تین مہینے سے زیادہ مدت تک سعودی عرب میں قیام کے بعد آپ کا یہ کالم نگار اپنے گھر واپس پہنچ گیا اور گھر پہنچ کر اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ مجھے میرے ٹھکانے پر صحیح سلامت واپس لے آیا۔یہ کہنے کا مقصد محض یہ ہے کہ گذشتہ تین چار ماہ میں دنیا ایسی بدلی ہے اس کرونا وائرس کے عذاب تلے کہ معروضی حالات کے ساتھ ساتھ انسانوں کے ر ویے بھی غیر محسوساتی طور پر بدل گئے ہیں۔ میرے پیر میں عنفوانِ شباب سے بقول شخصے چکر بندھا ہوا ہے۔ انیس برس کی بالی عمر میں پہلی بار امریکن یونیورسٹی، بیروت، میں حصولِ تعلیم کی غرض و غایت سے گھر سے کیا نکلا کہ اس وقت سے اب تک مسلسل پھرتا ہی رہا ہوں۔ آپ سب جانتے ہیں کہ میں نے ۳۶ برس اپنی زندگی کے سفارت کاری کی نذر کئے اور اس پیشے میں ملکوں ملکوں پھرا اور بلاشبہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا۔ تو میرے لئے سفر کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے گھر سے نکل کر سودا سلف لینے کوئی پڑوس کی سپر مارکیٹ تک جائے۔ میں اب ایسا مسافر بن چکا ہوں جسے کوئی جگہ اجنبی نہیں لگتی، کوئی دیس پردیس نہیں لگتا۔ لیکن اس عمر بھر کی جہاں گردی کے باوجود اس سفر نے پہلی بار مجھے بے چین رکھا۔ میں جہاں گیا تھا وہ جگہ میرے لئے اجنبی نہیں ہے۔ سعودی عرب میں کتنی بار گیا ہوں اس کا حساب رکھنا بڑا مشکل ہے۔ پھر جس کے پاس گیا تھا وہ میری لختِ جگر، میری اکلوتی بیٹی ہے۔ جہاں وہ رہتی ہے اس جگہ سے بھی میں اپنے شہر کی طرح مانوس ہوں۔ میرا داماد، جو میرا بھانجہ بھی ہے، دنیا کی سب سے بڑی تیل کی کمپنی آرامکو میں سینئر انجینئر ہے۔ جن احباب نے دہران، جو دمام کا پڑوسی شہر ہے، میں آرامکو کا کیمپ دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ اسے کیمپ تو محض اصطلاح کے طور پر کہا جاتا ہے ورنہ وہ پورا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جو امریکہ یا کینیڈا کے کسی شہر کے مضافات کی طرح ہے اور اتنا جدید ہے کہ جب تک سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں تھی اس وقت بھی آرامکو کے کیمپ میں خواتین بلا تکلف گاڑیاں چلاتی تھیں۔اس تمام تفصیل سے کہنا یہ مراد ہے کہ میں نہ صرف اپنی جان بیٹی کے ہاں تھا بلکہ جہاں تھا وہاں ہر طرح کی سہولت مجھے میسر تھی لیکن پھر بھی پورے وقت بے چینی رہی اور بے چینی کی وجہ وہ غیر معمولی حالات تھے جن میں وہ ملک کیا دنیا کا ہر ملک گرفتارہے! لاک ڈائون وہاں بھی تھا اگرچہ اتنی رعایت تھی کہ وسیع و عریض کیمپ میں گھومنے پھرنے کی سہولت تھی اور وہاں کے وہ راستے جنہیں جدید اصطلاح میں واکنگ ٹریل کہا جاتا ہے مجھ جیسے تیز گامی کے دلدادہ کیلئے جنت نظیر ہیں۔ لیکن پھر بھی بے چینی اس احساس کے سبب تھی کہ میں وہاں ایک اعتبار سے قید تھا۔ اور ملکوں کی طرح سعودی عرب نے بھی اپنی سرحدیں بند کرلیں ہیں اور تاحال بین الاقوامی پروازوں کا سلسلہ بحال نہیں ہوا ہے۔ سو یہ سوچ سوچ کر پریشانی تھی کہ نہ جانے کب تک وہاں رہنا پڑیگا۔ وہ تو خدا بھلا کرے جرمنی کی ُلفتھانسا فضائی کمپنی کا کہ ان کی ایک خصوصی پرواز ریاض سے براستہ فرینکفرٹ ٹورنٹو آرہی تھی جسے میں نے غنیمت جانا اگرچہ پرواز لینے کیلئے مجھے چار گھنٹے کا زمینی سفر کرکے دہران سے ریاض جانا پڑا لیکن اسکے سوا چارہ بھی نہیں تھا اور یوں اللہ اللہ کرکے خیر سے بدھو گھر کوآ ئے! میں اپنی ذات کی باتیں اس کالم میں کرنے سے احتراز برتتا ہوں لیکن اپنے تجربہ کے پس منظر میں جو بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس وبا نے دنیا کیلئے اور اس میں بسنے والے ہم انسانوں کیلئے ایک بالکل نیا اور انوکھا منظر نامہ ترتیب دینے کا کام کیا ہے۔ اس کام کا آغاز ہوچکا ہے دیکھنا یہ ہے کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔