برصغیر کی آج کل خبروں اور سیاست پر نظر ڈالیں تو ہر طرف جنگ کی باتیں ہورہی ہیں، یہ جنگ کب اور کیسے شروع ہو گی اس کا سب کو انتظار ہے، جنگ کا بگُل کدھر سے بجے گا اور کس بارڈر سے جنگ شروع ہو گی اس کے لئے لوگ اپنے اپنے اندازے لگارہے ہیں، اخبار نویسوں کا اپنا تجزیہ ہے، ٹی وی کے تبصرہ نگار اپنا اپنا اندازہ بیان کررہے ہیں، بیرونی اخبارات کا اپنا نکتہ نظر ہے، بھارت کا میڈیا اپنی رام کہانی سنارہا ہے، پاکستانی میڈیا نے قدرے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، چینی میڈیا کا اندازہ صرف گلوبل ٹائم کی خبروں اور مضامین سے ہی لگایا جا سکتا ہے، اگر حکومتی سطح پر دیکھیں تو صرف یہ چار ممالک نہیں بلکہ تین یا چار ملک اور اس میں شامل ہیں سب سے اہم ملک امریکہ ہے، اگر جنگ ہوتی ہے تو اس کا رویہ کیا ہو گا؟ کیا وہ بھارت کیساتھ چین کے خلاف جنگ میں کودے گا یا اپنے الیکشن کی وجہ سے صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلائے گا، دوسرا اہم ملک روس ہے کیا وہ چین کیساتھ امریکہ کے مقابلے پر کھڑا ہو گا یا خاموش رہے گا، بھارت کو امید تھی کہ روس بھارت کا ہمیشہ کی طرح ساتھ دے گا لیکن ایسا نظر نہیں آرہا، جب سے مودی نے ٹرمپ سے ہاتھ ملایا ہے روس بھارت سے دور ہوتا جارہا ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارت اس خطے میں اکیلا ہو گیا ہے، خطے کے اور ملک بنگلہ دیش، میانمار اور بھوٹان ہیں، اگر جنگ ہوتی ہے تو یہ تین ملک اس جنگ سے براہ راست متاثر ہونگے۔
شائد بہت سے لوگوں کو پتہ نہ ہو کہ بنگلہ دیش نے چین سے دفاعی سمجھوتہ کیا ہوا ہے، اگر آپ چین کی اسلحہ کی سپلائی کی سائوتھ ایشیاء کی لسٹ اٹھا کر دیکھیں تو چین سب سے زیادہ اسلحہ بنگلہ دیش کو سپلائی کرتا ہے، پاکستان سے بھی زیادہ عام لوگوں کو شائد میری اس بات سے حیرت ہو، لیکن آ پ چینی حکومت کے اعداد و شمار اٹھا کر دیکھیں تو یہ بات سچ ثابت ہو گی، میانمار ،بنگلہ دیش اور بھوٹان کے زمینی راستے بھارت کے ان سات صوبوں کیساتھ ملے ہوئے ہیں جہاں اگر سلی گوڑی کے ۲۲ میل کے علاقہ کو بھارت سے چین کاٹ دیتا ہے اور اس کی چکن نیک پر قبضہ کر لیتا ہے تو ان سات صوبوں میں سے کئی صوبے اپنی آزادی کا اعلان کر دینگے اور چین کیساتھ فوجی الحاق یا معاہدہ کر لیں گے، ان آزاد صوبوں کو تسلیم کرنیوالے خطے کے کئی ملک ہونگے، آر ایس ایس کے لیڈر شریمان نر یندرمودی ان کے ایڈوائزار اجیت دیوگل، وزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کو اب یہ احساس ہوچلا ہے کہ زمین ان کے پیروں سے کھسکتی جارہی ہے، پچھلے چند دنوں سے ان سب نے بڑھکیں مارنی بند کر دی ہیں، پہلے وہ روزانہ POK ، پی او کے پاکستان اکوپائیڈ کشمیر چلایا کرتے تھے، اب سب کی آواز بند ہو گئی ہے، مقبوضہ کشمیر سے 370دفعہ اٹھانے کے بعد انہوں نے گلگت بلتستان اور مظفر آباد کا گانا گانا شروع کر دیا تھا، ان کے ریڈیو نے ان دو شہروں کے موسم کا حال بھی بتانا شروع کر دیا تھا لیکن چینی فوجوں کی پیش قدمی کے بعد سب کی بولتی بند ہو گئی ہے اب وہ پاکستان کو چھوڑ چین کو دھوکہ باز اور مکار کہنے لگے ہیں لیکن آنے والے وقت کا اندازہ ان کی فوجی قیادت اور سیاسی قیادت کوہورہا ہے اور پچاس سال پہلے چینی وزیر اعظم چو این لائی کی کہی ہوئی بات سچ ہونے جارہی ہے کہ سقوط ڈھاکہ سقوط بھارت کا آغاز ہے، اس وقت بھارت تین طرف سے گھر چکا ہے اور تینوں ملکوں کے اپنے اپنے مقاصد پورے ہونے کا وقت قریب آچکا ہے، سب سے پہلے چین وہ کبھی بھی بھارت کو اپنے سامنے ایک طاقت نہیں بننے دے گا، امریکہ کے بعد اب وہ دنیا کی سپرپاور ہو گا، وہ کسی قیمت پر بھی بھارت کو نہ تو سکیورٹی کونسل کا ممبر بننے دے گا اور نہ علاقہ کی فوجی طاقت ،وہ اپنے کلیم شدہ علاقوں پر قبضہ کر لیگا، تبت سمیت بھارت کی چکن نیک کاٹ کر سات صوبوں کو الگ کر دے گا، اس کے بعد مقبوضہ کشمیر کی آزادی ، پاکستان مقبوضہ کشمیر پر حملہ کر کے اس کو آزاد کرانے کی کوشش کرے گا، مقبوضہ کشمیر کے عوام جو 316دن سے 5اگست کے بعد سے قید ہیں اپنی آزادی کیلئے اٹھ کھڑے ہوں گے، بھارت سے بغاوت کر دیں گے، اگر چین تبت اور اقصائی چین سے سیاچن کا زمینی راستہ کاٹ دیتا ہے تو پاکستان سیاچن پر دوبارہ قبضہ کر لے گا کیونکہ سیاچن پر بیٹھے بھارتی فوجوں کی سپلائی کٹ جائے گی اور پاکستانی فوجوں کا سیاچن پر دوبارہ قبضہ کرنا آسان ہو جائیگا۔
تیسرا ملک رہ گیا نیپال، چند دن پہلے بھارتی سپاہیوں پر گولی چلا کر جس میں ایک شخص ہلاک اور 12سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے وہ جنگ کاآغاز کر چکا ہے، قدرت کی ستم ظریفی دیکھئے بھارت اس قتل پر خاموش ہے، کسی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ بھارتی میڈیا نے اس خبر کا بلیک آئوٹ کیا، نیپال کی پارلیمنٹ نے پچھلے ہفتہ نیا نقشہ منظورکر لیا جس میں کئی بھارتی علاقوں کو نیپال کا علاقہ دکھایا گیا ہے۔ غرضیکہ تین طرف سے جنگ کا آغاز ہونے کو ہے، یہ کب اور کیسے شروع ہو گی آیاامریکہ صدارتی الیکشن کے بعد ہو گی یا پہلے یہ کہنا مشکل ہے ۔ لیکن حالات کسی وقت بھی خراب ہو سکتے ہیں، بھارت کا نیا نقشہ کیا ہو گا یہ کہنا ابھی ممکن نہیں ہے لیکن اب تباہی اور بربادی بھارت کا مقدر ہے۔
ایس ایم عرفان
Prev Post