پاکستان کی جو تاریخ ہے ویسی تاریخ شائد کسی اور ملک کی نہ ہو، مگر یہ ملک اتنا حسین اور اتنا خوب صورت ہے کہ اس سے بہت محبت کی جا سکتی ہے، مگر یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو ان کو برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور کیوں؟ اس ملک نے سب کچھ دیا تھا مگر وہی لوگ اس کو آگ لگانے پر تل گئے ہیں، ایسے ہی لوگوں میں ہمارے جج ہیں، بات یہ ہے کہ پتھر کو تراش کر بت تو بنایا جا سکتا ہے آپ کتنے ہی اچھے ہنر مند کیوں نہ ہوں پتھر سے ہیرا تراش نہیں سکتے پتھر بہرحال پتھر ہی رہے گا، امریکہ میں وہ نوجوان جو قانون پڑھنا چاہتے ہیں وہ MENIAL JOBSنہیں کر سکتے وہ اپنی نوجوانی میں اگر FELONY OR MIDEMEANORکے مرتکب پائے گئے ہوں اور پولیس نے ان کو حراست میں لیا ہو تو بھی کسی LAW SCHOOLمیں ان کو داخلہ نہیں ملے گا۔ LAW SCHOOLمیں داخلے کے خواہش مند نوجوانوں کو یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ان کا سماجی کردار UNBLEMISHEDہے۔ اس پالیسی کی معقول وجوہات بیان کی جاتی ہیں یہاں پر ان کی تفصیل میں جانا مناسب نہیں یہ بات کسی اور موقع پر زیر بحث آسکتی ہے، امریکہ کی اس پالیسی کو یورپ کے بیشتر ممالک نے اپنا لیا ہے، وکالت کے پیشے میں جانے والے نوجوان قانون کی باریکیوں سے تو واقف ہوتے ہی ہیں ان کو قانون سازی کی درک بھی ہوتی ہے اسی لئے بیشتر وکیل سیاست میں اپنا CAREERبنانے کے طالب بھی ہوتے ہیں، سینیٹ اور کانگریس کی اکثریت قانون کے شعبے سے وابستہ ہوتے ہیں بہت کم افراد دیگر شعبہ جات سے سیاست میں آتے ہیں امریکہ میں قانون کی حکمرانی کی بڑی وجہ یہی ہے اور اس کے اثرات یورپ اور دیگر مغربی ممالک پر بھی پڑتے ہیں۔ بدقسمتی کہیے یا اسے کوئی اور نام دیجیے تیسری دنیا میں ایسی کوئی روایات نہیں اور یہی وجہ ہے کہ تیسری دنیا نے کبھی کوئی فاضل ماہرِ قانون نہیں ہوا اکثر و بیشتر اچھے وکیل یا بیرسٹر مغربی ممالک سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں اور وہ اپنے اپنے ملک میں قانونی مشاورت بہم پہنچاتے ہیں اس میں سے اکثر مڈل کلاس فیملی سے ہوتے ہیں اور ان کا معاشی بیک گرائونڈ اتنا مضبوط نہیں ہوتا لہٰذا وہ ملک کے حکمران طبقے کے زیر اثر ہوتے ہیں اور حکمران جماعت کی پالیسی کے پابند۔
ان کی اپنی INDEPEDENTحیثیت ہوتی ہے اور نہ سوچ۔
پاکستان میں جن نوجوانوں کو کہیں نوکری نہیں ملتی وہ یا تو ٹیچر بن جاتے ہیں یا وکیل، یہ نوجوان زیادہ تر لوئر مڈل کلاس یا مڈل کلاس کے چشم و چراغ ہوتے ہیں جو نان شبینہ کو محتاج ہوتے ہیں اور بہت نامساعد حالات میں تعلیم حاصل کر پاتے ہیں مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس معاشرے کچلے ہوئے طبقات ہیں جن کی عزتِ نفس پہلے ہی بہت مجروح ہوتی ہے زیادہ تر احساس کم تری کے مارے ہوے لوگ، کچھ نوجوان جو وکالت کاامتحان پاس کر لیتے ہیں ان میں زندگی سے لڑنے کی سکت ختم ہو چکی ہوتی ہے وہ کچہری کے باہر ATTESTATIONاور نوٹری پبلک سے گزر اوقات کر لیتے ہیں کچھ دیگر وکیلوں کے ساتھ بحیثیت جونیئر کام کرتے ہیں، بہت کم وکیل ہیں جو صاحب استطاعت ہوتے ہیں اور جن کو بڑے وکیلوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے یہی وکیل اگر جج بن جائیں تو اپنا احساس محرومی اور اپنا BROUGHT UPساتھ لے کر چلتے ہیں اور کبھی قانون اور ضمیر کی آواز پر قانونی فیصلے نہیں کر پاتے اور چند ٹکوں یاایک جھرکی پرزمین پر آجاتے ہیں پاکستان میں ایسے ججوں کو فوج اور فیوڈلز نے خوب خوب استعمال کیا،ان ججوں نے نہ صرف فوج کے ایک حکم پر اپنا ضمیر بیچا بلکہ سیاست دانوں کے سامنے بھی بھیگی بلی بن گئے، سوائے چند ججوںکے ہر جج نے اپنا فیصلہ اور اپنا ضمیر بیچا، جن ججوں نے اپنی INTERGRITYبرقرار رکھی ان میں جسٹس قدیر اور جسٹس کارنیلیس کے نام بہت نمایاں ہیں جسٹس منیر نے فیصلے بیچنے کی ایسی ریت ڈالی کہ ہر جج نے اپنے آپ کو قابلِ فروخت بنا لیا وکیلوں میں شریف الدین پیرزادہ نے حکمرانوں کے لئے اپنی قانونی مہارت اچھے داموں بیچی پھر بہت سے وکیلوں نے اسی روش کو اپنایا ایسے ماحول میں کیا منصفی اور کیا قانون، ملک میں جب قانون ہی بیچا اور خریدا جانے لگا تو معاشرے میں انحطاط آتا چلا گیا ہر شعبہ روبہ زوال ہوا کیونکہ اصول یہ ٹھہرا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس، اس ماحول میں فیوڈلز کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملا، سیاست، انتخابات، پارلیمنٹ، سینیٹ، عدالتیں، سب کچھ ان کی مُٹھی میں چلا گیا اور فوج نے ان کے ساتھ مل کر قانون اور آئین کو خوب روندا۔
ہر دور میں طالع آزما اور حکمران کے ساتھ ایک جج کا نام نتھی رہا چونکہ یہ جج برائے فروخت تھے تو جن کے لئے یہ کام کرتے تھے ان کا بھی ان ججوں پر اعتبار نہ تھا ان کو خوف تھا کہ اگر ان ججوں کو ہم خرید سکتے ہیں تو دوسرے بھی ان کو خرید سکتے ہیں اس لئے ان ججوں کی ویڈیوز بنائی گئیں تاکہ وقت آنے پر ان کو EXPOSEکیاجاسکے یہ جو سیاست میں ویڈیوز کی وبا آئی ہوئی ہے یہ ظاہر کررہی ہے کہ عدلیہ کو دیمک لگ چکی اور کسی جج کا چاہے وہ چیف جسٹس ہی کیوں نہ ہو کوئی اعتبار نہیں رہا چار پانچ عشروں سے کوئی عالمی معیار کا فیصلہ نہ لکھا گیا اور اب حال یہ ہے ہماری عدلیہ ریٹنگ کے اعتبار سے 130نمبر پر براجمان ہے اب عدلیہ کا کوڑھ اتنا بڑھ گیا کہ بصارت سے محروم ان کوڑھیوں کو اپنا کوڑ ھ نظر نہیں آتا، اب علی الاعلان کہا جارہا ہے کہ عدلیہ فوج اور حکومت کے دبائو میں فیصلے لکھتے ہیں نسلہ ٹاور کا فیصلہ آپ کے سامنے ہے ایک معمولی آڈیٹر بھی کسی محکمے کی کسی ڈیل پر سوال اٹھاتا ہے کہ اس کے لئے اخبارات میں ٹینڈر دیا گیا یا نہیں یہاں فاضل ججوں نے نہ بلڈنگ کا NOCدیکھا نہ یہ دیکھا کہ یہ عمارت قانونی کیسے قرار پائی اور اس کو ڈھانے کا فیصلہ سنا دیا کمشنر کراچی ایک چالباز اس نے دھماکے سے اڑانے کی 56 کروڑ کی درخواست نا منظور کر کے93کروڑ کی درخواست منظور کر لی اب ہتھوڑیوں سے عمارت کو گرایا جارہا ہے یہ تاخیری حربے اس لئے استعمال کئے گئے کہ مظاہروں کا انتظام کر لیا جائے اب دو کوڑی کے جج اپنا سا منہ لے کر بیٹھے ہیں اور ہر طرف سے تھو تھو ہورہی ہے اور کوئی بعید نہیں کہ فیصلہ موخر کر دیا جائے، ہر معاملے کے پیچھے سیاست تو ہوتی ہے تو کہا جارہا ہے کہ ایک عمارت گرا کر ایم کیو ایم کے تن مردہ میں جان ڈالنا مقصود ہے تاکہ عمران کو ان کا ووٹ مل سکے۔
Next Post