پاکستان میں اس وقت عدالتی نظام ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ ہر طرح کے الزامات عدلیہ اور اس کے ججوں پر لگ رہے ہیں۔ خود جج حضرات بھی اس بحران کا حصہ بن گئے ہیں یااپنے اپنے مفادات کی خاطر یا کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ ملوث ہونے کی وجہ سے اس جنگ کا حصہ بن گئے ہیں۔ ن لیگ کا شروع سے یہ طریقہ واردات رہا ہے کہ وہ فوج اور عدلیہ سے ہمیشہ لڑ کر رہتے ہیں۔ نواز شریف دیکھنے میں تو بہت خاموش اور شریف سیاستدان لگتا ہے لیکن وہ بہت کرمنل اور خودسر ذہن کا مالک ہے اگر آپ اس کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو وہ ہمیشہ آرمی چیف سے لڑا اور ان کو اپنا طالع بنانے کی کوشش کی۔ کرامت سے لے کر مشرف تک وہ سب کے خلاف رہا۔عدلیہ کو اگر ملازم بنانے کی کوشش کی تو اس کی مثال جسٹس قیوم کی ٹیپ ریکارڈنگ ہے۔ پھر سپریم کورٹ پر حملہ ہوا۔ کوئٹہ میں ججز کو خریدا گیا۔ نوٹوں سے بھرے بریف کیس پہنچائے گئے۔ نواز شریف نے سیاست میں ہر جگہ چھانگا مانگا اور نوٹوں کی سیاست شامل کی پھر اگر ججوں نے انصاف سے فیصلے کرنے شروع کئے اور اس کو قانون کے نیچے لائے تو اس کی بدمعاشیاں کھل کر سامنے آنے لگیں ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی گردان سامنے آنے لگی ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘ کے نعرے لگنے لگے درحقیقت اس کو ’’ووٹ‘‘ کو خریدو کے نعرے لگوانے چاہئیں۔ ن لیگ کی تاریخ بتاتی ہے اور اس ملک کے عوام کی بدقسمتی ہے کہ لوٹ مار اور کرپشن ن لیگ کا طریقہ سیاست رہا ہے۔ ساتھ ساتھ جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ جیسی صوبہ پرستی اور منافقت کی شروعات نواز شریف نے کی۔ ہر طرف ملک میں بدامنی اور کرپشن ن لیگ کے دور میں بڑھی۔ اگر اب مریم نواز کے طریقۂ واردات اور سیاست کو دیکھیں تو وہ اپنے باپ سے بھی ایک ہاتھ آگے ہے اس نے ویڈیو بلیک میلنگ اور گالیوں سے فوج اور عدلیہ پر وار کیا۔ نواز شریف اور مریم نے فوج کو پہلے سے نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید اس کا سب سے بڑا نشانہ بنے۔ اس کے بعد جنرل باجوہ کا نمبر آیا۔ وہ گالیاں کھاتے رہے اور اب بھی ن لیگ کے ٹارگٹ پر ہیں عدلیہ پر حالیہ دنوں میں پہلاوار جج ارشد ملک کی ویڈیو اور بیان سے ہوا آخر کار بیچارہ ذہنی دبائو میں آکر اس دنیا سے ہی چلا گیا پھر بھی وہ جاتے جاتے اپنا بیان حلفی دیکر ہی گیاجس میں وہ ساری سچائی لکھ گیا اور سابق چیف جسٹس کو وہ کیس منطقی انجام کو پہنچانا پڑا اور تفصیلی فیصلہ لکھا۔ن لیگ اور مریم کی تازہ ترین واردات جسٹس میاں ثاقب نثار کے خلاف شروع ہوئی۔ ان کی تقریر کے مختلف ٹکڑوں کو جوڑ کر ان کو بدنام کرنے کی مہم چل رہی ہے۔ مختلف ٹی وی اینکروں نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ یہ آڈیو جعلی ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ دوسرے مریم اس آڈیو کو ثبوت کے طور پر لیکر اسلام آباد ہائیکورٹ نہیں لے گئی اور اپنے مقدمہ میں شامل نہیں کیا بس میڈیا میڈیا کھیل رہی ہے کہ کسی طرح ججوں کو ذہنی طور پر دبائو میں لایا جائے لیکن وہ اسمیں کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی ہے۔ گلگت بلتستان کے سابق جج کے بیان حلفی کا ڈراپ سین کل ہو گیا جب جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں وہ اپنے حلف نامے سے ہی مکر گئے اور ان کو یاد ہی نہیں رہا کہ انہوں نے اس میں کیا لکھا اور بقوال ان کے بیان حلفی ان کے سیف میں محفوظ ہے تو صحافیوں کو اس کاپتہ کیسے چل گیا بہرحال جھوٹی اور جعلی کہانی اور کارروائی بھی اب اختتام کو پہنچنے والی ہے۔ جسٹس عامر فاروق اپنے جھوٹے حلف نامے سے صاف نکل گئے اور اب وہ سکون کیساتھ قانون کے مطابق مریم کی اپیل کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ حالات بتارہے ہیں مریم نواز کو یہاں بھی شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔ بدنامی کے سوا اس کو کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔ عمران خان کی بدانتظامی اور مہنگائی کے طوفان کے باوجود بھی مریم اور اپوزیشن عمران خان کو اقتدار سے الگ نہیں کر سکیں گے۔ الیکشن کا وقت بہت تیزی سے قریب آتا جارہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اسکی تیاریاں کررہے ہیں۔ اپوزیشن میں دو کردار اہم ہیں۔ مریم صفدر اور بلاول دونوں آنے والے دنوں میں ایک دوسرے کے خلاف لڑیں گے لیکن اصل جنگ پنجاب میںہو گی۔ تینوں پارٹیاں وہاں لڑیں گی۔ عمران خان بہتر نتائج وہاں حاصل کر سکتے ہیں اور مزید پانچ سال حکومت کر سکتے ہیں۔