امریکی دفاع کے ذمہ دار پینٹاگون کے سربراہ نے ملک میں جاری مظاہرے روکنے کے لیے فوجیوں کے استعمال کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خیال کو مسترد کردیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ اور سیکریٹری دفاع مارک ایسپر دونوں ہی ٹرمپ کے پہلے وزیر دفاع جم میٹیس کی تنقید کی زد میں آئے۔
ان پر تنقید ایسے وقت میں سامنے آئی جب امریکی صدر نے ملک میں سڑکوں پر احتجاج کرنے والوں پر ’غلبہ پانے‘ کے لیے فوج کو استعمال کرنے کی دھمکیاں دی تھی۔
واضح رہے کہ امریکا میں سفید فام پولیس افسر کے سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کو اپنے گھٹنوں میں کئی منٹوں تک دبائے رکھنے کے بعد اس کی موت پر احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں۔
امریکی صدر نے گورنرز پر زور دیا تھا کہ وہ نیشنل گارڈ کو احتجاج، جو پرتشدد شکل اختیار کرگئے ہیں، پر قابو پانے کے لیے طلب کریں اور متنبہ کیا تھا کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو وہ فعال ڈیوٹی فوجی دستے بھیج سکتے ہیں۔
جس پر مارک ایسپر نے امریکی صدر کو یہ کہہ کر ناراض کردیا کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے فوجی دستوں کے استعمال کی مخالفت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکا میں 1807 کے قانون کو صرف انتہائی ضروری اور انتہائی سنگین حالات میں ہی نافذ کیا جانا چاہیے جبکہ ’اب ہم ان حالات میں نہیں ہیں‘۔
تاہم بعد ازاں وائٹ ہاؤس کے دورے کے بعد پینٹاگون نے اچانک واشنگٹن خطے سے سیکڑوں ایکٹو ڈیوٹی فوجیوں کو گھر بھیجنے کے ابتدائی فیصلے کو واپس لے لیا جو وائٹ ہاؤس کے ساتھ تنازع میں اضافے کی علامت ہے۔
سابق سیکریٹری جم میٹیس، جو ایک ریٹائرڈ میرین جنرل بھی ہیں، نے اخبار ’دی اٹلانٹک‘ میں ایک مضمون میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ایسپر دونوں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حاضر سروس فوجی اہلکاروں کے استعمال پر غور کرنے اور ان پر بڑے پیمانے پر وائٹ ہاؤس کے باہر جاری پرامن احتجاج کو ہٹانے میں استعمال کرنے پر تنقید کی۔
جم میٹیس نے ایسپر اور امریکی صدر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’ہمیں اپنے شہروں کو میدان جنگ بنانے کا خیال مسترد کرنا ہوگا جس کے لیے وردی میں فوج کو غلبہ حاصل کرنے کے لیے کہا جاتا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری جوابی کارروائی، جیسا ہم نے واشنگٹن میں دیکھا، سے فوج اور شہریوں کے درمیان تنازع شروع ہوگا‘۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر جم میٹیس کو ‘دنیا کے سب سے مغلوب جنرل’ قرار دیتے ہوئے رد عمل دیا کہ ’مجھے ان کی قیادت کا انداز یا اس کے بارے میں کچھ بھی پسند نہیں تھا، کئی لوگ مجھ سے متفق ہیں، خوشی ہے کہ وہ چلے گئے!‘
واضح رہے کہ چند روز قبل مارک ایسپر نے فوج کے تقریبا ایک ہزار 300 جوانوں کو ملک کے دارالحکومت کے بالکل باہر فوجی اڈوں پر بھیجنے کا حکم دیا تھا۔
ان کے یہ احکامات ایسے وقت میں سامنے آئے تھے جب ٹرمپ نے پرتشدد احتجاج کے جواب میں بغاوت ایکٹ کو نافذ کرنے اور شہر میں فوج بھیجنے پر زور دیا تھا۔
ہفتے کے روز نیشنل گارڈ کے دستے اور بھاری تعداد میں مسلح وفاقی قانون نافذ کرنے والے ایجنٹس کی بھاری نفری کے ذریعے لوگوں کو منتشر کرنے کے بعد دفاعی عہدیداروں نے کہا کہ فوجی اپنے اڈوں پر واپس چلے جائیں گے۔
تاہم آرمی سیکریٹری ریان مک کارتھی نے ایسوسی ایٹ پریس کو بتایا کہ ایسپر کے وائٹ ہاؤس کے دورے کے بعد یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے اس پر تبصرہ کرنے کے لیے متعدد درخواستوں کا جواب نہیں دیا کہ جس میں پوچھا گیا تھا کہ کیا یہ فیصلہ ڈونلڈ ٹرمپ نے واپس لیا ہے۔
اس تبدیلی سے جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد ہونے والے احتجاج کے لیے امریکی صدر کی دھمکیوں میں بغاوت ایکٹ کے نفاذ کے فیصلے میں وزن بڑھ گیا۔
وائٹ ہاؤس کے عہدیداروں نے ایسپر کے تبصرے سے پہلے اشارہ دیا تھا کہ ٹرمپ اس فیصلے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں تاہم عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ ناراض ہیں کہ ایسپر کے بیان میں ہمیں ’کمزور‘ بتایا گیا۔
پریس سیکریٹری کیلی مک انینی نے کہا کہ ایسپر کے تبصروں کے باوجود صدر ابھی بھی وفاقی فوج تعینات کرنے پر راضی ہیں۔
انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’اگر ضرورت ہوئی تو وہ اسے استعمال کریں گے لیکن اس وقت وہ نیشنل گارڈ کے ساتھ سڑکوں پر اضافے پر بھروسہ کررہے ہیں، یہ کافی مؤثر ثابت ہوا ہے‘۔
دریں اثنا امریکی صدر، وفاقی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے افسران کو ملک کے دارالحکومت میں تعینات کرنے کا سہرا اپنے سر لے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ریاستوں کے لیے مثالی ہے کہ وہ ملک بھر میں مظاہروں کے ساتھ ہونے والے تشدد کو کیسے روک سکتے ہیں‘۔
بدھ کی شام کو واشنگٹن میں فوج سڑکوں پر موجود تھی۔
دفاعی حکام نے بتایا کہ نیشنل گارڈ کے کم از کم 2 ہزار 200 اہلکار سڑکوں پر ہوں گے۔
ہیلمٹ پہنے فورسز نے وائٹ ہاؤس سے لے کر لیفائٹ پارک کے آس پاس تک کا دائرہ بنایا جبکہ فوجی گاڑیاں چوراہوں پر کھڑی تھیں اور راستے بند ہوگئے تھے۔