ہندو اسٹیبلشمنٹ، اسلام اور مسلمانوں کے دشمن کا ترجمان میجر گوروآریا اور جنر ل بخشی سمیت بھارت کے تمام ہی اینکرز اور تھنک ٹینک اب اس فکر میں پڑے ہیں کہ کسی نہ کسی طر ح افغانستان کا امن تباہ کیا جائے میجر گوروآریا کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اور چین کا استحکام ممکن ہو سکے گا اور خطے میں ترقی کا نیا دور شروع ہوگا۔ برون یونیورسٹی آف یو ایس کی رپورٹ جس کا ذکر ہم اپنے کالم میں پہلے بھی کر چکے ہیں کا کہنا ہے کہ افغانستان کے مجموعی بجٹ کا 60فی صد صر ف امن و امان پر خرچ ہوتا تھا لیکن اس قدر بھاری بھرکم بجٹ کے باوجود 20گھنٹے بھی کبھی افغانستان میں امن وامان قائم نہیں رہ سکا اور اب جب کہ طالبان نے وہاں امن قائم کرنے کی کوشش میں بہت حد تک کامیابی بھی حاصل کرلی تو امریکا اور اس کے اتحادی بھارت ،افغانستان کا امن برباد کرنے کی کوشش میں مصروف ہوگئے ہیں۔ بھارتی حکومت اور چینل دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکی سی آئی اے کے چیف ولیم جے برنز جو یہ بتانے بھارت آئے تھے کہ انڈیا، امریکا کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے لیکن ولیم جے برنز افغانستان سے اپنے خفیہ آلات اور وہاں پھنسے ہوئے امریکیوں کو جلد از جلد نکالنا چاہتے ہیں لیکن طالبان کا کہنا ہے کہ 31اگست 2021ء کو دوحا معاہدے کی مدت تمام ہو چکی ہے۔ طالبان نے امریکیوں کو نکالنے کے لیے یہ شرط عائد کر دی ہے ’’امریکا فوری طور سے افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم کرے اور امریکا میں موجود افغانستان کے 9ارب ڈالرز کو افغانستان منتقل کرنے کی اجازت دے‘‘۔
20 برس کے دوران افغانستان کی سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے والے بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی بھی ملک میں دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرنا ناقابل قبول ہے اور طالبان کو اِس سلسلے میں اپنے اعلان پر کھرا اترنا چاہیے۔ ڈاکٹر جے شنکر نے کہا کہ کابل سے نکلنے والوں کے لیے سفر کی بحالی اہم ترجیح ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشترکہ طریقہ کار UNSC کی قرارداد دو پانچ نو تین کے مطابق ہونا چاہیے۔
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے معلوم کرنا تھا کہ مشترکہ طریقہ کار UNSC کی قرارداد دو پانچ نو تین پر عملدرآمد سے قبل سالِ گزشتہ اقوام متحدہ کی اْس رپورٹ کا تو جواب دیں جس میں کہا گیا تھا کہ بھارت افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشت گردی کر رہا ہے اور یہ بھی بتا دیں کہ پاکستان کی سرحد کے ساتھ بھارت کے دس اعلانیہ اور ایک درجن سے زائد خفیہ قونصل خانے 20برسوں سے کیا کر رہے تھے۔ چلیں یہی کہہ دیں کہ وہاں رام کی پوچا پاٹ کا سلسلہ جاری و ساری تھا۔
روس کے قومی سلامتی کے مشیر جنرل نکولائی پیٹرو شیف (Nikolay Patrushev) اور اُن کے بھارتی ہم منصب اجیت ڈوگل نے نئی دلی میں افغانستان کے معاملے پر اعلیٰ سطحی مشاورت کی۔ بعد میں دورے پر آئے ہوئے روس کے قومی سلامتی کے مشیر نے وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر سے بھی ملاقات کی۔ ڈاکٹر جے شنکر نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ افغانستان کے معاملے پر بہت مفید تبادلہِ خیال ہوا۔ روسی عہدیدار نے نو ستمبرکی شام نئی دلی میں وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی ملاقات کی۔ مودی نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ جنرل پیٹرو شیف کے دورے سے دونوں ملکوں کے درمیان اہم علاقائی معاملات پر مفید تبادلہ خیال کیا گیا۔ لیکن عالمی اخبارات کچھ اور ہی کہانی سنا رہے ہیں کہ جنرل پیٹرو شیف سے ملاقات میں افغانستان میں روس کی جاری سرمایہ کاری میں اضافہ پر بات چیت ہوئی ہے بھارت کو یہ بتا دیا گیا کہ روس افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم کر نے جارہا ہے۔
ذرائع نے کہا ہے کہ امریکی سی آئی اے کے چیف ولیم جے برنز نے بھارت کے دورے کے دوران بھارت کو دھمکی دی ہے اگر اْس نے روس کے S-400 کے معاہدے کو دوبارہ بحال کیا تو دونوں ملکوں کے ’’بیکا معاہدہ‘‘ (پلز ویپنز وار) کو ختم کر دیا جائے گا۔ بھارت کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں نے افغانستان میں سیاسی، سیکورٹی اور انسانی ہمدردی سے متعلق صورتحال کا جائزہ لیا اور جیش محمد، لشکر طیبہ سمیت دہشت گرد گروپوں کی سرگرمیوں، منشیات کے خطرے اور علاقائی ملکوں کے کردار کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔
بتایا یہ جارہا ہے کہ بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوگل نے روس اور امریکا کے وفود سے بھی خوب گپ شپ کی ہے لیکن آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید کی افغانستان میں چائے کے کپ کے مزے کی اپنی ہی بات تھی۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی افغانستان کے دارالحکومت کابل پہنچنے کے بعد کی ایک تصویر شیئر ہوئی جس میں انہیں چائے کا کپ اٹھائے کچھ افراد کے ساتھ کھڑے دیکھا جا سکتا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا کابل کا دورہ بھارت میں نجی ٹی وی چینلوں پر بھی موضوع زیر بحث رہا۔
بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوگل بھی عجیب شخصیت ہیں انہوں جنوری 2021ء کو افغانستان کا ’بڑ ی خاموشی سے‘ دو روزہ دورہ کیا تھا اور آج اشرف غنی افغان عوام سے معافی مانگتے پھر رہے ہیں کہ وہ افغانستان سے خاموشی کیوں نکل گئے۔ بھارت کے قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوگل کے اس دورے کو نئی دہلی میں انتہائی رازداری میں رکھا گیا تھا اور افغانستان کے صدارتی محل سے جاری ہونے والے ایک مختصر بیان کے بعد اس کا پتا چلا تھا۔ اْس وقت بھی بیان میں کہا گیا تھا کہ ’’فریقین نے انسداد دہشت گر دی میں تعاون اور افغانستان میں امن کی حمایت کے لیے علاقائی اتفاق رائے قائم کرنے کی کوششوں کے متعلق تبادلہ خیال کیا تھا۔آج امریکا اور روس نے اجیت ڈوگل سے ملاقات کے بعد جاری بھارتی بیان میں کہا جارہا ہے کہ ’’فریقین نے انسداد دہشت گردی میں تعاون اور افغانستان میں امن کی حمایت کے لیے علاقائی اتفاق رائے قائم کرنے کی کوششوں کے متعلق تبادلہ خیال کیا ہے‘‘ اس کا کیا انجام ہوگا اس سلسلے میں بھارت ہی کچھ بتا سکتا ہے لیکن بھارت سے خیر کی توقع نا ممکن ہے۔ طالبان نے دوحا میں بھارت کو بتا دیا ہے کہ اگر بھارت نے افغانستان میں دہشت گردی کی کوشش کی تو اس کا جواب بھارت میں دیا جائے گا۔