پاکستان کی تاریخ حادثات سے بھری ہوئی ہے، شاذ ہی ایسا ہوا کہ پاکستانی عوام کو کوئی خیر کی خبر ملی ہو، ملکوں کی زندگی میں اتھل پتھل تو رہتی ہے مگر ایسا نہیں دیکھا کہ عوام حادثات ہی دیکھتے رہیں، زخموں کو اندمال کا وقت ہی نہیں ملا، قوم کو سب سے بڑا دکھ قیادت کا دکھ ہے، قیادت جسے قیادت کہیں کبھی نصیب ہی نہیں ہوئی، بات تلخ ہے مگر کہہ دینی چاہیے کہ اگر قائد زندہ بھی رہتے تو وہ ایک ناکام سیاست دان ہوتے ، سوال تو یہ ہے کہ پاکستان کے خالق حلقہء انتخاب کو ترستے، پھر واسطہ پڑتا وڈیروں، پیروں اور گدی نشینوں سے بگڑی ہوئی نوکر شاہی سے اور ان جز لز سے جو پہلے ہی گھات لگائے بیٹھے تھے ، لیاقت علی خان نے اسی وجہ سے سات سال الیکشن نہیں کروائے جب کہ بھارت میں 1948 میں ہی الیکشن ہو گئے تھے ، پنجاب تحریک میں 1946 میں شامل ہوا مگر پھر اچانک پنجابی CHAUVINISM کی تخلیق ہوئی اور پھر بنگالی اکثریت سے نجات حاصل کر لی گئی مگر قیادت کا کال رہا ۔قوم کو سب سے بڑا دھوکہ بھٹو نے سوشلزم کے سنہرے باغ دکھا کر دیا اور جھوٹا سوشلسٹ ایک مذہبی آئین قوم کے گلے میں باندھ کر چلا گیا، قوم نے تین طویل مارشل لاء دیکھے اور اس دوران وڈیرے، سرمایہ دار، پیر، حج اور گدی نشین طالع آزماؤں کا ساتھ دیتے رہے اور میڈیا ان کے بوٹ چاٹتا رہا، الزام صرف فوج پر نہیں لگایا جا سکتا، ہر آمر کے ساتھ وڈیرے، مولوی، سرمایہ دار اور میڈیا کھڑا نظر آیا جنرلز کے ساتھ ججز وڈیرے، جاگیر دار اور صحافی بھی جزلز کی مدد کرتے رہے اگر یہ حلقے ساتھ نہ دیتے تو جنرلزکو آگے بڑھنے کی ہمت نہ ہوتی، ہم ہر گز نواز شریف اور بے نظیر کی سیاست کو ENDORSE نہیں کرتے یہ دونوں بھی COMPROMISED تھے ہوس اقتدار کے مارے، بے نظیر کو دونوں بار حکومتیں امریکہ کے ایما پر ملیں اور نواز شریف جنرلزکا پراجیکٹ تھا، نواز شریف ایک بار واشنگٹن میں یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ کیا چیز ہے جو بے نظیر امریکہ کو دے سکتی ہے اور ہم نہیں دے سکتے اور یہ بات کس سے چھپی ہوئی ہے کہ معاشی تباہی نواز شریف اور بے نظیر کے دور میں ہی ہوئی یہ درست ہے کہ پاناما کیس کا فیصلہ غلط تھا، عمران کو تھرڈ فورس کے طور پر لایا گیا اگر 2024 کا الیکشن غلط تھا تو 2018 کا الیکشن بھی غلط تھا، اس وقت بھی مینڈیٹ چھینا گیا تو اس بار بھی مینڈیٹ چھینا گیا، دیانتداری کا تقاضا ہے کہ اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہیے مگر اس ملک میں سچ کون بولتا ہے کلمہ اور درود پڑھ کر جھوٹ بولنا سیاست دانوں کا پرانا وتیرہ ہے، ہم سوال اٹھاتے رہے ہیں کہ وہ کون سا وزیر اعظم تھا جو واقعی وزارت عظمیٰ کا صحیح حقدار تھا قوم پر دو وزیر اعظم باہر سے لا کر مسلط کر دئے گئے ، جب کسی بھی سیاست دان کی اہلیت کا کوئی پیمانہ ہی نہیں تو یہ بھی ہوا کہ جونیجو چودھری شجاعت اور جمالی کو بھی وزیر اعظم بنا دیا گیا، یہ سب کچھ ٹرائیکا کی مرضی سے ہوا جنرلز، مولوی اور وڈیرہ، ایوب خان، ضیا الحق اور مشرف کا ساتھ دینے والے کون تھے ، ہم بہت ادب سے انصافین سے پوچھتے رہے ہیں کہ عمران کے CREDENTIALS کیا ہیں سوائے اس کے کہ وہ فوج کے کاندھوں پر سوار ہو کر آئے اور یہ اجازت دی کہ ان کی جگہ فوج ان کے معاملات چلاتی رہی جس کا اعتراف عمران خود کئی بار کر چکے ہیں، جب عمران کی کوئی ACCOMPLISHMENTS ہی نہیں تو پھر کس بات کا شور شرابہ اس پر یہ سینہ زوری کہ ہم بات صرف ESTABLISHMENT سے کرینگے ، پاکستان کا سوشل میڈیا جھوٹ بولنے اور گالی گفتاری کا ایک میڈیم ہے جہاں دلیل سے بات نہیں ہو سکتی، آج الیکٹرانک میڈیا بھی سوشل میڈیا کا اسیر نظر آتا ہے پاکستان کا MAIN STREEM MEDIA یہ سوال نہیں اٹھا رہا کہ انصافین کا شور شرابہ غلط ہے اس میڈیا نے کبھی غلط اور صحیح کے درمیان فرق رکھا ہی نہیں ، تازہ ترین صورت یہ ہے کہ بشریٰ بی بی ضمانت پر رہا ہو چکی ہیں اور انہوں نے ۲۴ نومبر کے حوالے سے احکامات جاری کرنا شروع کر دئے ہیں کہ ۲۴ نومبر کے دھرنے کے لئے انتظامات کئے جائیں ہر ممبر قومی اسمبلی دس ہزار اور ہر ممبر صوبائی اسمبلی پانچ ہزار بندے لے کر اسلام آباد پہنچیں ایک اندازے کے مطابق پی ٹی آئی کے ممبران قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی تعداد ہے ان کو احکامات کے مطابق ۲۷ لاکھ افراد کو باہر نکالنا ہوگا جو ممکن ہی نظر نہیں آتا جو اجلاس بشریٰ بی بی نے بلائے ہیں۔ ان سے پی ٹی آئی کی صف اول کی قیادت غائب رہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ممبران قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کو وہ اخراجات خود برداشت کرنے ہونگے جو لوگوں کو اسلام آباد لانے پر صرف ہونگے ، یہ ممکن ہی نہیں اس بات پر بھی غور کر لینا چاہیے کہ بشریٰ بی بی ہدایات جاری نہیں کر رہی ہیں بلکہ فلاپ وہ احکامات جاری کر رہی ہیں ، احکامات کا لفظ الیکٹرانک میڈیا پر بھی استعمال ہو رہا ہے اور پارٹی کا کوئی لیڈر اس کی نفی نہیں کر رہا، یہ جمہوری روایات کے خلاف ہے، اسد طور ، مطیع اللہ جان ، اور ڈاکٹر مالک کچھ بھی کہیں مگر سنجیدہ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ۲۴ نومبر کا شو ایک شو ہوگا، یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اس فلاپ شو کے بعد کتنے لوگ پی ٹی آئی میں رہ جائینگے اس کے بعد یہ سوال بہت اہم ہو جاتا ہے کہ بشریٰ بی بی کے یہ احکامات کیا پارٹی کو برباد کرنے کے لئے کافی نہیں، گٹر میڈیا کا یہ پرانا وطیرہ ہے کہ وہ ملکی مسائل کا حل انہیں سے پوچھتے ہیں جو مسائل بناتے رہے ہیں، ۲۴ نومبر کے حوالے سے میڈیا پر یہ تو پوچھا جا رہا ہے کہ کامیاب ہوگا یا نہیں اس بات پر بات نہیں ہو رہی کہ احتجاج ملک کو کتنا نقصان پہنچا رہے ہیں پختونوں نے تو الجہاد الجہاد کے نعرے لگا دیئے مگر یہ نہیں بتایا کہ جہاد کس کے خلاف سیاست کا کام WISDOM سے چلتا ہے۔ اگر سیاست یلغار کرنے ، حملہ کرنے اور طاقت کے استعمال کا نام ہوتا ممالک کی فوجیں ہی کام چلاتیں۔ چرچل نے کہا تھا کہ کارِ سیاست نازک کام ہے اور اس کو فوج کے جنرلز پر نہیں چھوڑا جا سکتا، عمران کی سیاست کا جائزہ لیں تو اس میں عمران پارلیمانی طرز سیاست پر یقین نہیں رکھتے ۔عمران جب سے ممبر قومی اسمبلی بنے ہیں تب سے ہی وہ کبھی اسمبلی نہیں گئے کسی پارلیمانی کمیٹی کے ممبر نہیں بنے اور نہ ہی ان کو ان کمیٹیوں طریقہ کار کا اندازہ ہے، اقتدار میں فوج کی مدد سے آئے دوران اقتدار ان کو مکمل طور پر عدلیہ اور فوج کی حمائیت حاصل رہی، وہ اپوزیشن لیڈرز کو جیلوں میں ڈالنے کی دھمکیاں دیتے رہے، جیلوں میں ٹھونسا بھی ، اس پورے منظر پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ طاقت پر ہی یقین رکھتے ہیں ، ہندوستان پر جتنے حملہ آور آئے وہ افغانستان اور پختونخوا کے راستے ہی آئے لہٰذا صدیوں کے اس تجربے نے ان کا ذہن بنا دیا ہے کہ ہر مسئلہ کا حل ہتھیار ہے، ایک کتاب میں لکھ ہے کہ افغان اور پختون خطے کی دیگر اقوام پنجابی، سندھی ہندوؤں وغیرہ کو بزدل سمجھتے ہیں، مگر ان زمانہ بدل چکا ہے، اب جنگیں بھی کم ہوتی ہیں یلغار حملوں اور ملکوں پر قبضہ کرنے کا زمانہ بھی گیا، پختونوں کو بارہویں اور تیرہویں صدی کے ماحول سے باہر آجانا چاہیے، تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں، افسوس کی بات ہے کہ پی ٹی آئی اپنی سوچ ملک پر مسلط رکھنا چاہتی ہے اور اس کے لئے مذہبی تاویلیں بھی لاتی ہے اور اس بات پر غور نہیں کرتی کہ وہ تحریف شدہ اسلام جو پاکستان، افغانستان اور ایران میں ہے وہ کسی کام کا نہیں اور نہ مسلم ممالک اس کو مانتے ہیں NOVEMBER 24کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس تاریخ کو جنرل فیض حمید کو سزا ہو جائیگی یہ دھر نا جنرل فیض حمید کی سزا ر کوانے کے لئے ہے کیا پی ٹی آئی اس بات کا اعتراف کر رہی ہے کہ جنرل فیض حمید ریٹائر منٹ کے بعد بھی پی ٹی آئی کو چلاتے رہے ہیں، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جنرل فیض حمید کی سزا کے بعد عمران کا بھی ملٹری ٹرائل ہوگا، کیا یہی وہ امور ہیں جس کی بنا پر اتنے بڑے دھرنے کی تیاری آناً فاناً کرنی پڑی ہے کیا اسی سزا کو رکوانے کے لئے پنجاب کے جوانوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ باہر نکلیں اور سزار اور سزار کوانے کے لئے اپنا خون دیں۔ پختونخوا کئی بار اسلام آباد پر چڑھائی کر چکا مگر ناکام رہا سمجھا جا رہا تھا کہ اگر پچاس ہزار ہتھیار بند پختون اسلام آباد پر حملہ آور ہوئے تو ان کو سنبھالا نہیں جا سکتا مگر ایسا نہیں ہوا اور اب ان کا انحصار پنجاب کے جوانوں پر ہے اب دیکھنا ہے کہ بشریٰ بی بی کی اس سیاسی FUTILE EFFORT میں پنجاب نکلتا ہے یا نہیں، کیا پنجاب جنرل فیض حمید کی سزا رکوانے میں اپنا کردار ادا کرے گا، بہت جلد وقت یہ فیصلہ سنا دے گا۔
0