لالچی مولوی نے آخر کار منہ پھاڑ کر ڈی جی آئی ایس پی آر سے پاپا جونز کی فرنچائز کا مطالبہ کر ہی دیا!
مکالمہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جب پچھلے ہفتے فضل الرحمن عرف مولانا ڈیزل نے پی ڈی ایم کے لاہور کے اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں حکومت کو بلیک میل کرنے کے لئے فوج کو ٹارگٹ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ جب ہم لانگ مارچ کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ اس کا رخ اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی کر دیں جس سے ان کی مراد اور اشارہ راولپنڈی میں واقع فوج کے ادارے جی ایچ کیو کی جانب تھا، اس بات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی فطرت کو سمجھا جائے کہ ان کی ماضی کے حوالے سے شہرت کیسی رہی ہے، جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بتایا تھا کہ یہ شخص انتہائی لالچی اور کرپشن کا بادشاہ مانا جاتا ہے۔ ہر حکومت میں کچھ نہ کچھ ہیر پھیر یا خوشامد کر کے کوئی نہ کوئی عہدہ حاصل کر لیتا ہے اور پھر اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے اثاثے بناتا ہے۔ مختلف پرمٹس اور بزنسس کے سرکاری لائسنس حاصل کر کے کھلم کھلا خوردبرد کرتا ہے۔ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا وہ تاریخی جملہ آج بھی مشہور ہے موصوف کے حوالے سے کہ ’’میں اس شخص کو پرمٹس دے دے کر تھک گئی ہوں لیکن یہ مانگتے نہیں تھکتا‘‘ ابھی چند ہفتوں پہلے ہی احتساب کے ادارے ’’نیب‘‘ نے مولانا کو طلب کیا ہے کہ وہ اپنی آمدنی سے زائد اثاثوں کی تفصیلات جمع کرائیں۔ علاوہ ازیں حال ہی میں ان کی اپنی جماعت کے دیگر رہنمائوں مولانا شیرانی اور کفایت حسین نے بھی الزام لگایا ہے کہ مولانا خود سلیکٹڈ ہیں اور کرپٹ ہیں۔ اس ہفتے جب فوج کے ادارے آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل بابا افتخار نے ایک پریس کانفرنس کی تو ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ مولانا فضل الرحمن نے اعلان کیا ہے کہ وہ شاید لانگ مارچ راولپنڈی کی طرف کریں جس کا اشارہ جی ایچ کیو کی طرف ہے، تو آپ کی کیا رائے ہے؟ میجر جنرل نے کہا کہ لانگ مارچ راولپنڈی جی ایچ کیو کی طرف کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ہاں اگر وہ آئیں گے تو ہم وہاںانہیں چاہے پانی وغیرہ پیش کریں گے۔ اس جواب پر کئی صحافیوں نے مسکرا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ ان کے ذہنوں میں پاک فوج کی جانب سے گرائے جانے والے انڈین طیارے کے پائلٹ ابھی نندن کا تاثر تھا جسے گرفتار کرنے کے بعد چائے پیش کی گئی تھی اور پوچھا گیا تھا کہ چائے کیسی ہے تو اس نے کہا تھا کہ ’’ٹی از فنٹاسٹک‘‘ آج بھی یہ کلپ ویب پر موجود ہے تصدیق کے لئے۔ یاد رہے کہ پچھلی کئی دہائیوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ فضل الرحمن پہلی مرتبہ نہ اسمبلی میں ہیں اور نہ کسی سرکاری کمیٹی میں ہیں اور سالوں سے اسلام آباد میں سرکاری رہائش گاہ سے نکالے گئے ہیں۔ دل کی بات زبان پر آخر کار آہی گئی۔ یعنی انسان چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے اوپر سے لالچ بھی ایک بہت بُری عادت ہوتی ہے جو جاتے جاتے بھی نہیں جاتی۔ چائے والی میجر صاحب کی بات پر فضل الرحمن نے گلہ کرتے ہوئے فوج کو کہا کہ یہ تو کوئی انصاف کی بات نہ ہوئی کہ آپ خود تو پاپا جونز کا پیزا کھائیں اور ہمیں چائے پانی پر ٹرخا دیں۔ یاد رہے کہ ان کا اشارہ سابقہ آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی جانب تھا جن پر پی ڈی ایم نے الزام لگایا تھا کہ ان کے پاس امریکہ میں بہت سارے پاپا جونز پیزا کی فرنچائزز ہیں۔ یعنی بالفاظ دیگر وہ فوج سے کہہ رہے تھے کہ ان کو اگر پاپا جونز پیزا ٹائپ کسی بزنس کی ڈیل دے دی جائے تو وہ فوج مخالف بیانات سے دستبردار ہو جائیں گے۔ ہائے ہائے لالچ تیری بھی کوئی انتہا نہیں۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے!!
بالآخر دل میں بسی لالچ زبان پر آ ہی گئی لیکن مولوی صاحب سن لو کہ اب بہت دیر ہو گئی تمہیں تو خود پی ڈی ایم کے ن لیگ اور پی پی نے ہی کوڑے دان میں پھینک دیا ہے، وہ کیا کہتے ہیں کہ بہت دیر کی مہربان آتے آتے۔