نیویارک: آج سے اربوں سال قبل برقی شراروں نے زمین پر فاسفورس کی مقدار بڑھائی تھی جس سے حیات کےلیے ابتدائی سامان پیدا ہوا تھا۔
ایک نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کڑکتی ہوئی بجلی سے زمین پر زندگی کے لیے لازمی اجزا بکھیرے تھے اور اس کے بعد حیات پیچیدہ ہوتی چلی گئی تھی۔ یہ تحقیق ییل یونیورسٹی کے شعبہ ارضیات کے طالبعلم بنجامن ہیس نے کی ہے جو ان کی پی ایچ ڈی مقالے کا مرکزی حصہ بھی ہے۔
بنجامن ہیس کہتے ہیں کہ زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے فاسفورس ایک اہم عنصر ہے۔ لیکن اربوں سال تک یہ زمین پر عام دستیاب نہ تھا اور زمین کی غیرحل پذیر معدنیات میں کہیں پھنسا ہوا تھا۔ اس تحقیق میں ماہرین نے زور دے کر کہا ہے کہ آخر ایسا کب اور کیونکر ہوا جب زمین پر فاسفورس مفید اور قابلِ عمل بنا اور یوں اس نے زندگی کے بنیادی ترین اجز مثلاً ڈی این اے ، آر این اے اور دیگر حیاتی سالمات کی بنیادی اینٹ کا روپ دھارا۔
لیکن انہی شرائبرسائٹ شہابیوں میں فاسفورس کا ایک اور مقام دریافت کیا جو ’فلگرائٹس‘ کہلاتے ہیں اور ایک قسم کا شیشہ ہوتے ہیں۔ لیکن یہ شیشے بھی اس وقت بنتے ہیں جب آسمانی بجلی کا زوردار عمل ہو تاہم ان میں فاسفورس حل پذیر (سولیوبل) صورت میں ہوتا ہے۔
اس کے بعد ایک کمپیوٹر ماڈل بنایا گیا تو معلوم ہوا کہ قدیم زمین پر سال میں ایک سے پانچ ارب مرتبہ زوردار بجلی کڑکتی تھی اور ان میں سے دس کروڑ سے ایک ارب مرتبہ بجلی زمین پر ضرور گری ہوگی۔ اس طرح شہابیوں میں پھنسی فاسفورس آزاد ہوکر اس قابل ہوئی کہ اولین حیاتیاتی کیمیکل بناسکے۔
اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ شاید بجلی کے شراروں نے فاسفورس کی راہ ہموار کی اور اس سے زندگی کی ابتدائی شکل کا ظہور ہوا تھا۔