چھ کروڑ پاکستانی قران مجیدکیسے پڑھیں؟

270

جناب وزیر اعظم صاحب، ایک پاکستانی کی حیثیت سے میں آپ کے عزم کی داد دیتا ہوں کہ آپ پاکستان کو ریاست مدینہ کے اصولوں پر چلانا چاہتے ہیں۔اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہےلیکن کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ پاکستان کے کتنے لوگ قران اور سنت سے آشنا ہیں؟ چھ سات کڑوڑ تو وہ ہیں جو نہ قران مجید پڑھ سکتے ہیں اور نہ سمجھ سکتے ہیں۔ کیا ان کو اتنی اُردو بھی نہیں سکھانا چاہیے کہ وہ قران مجید معنوں کے ساتھ پڑھ سکیں اور پھر اس پر عمل کریں؟ اس کے علاوہ جو قران پاک کی تعلیم مدرسوں میں دی جاتی ہے وہ بھی تلاوت کرنا سکھاتے ہیں، لیکن جب تک یہ بچے قران پاک کا ترجمہ نہیں پڑھیں گے تو ان کی مثال ان طوطوں کی طرح ہو گی جو بولتے تو ہیں لیکن جانتے نہیں کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ بڑا قابل تعریف عمل ہے کہ آپ نے سکولوں میں قران مجید بمعہ ترجمہ کے پڑھانے کا حکم صادر کیا ہے جس سے لاکھوں کڑوڑوں طلباء مستفید ہونگے۔ اب جو کڑوڑوں لوگ سکول نہیں جاتے اور قران پاک کا ترجمہ پڑھنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے ان کو جب اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ انہوں نے کیوں نہیں کتاب مبین کو پڑھا اور اس پر عمل نہیں کیا؟ تو وہ اس کا کیا جواب دیں گے؟کیا اس کی ذمہ واری حاکموں پر نہیں ڈالی جائے گی؟
ایک ان پڑھ مرد اور عورت کے لیے صرف دین پر عمل کرنا ہی مشکل نہیں ، بلکہ دنیا کے کام کاج کرنے بھی مشکل ہوتے ہیں۔ خصوصاً آج کی دنیا میں تعلیم یافتہ اور نا خواندہ کا فاصلہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔اب یہاں قد م قدم پر پڑھنے کی ضروت پیش آتی ہے خواہ وہ سڑک پر لگے بورڈوں پر تحریر صحت عامہ کی ہدایات ہوں، یا دفتروں اور دوکانوں کے نام ہوں، یا ٹریفک کے قاعدے قوانین ہوں۔ ایک ان پڑھ کبھی ڈرائیور نہیں بن سکتا ، نہ ہی اچھا ملازم، فیکٹری کا دہاڑی دار، یا اچھا شہری۔ ایک نا خواندہ یہ نہیں پڑھ سکتا کہ شیشی میں زہر ہے یا دوائی، نہ ہی کسی سیاسی جماعت کا منشور پڑھ کر یہ فیصلہ کر سکتا کہ وہ اس کے ووٹ کی حقدار ہے۔نہ وہ اخبار سے معلومات لے سکتا ہے نہ کتاب پڑھ کر اپنا علم بڑھا سکتا ہے۔ناخواندگی ایک لعنت کا طوق ہے جو نا خواندہ لیے پھرتا ہے اور زندگی بھر دوسروں کا محتاج رہتا ہے۔ شاید اسی لیے اقوام متحدہ نے اپنے منشور میں بنیادی تعلیم حاصل کرنا ہر انسان کا پیدائشی حق بتایا ہے۔ اور پاکستان کا آئین بھی یہی کہتا ہے۔
پاکستانی مذہبی رہنماؤں نے کبھی اس مسئلہ پر غور نہیں کیا۔ بس چند مدرسے چلا کر وہ اپنے فرض سے سبک دوش ہو جاتے ہیں۔ اور پھر سڑکوں پر آ کر اپنی اہمیت جتاتے ہیں۔پاکستان کے زمینداروں، وڈیروں،جاگیر داروں اور سیاستدانوں نے عوام کو اتنا قائل کر دیا ہے کہ وہ خود کہتے ہیں کہ ہم نے پڑھ کر کیا کرنا ہے؟ اس لیے وہ تعلیم کے حصول کے لیے مطالبہ بھی نہیں کرتے۔
فرض کیجئے کہ آپ روس یا چین کے کسی قصبے میں چلے جاتے ہیں جہاں کوئی شخص آپ کی زبان نہیں سمجھتا اور آپ ان کی زبان نہ پڑھ سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ نے کہیں جانا ہو تو نہ سڑکوں پر لکھے ہوئے گلیوں اور محلوں کے نام پڑھ سکیں گے اور نہ ہی کسی سے زبانی راستہ معلوم کر سکیں گے۔ اس وقت آ پ کو اندز ہ ہو گا کہ انسان بغیر تعلیم کے کتنا بے بس ہو سکتا ہے۔اب آپ پاکستان کے کسی بلوچی یا پشتون بھائی کا مخمصہ جان سکیں گے جس نے نہ اردو سیکھی ہو اور نہ انگریزی اور وہ پنجاب یا سندھ میں روزگار کی تلاش میں آئے۔اس کو سب سے پہلے اُردو میں چند کلمات بولنا اور سمجھنا تو پڑیں گے تا کہ وہ اشاروں اور چند الفاظ سے اپنا مطلب سمجھا سکے۔
کاشف عباسی کی 11جون2021 کی ڈان اخبار کی خبر کے مطابق 2020-2021کے پاکستان اکنامک سروے نے انکشاف کیا ہے کہ دس سال اور اُس سے اوپر کی عمر والے افراد میں خواندگی کی شرح سارے ملک میں پانچ سال سے ساٹھ فیصد سے اوپر نہیں جا رہی۔جس کی غالباً ایک وجہ تعلیم کے شعبہ پر قومی خزانے سے جو خرچ کیا گیا وہ تقریباً 30فیصد کم کر دیا گیا تھا۔ وفاق اور صوبوں نے کل ملا کر 611 ارب روپے تعلیم پر خرچ کیے جو گذشتہ سال کے مقابلے میں257 ارب کم تھے۔ سروے نے یہ بھی بتایا کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں سکول میں داخل ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، تعلیمی اداروں کی تعداد بھی بڑھی اور اساتذہ کی تعداد بھی۔اگر نو سال اور اس سے کم عمر بچوں کی اوسط 30فیصد ہو تو اس کا مطلب ہو گا کہ اگر پاکستان کی کل آبادی22 کڑوڑ ہو تو اس میں 10سال اور اس کے اوپر کی آبادی 15.4 کڑوڑ ہوئی اور اس کا 40فیصد یعنی 6.16 کڑوڑ لوگ نا خواندہ ہیں۔
یہ چھ کڑوڑ لوگ جو اصل میں اس سے بھی زیادہ ہونگے، کیونکہ بچوں کی ایک بڑی تعداد کو سکول سے تین جماعتوں کے بعد ہی اٹھا لیا جاتا ہے تا کہ وہ کہیں مزدوری کر کے کچھ کما لیں۔ انہوں نے جو تھوڑا بہت لکھنا پڑھنا سیکھا ہوتا ہے وہ بھی بھول جاتے ہیں۔ ان کی زندگی کیسے گذرتی ہے، اس موضوع پر پاکستان کے ادیبوں اور ڈرامہ نگاروں نے شاید ہی کبھی کچھ لکھا ہو اور کوشش کی ہو کہ ان کے مسائل پر اہل حیثیت اور با اختیار لوگوں کی توجہ دلائی جائے۔راقم کو یاد ہے کہ جب پاکستان ٹی وی پر ڈرامے دکھائے جانے شروع ہوئے، تو مذاحیہ خاکوں کا رواج تھا۔ ان میں سے ایک زبردست طنزیہ اور مزاح سے بھر پور ڈرامہ ’’تعلیم بالغاں‘‘ تھا جس میں تعلیم بالغان پر ایسی طنزیہ اور ہنسی مذاق سے بھر پور مشق سخن کی گئی تھی کہ تعلیم بالغان کو ہمیشہ ہمیشہ کے دفن کر دیا گیا۔ سچ تو یہ کہ مدتوں تعلیم بالغان پر سنجیدگی سے کام نہیں کیا گیا اور جو کچھ کیا بھی گیا وہ زیادہ عرصہ نہیں چلا۔
صدر ایوب خان کے دور حکومت میںولیج ایڈ کا ایک بڑا منصوبہ چلایا گیاجو بنیادی جمہوریتوں کی قسم کا ایک امید افزا منصوبہ تھا ۔ اس کے تحت تعلیم بالغاں پر بھی کام شروع ہوا اور اس میں پیش رفت بھی ہوئی جیسے کہ بالغوں کے لیے اُردو کا قاعدہ بھی بنا، لیکن یہ منصوبہ امریکی امداد سے چلایا گیا ، امریکیوں نے فیصلہ کیا کہ یہ کامیاب نہیں ہے تو اس کی امداد بند کر دی اور تعلیم بالغاں بھی اسی منصوبہ کے ساتھ مدفون ہو گئی۔
پاکستان میں پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں ایک عیسائی مشنری کارلسن نے تعلیم بالغاں کا پروگرام شروع کیا، جس میں اس نے اُردو کا قاعدہ بھی بنایا جس کا نام تھا ’نیا دن‘۔ کارلسن ایک امریکی مشنری تھا جو گوجرانوالہ میں عیسائیت کا پرچار کرنے آیا تھا لیکن اس سے زیادہ وہ چاہتا تھا کہ جو لوگ پہلے سے ہی عیسائی تھے لیکن بائبل نہیں پڑھ سکتے تھے انہیں اس قابل بنایا جائے کہ وہ اُردو کی بائبل پڑھ سکیں، لہذا ان کو اُردو سکھانے کے لیے اس نے ایسا قاعدہ بنایا جس سے وہ چھ ماہ یا اس ے بھی کم عرصہ میں بائبل پڑھنے کے قابل ہو جائیں۔نہایت چابکد ستی سے قاعدہ کا نام ایسا رکھا تھا کہ آپ اگر تیزی سے لیں تو و ہ نیا دین بھی پڑھا جا سکتا تھا۔( ذرا غور فرمائیں، کہ پاکستانی مذہبی رہنماؤں نے بچوں کو قران پڑھانے کے لیے مدرسے تو بنا دئیے لیکن بالغوں کو قران پڑھنے کی اہلیت دینے پر کبھی توجہ نہیں دی)
کارلسن نے نہ صرف عیسائی بالغوں کو اُردو پڑھانا شروع کی بلکہ اس نے مسلمان بالغوں کو بھی پڑھانا شروع کر دیا۔ اس کا طریقہ آسان تھا اور اور پاکستان ٹی وی والوں کو پسند آیا اور انہوں نے کارلسن کے اسسٹنٹ اے ڈی صدیقی کو پی ٹی وی پر تعلیم بالغان پڑھانے پر تیار کر لیا۔اور ’نیا دن‘ کی تعلیم بیک وقت ہزاروں ناظرین نے لینی شروع کردی۔یہ پروگرام تجرباتی طور پر شروع کیا گیا تھا اور زیادہ دیر نہیں چل سکا۔
پاکستان میں تعلیم بالغان ایک انتہائی غیر مقبول مضمون ہے۔ کچھ رضا کار ادرے تعلیم بالغان کے لیے کوشان ہیں یا تھے۔ ان میں پنجاب گرلز گائیڈ ایسوسی ایشن اور بنیاد قابل ذکر ہیں۔ان کے علاوہ عنایت اللہ صاحب لاہور میں تعلیم بالغاں کے فروغ کے لیے ایک ادارہ بنایا اور کچھ کتابیں بھی شائع کیں۔ لیکن پاکستانیوں کو اس موضوع پر ترغیب دینا یا ولولہ پیدا کرنا ایک نا ممکن ساکام ہے۔ موجودہ حکومت جس کے ساتھ غریبوں اور محب وطن افراد کو کئی توقعات ہیں، اس کے ایجنڈا میں بھی بالغوں کی خواندگی کے لیے کوئی پروگرام نظر نہیں آتا۔ مشرف حکومت نے بھی کچھ عرصہ کے لیے، ایک نیم سرکاری ادارہ ہیومن ڈیویلپمنٹ کمیشن کے ذریعہ ایک ملک گیر سکیم چلائی جس میں تعلیم بالغاں پر بھی کام کیا جاتا تھا۔ جب حکومت بدلی تو کمیشن بے توجہی کا شکار ہو کرختم ہو گیا۔غالباً اسی زمانے میں تعلیم بالغان کے فروغ کے لیے ہر ضلع میں افسر مقرر کیے گئے، لیکن وہ صرف نمائشی کاروائی تھی ، اور کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی۔کچھ قابل ذکر لیکن انتہائی مختصر پروگرام بھی چلے اور کچھ نتایج دکھائے بغیر ختم ہو گئے۔
دنیا میں تعلیم با لغان کی شکل بدل چکی ہے۔ اسے اب فنکشنل لٹریسی کہتے ہیں۔یعنی ایسی خواندگی جس سے کوئی نا خواندہ کم از کم زندگی کے روز مرہ کے کام کاج کر سکے جیسے خط لکھ سکے اور پڑھ سکے، سڑکوں کے نام، بسوں پر لکھے الفاظ، اخبار، ہدایات، تھوڑا بہت حساب، بنک میں جا کر اپنا اکاونٹ کھول سکے اور چیک لکھ سکے، اپنے موبائیل پر پیغامات لکھ پڑھ سکے، وغیرہ۔ اسی فنکشنل لٹریسی کے ساتھ اور بھی خصوصی خواندگی کے امکانات بن گئے ہیں جن میں صحت کی اور مالی لٹریسی قابل ذکر ہیں۔ یہ ان لوگوں کے لیے ہیں جنہوں نے بنیادی خواندگی کا کورس ختم کر لیا ہو اور قدرے مشکل الفاظ اور تراکیب سمجھنے کے قابل ہو گئے ہوں۔ ایک دفعہ نا خواندہ کو لکھنا پڑھنا آ جائے تو ان کو حفظان صحت، متعدی بیماریوں سے پرہیز، سماجی مسائل، شہریت، جیسے موضوعات پر تعلیم دی جا سکتی ہے جن سے ان کی روز مرہ کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں۔ موثر خواندگی کے مواد بنانے کے لیے دو ہزار الفاظ کی فرہنگ ہونی چاہیے جس کے استعمال سے نو خواندہ ہر قسم کی معلومات حاصل کر سکیں۔
پاکستانی ٹھاٹھ باٹھ سے عالمی کانفرینسز میں جاتے ہیں، جیسے کہ تعلیم سب کے لیے، وہاں قراردادیں پاس کی جاتی ہیں کہ فلاں تاریخ تک ہم یہ ہدف حاصل کر لیں گے، لیکن پاکستان واپس آ کر ایک رپورٹ داخل دفتر کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ کوئی بھی حکومت اس مقصد کے لیے مالی معاونت کرنے کے لیے سیاسی حمایت حاصل نہیں پاتی۔جب تک ہر پاکستانی لکھنا پڑھنا نہیں جان سکے گا نہ وہ دین کو سمجھ سکے گا اور نہ دنیا کو۔ پاکستان میںہر حکومت خواہ جمہوری ہو یا عسکری، وہ عمداً یا طوعاً کرہاً، مذہبی قائدین سے دب کر رہتی ہیں، اور ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ ان سے ٹاکرا نہ لیا جائے۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے نا خواندہ عوام بآسانی مذہبی نعروں کے پیچھے لگ کر اپنی جان بھی دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اگر وہ جلوسوں میں شامل نہ بھی ہوں تو ان کی ہمدردی اسی طرف ہوتی ہے۔ جب تک عوام کو تعلیم سے رو شناس نہیں کرایا جائے گا اس مسئلہ کا دیر پا حل نہیں ہوگا۔ کاش خواندگی کے مخالف با اثر لوگ یہ بات سمجھ جائیں۔لیکن ہماری بد قسمتی ہے کہ ملائیت جاگیر داروں کے زیر احسان ہوتی ہے اور وہی کرتی ہے جو وہ چاہتے ہیں۔اور وہ عوام کو خواندہ نہیں دیکھنا چاہتے۔