہے جو میاں صاحب نے اپنے کرائے کے غنڈوں سے کروایا تھا کیونکہ اس وقت کے عدالتِ عالیہ کے سربراہ، جسٹس سجاد علی شاہ، ان کا فرمان ماننے کیلئے آمادہ نہیں تھے۔ میاں صاحب کو اس وقت تک یہ بری عادت بلکہ لت لگ چکی تھی کہ وہ جسٹس قیوم جیسے رسوائے عدل اور بے ضمیر منصف کو خرید کر اس سے اپنی پسند کے فیصلے کروالیا کرتے تھے اسلئے جسٹس سجاد علی شاہ کی ضمیر نوازی ان کی طبعِ نازک پہ بہت گراں گذری اور انہوں نے اپنے غنڈوں کو لشکار دیا کہ وہ اس باضمیر منصف کو سبق سکھائیں کہ لوہار کے بیٹے کی بات نہ ماننے کا انجام کیا ہوتا ہے۔
مریم نواز اپنے باپ کی بیٹی ہیں سو ان کے خمیر میں بھی وہ سب بدعتیں ہیں جو انہوں نے بے ضمیر باپ سے ورثے میں پائی ہیں۔ موجودہ عدالتِ عالیہ ان کو ایک آنکھ یوں نہیں بھاتی کہ اس میں ایک بھی جسٹس قیوم نہیں ہے جس کو شہزادی ڈکٹیشن دے سکیں۔ سو شہزادی نے اپنا ایک اور بندوبست کیا ہے اور وہ یہ کہ انہوں نے باپ کی حرام کی کمائی کے بل بوتے پر جعلی ویڈیو بنانے کی ایک فیکٹری بنائی ہے جس میں ان کے ٹکڑوں پہ پلنے والے ٹیکنالوجی سے آشنا کلاکار ہر طرح کی کلاکاری کرکے پاکستانی عدلیہ اور بیوروکریسی کے شریف اور دیانت دار اراکین کی جعلی ویڈیوز تیار کرتے ہیں اور ان ویڈیوز کو سرِ عام کرنے سے پہلے شہزادی مریم بڑے طمطراق سے ٹیلیوژن کے سامنے آتی ہیں اور اعلان کرتی ہیں کہ وہ بہت سے نیک ناموں کو بے پردہ کرنے والی ہیں تاکہ قوم پردہ اٹھنے کا انتظار کرے اور بے چینی سے کرے۔
اسی طرح کی ایک جعلی ویڈیو انہوں نے گذشتہ ہفتے جاری کی جس میں ان کا ہدف بننے والے تھے عدالتِ عالیہ کے سابق سربراہ، جسٹس ثاقب نثار کیونکہ ثاقب نثار بھی ایسے باضمیر منصفوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اس برائے نام شریف خاندان کے لاتعداد جرائم پر پردہ ڈالے رکھنے سے انکار کرنے کی جسارت کی تھی اور ان رسوائے زمانہ شریفوں کو بے نقاب کیا تھا۔ لیکن اس بار شہزادی اپنی تمام تر تیاریوں اور جعلسازیوں کے باوجود پھنس گئیں کیونکہ اول تو انہوں نے جسٹس ثاقب نثار پر جس مقدمہ کے ضمن میں ان کے پدرِ بزرگوار اور خود انہیں، یعنی شہزادی کو، معاف نہ کرنے کا بیہودہ الزام عائد کیا ہے اس میں ثاقب نثار جج تھے ہی نہیں۔ دوسرے جو بات مریم بی بی کے حلق میں ہڈی کی طرح پھنس گئی، جو نہ نگلتے بن رہی ہے نہ اگلتے، وہ یہ کہ انہوں نے اپنے ایک اور بے ضمیر اور بکاؤ جج، رانا شمیم کو اپنا شریکِ جرم کرلیا۔ اب جو پاکستانی رانا شمیم کی تاریخ جانتے ہیں انہیں بخوبی علم ہے کہ یہ ذاتِ شریف بھی اسی رسوا ء قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جس کی سربراہی جسٹس قیوم کر رہے ہیں۔ یہ رانا شمیم نواز کا کاسہ لیس تھا جسے اس چور نے گلگت بلتستان کی عدالت کا سربراہ بنادیا تھا جہاں اس نے خوب دنیا کمائی اور اپنی عاقبت خراب کی۔ اس عدالت سے ریٹائر ہونے کے بعد سے نواز کا یہ زرخرید خاموش تھا لیکن اب اچانک حرکت میں یوں آگیا کہ اس کے آقا کو اس کی خدمات کی ضرورت تھی۔ سو نواز کا یہ کارندہ برطانیہ گیا، اپنے آقا کے حکم پر، اور وہاں اس نے ایک بیانِ حلفی تحریر کیا کہ اس نے جسٹس ثاقب نثار کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا، آج سے چار برس پہلے، کہ نواز اور مریم کو عام انتخابات سے پہلے کسی صورت رہائی نہیں ملنی چاہئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بے پیندے کے لوٹے نے اس بیانِ حلفی کی تصدیق کروائی اس بکاؤ نوٹری پبلک سے جو لندن میں برسوں سے شریف خاندان کی الٹی سیدھی اور زیادہ تر جعلی دستاویزات کی تصدیق کرتا آیا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ یہ نوٹری پبلک بھی جسٹس قیوم جیسے بے ضمیروں کے کنبے کا ہی ایک فرد ہے۔ بہرحال مریم بی بی نے ایک طرف تو جسٹس ثاقب نثار کی جعلی ویڈیو کا اجرا کیا اور اپنے دعوی کو تقویت دینے کیلئے اپنے غلام رانا شمیم کا بیانِ حلفی بھی جاری کردیا تاکہ وہ سادہ لوح جن پر شریف خاندان کی گراوٹ اور رذیلی کا احوال ابتک نہیں کھلا ہے یہ باور کرلیں کہ شریف خاندان تو واقعی بہت مظلوم ہے اور فوج کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے جور و ستم کا نشانہ بھی بن رہا ہے۔ لیکن ان کا یہ داؤ یوں بے اثر ہوگیا کہ ایک طرف تو جسٹس ثاقب نثار نے اس کی بھرپور مذمت کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا۔ دوسرے پاکستان کے وکلا نے یک زبان ہوکے اہالیانِ وطن کو یہ باور کروادیا کہ رانا شمیم جیسے لوٹے کا یہ بیانِ حلفی کوئی قانونی وزن نہیں رکھتا اور دنیا کی کوئی عدالت اسے در خورِ اعتنا نہیں گردانے گی۔
شہزادی مریم ابھی اپنے ناوک کے بے اثر رہنے کے صدمے سے جانبر بھی نہیں ہوئی تھیں کہ اچانک ان پر یہ حقیقت بھرپور انداز سے آشکارا ہوئی کہ بہت سے تیر ایسے ہوتے ہیں جو لوٹ کے بھی آتے ہیں اور تیر انداز کے سینے میں چبھ کر اسے لہولہان کردیتے ہیں۔ ہوا یہ کہ ان کا زخم ہرا ہی تھا کہ ان کی سازشی اور کینہ پرور فطرت کا ایک انکشاف یوں ہوا کہ اپنے والدِ بزرگوار کے دورِ حکومت میں وہ اپنی پسند اور ناپسند کے مطابق کچھ پریس اور ٹیلی وژن کے اداروں کو نواز رہی تھیں اور کچھ کو یہ سمجھ کے اپنے انتقام کا نشانہ بنارہی تھیں جیسے وہ سرکاری اشتہارات سے محروم ہوکر یتیم اور بے آسرا ہوجائینگے اور یا تو ابلاغ کی دنیا سے ختم ہوجائینگے یا بھکاریوں کی طرح ان سے مراعات پانے کی کوشش میں ان کے قدموں پر آن گرینگے۔ ان کی یہ مذموم حرکت وزارتِ اطلاعات کی سرپرستی میں دئے جانے والے اشتہارات کے ضمن میں تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مریم نواز کی اس وقت بھی کوئی سرکاری حیثیت نہیں تھی۔ وہ نہ وزیر تھیں نہ مشیر تھیں لیکن ان کا حکم چل رہا تھا اسلئے کہ ان کے پدرِ بزرگوار مطلق العنان وزیرِ اعظم تھے اور شہزادی کے احکامات کا سکہ زور شور سے چل رہا تھا۔ سو انہوں نے اپنی پسند کے جنگ گروپ کو، جس کے بے ضمیر سربراہ، میر شکیل الرحمان نے سرِ عام یہ کہا کہ انہیں صحافت سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اسلئے کہ اخبار چلانا ان کا کاروبار ہے اور وہ اپنے کاروبار کو ڈوبنے نہیں دینگے، خوب خوب نوازا اسلئے کہ جنگ گروپ نواز اور شریفوں کا نقیب بن گیا تھا اور آج بھی ہے لیکن اے آر وائی گروپ پر مریم کے عتاب کا نزلہ گرا کہ وہ نواز کے خلاف لب کشائی کی جسارت کرتا تھا۔
بے غیرتی کی انتہا تو اس وقت ہوئی جب مریم نے اپنے کاروبارِ حکومت میں دخل اندازی کرنے کا اقرار کیا یہ کہہ کر کہ الم نشرح ہونے والی ویڈیو میں جو آواز ہے وہ ان ہی کی ہے۔ گویا انہیں اپنے کارنامے پر کوئی شرمندگی نہیں ہے بلکہ وہ فخر کے ساتھ یہ جتانا چاہتی ہیں کہ ان کے باپ کے دورِ شاہانہ میں ان کی حیثیت وہی تھی جو کسی شہزادی کی ہوتی ہے۔ شریف خاندان، جو دنیا جانتی ہے کہ پیشے سے لوہار ہے اس کے مرد و عورت اس خبط میں مبتلا ہیں جیسے وہ اس صدی کے مغل فرمانروا ہوں۔ انہیں مغلوں کی نقل کرنے کا بڑا جنون ہے اسی لئے وہ ایسے تعمیرات کا خبط بھی رکھتے ہیں جو ان کے نام کو مغلوں کی طرح زندہ رکھے، اب یہ الگ بات ہے کہ مغل ظرف والے تھے اور ان چھٹ بھییے شریفوں کی طرح وہ بڑے بڑے تعمیراتی منصوبے اسلئے بناتے تھے کہ ان میں کمیشن بہت ملتا ہے اور اس رقم سے یہ چھٹ بھییے لندن، دبئی اور نہ جانے اور کہاں کہاں وہ جائیدادیں بناتے اور خریدتے ہیں جن کا خواب بھی ان کے لوہار بزرگوں نے نہیں دیکھا ہوگا۔
بہر حال مریم کے چلائے ہوئے سب تیر ان دنوں لوٹ کر ان ہی سمت آرہے ہیں۔ لیکن بے ضمیروں میں یہ بڑی عام صفت ہوتی ہے کہ ان کی کھال بہت موٹی ہوتی ہے اور لوٹ کر آنے والے تیر ان کی موٹی کھال کا کچھ نہیں بگاڑ پاتے۔ وہ ایک پرانی کہاوت ہے جو پاکستان کے اس رسوائے زمانہ شریف خاندان کے زن و مرد کے کردار کہ بہت عمدہ عکاسی کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ دوچار جوتوں سے کمینے کا کچھ نہیں بگڑتا اور سو پچاس جوتے کون مارتا ہے۔ کس کے پاس اتنا وقت ہے جو ان نام کے شریفوں پر برباد کرے۔ ویسے بھی جو اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھتے ہیں انہیں بخوبی علم ہے شریف نام رکھ لینے سے کوئی شریف نہیں ہوجاتا اور وہ شرافت جو کردار کی مثالی تشکیل و تعمیر کرتی ہے ان شریفوں سے کوسوں دور ہے۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔