انسان یا درندے ؟

60

بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا!یہ تو ہر پاکستانی کے علم میں ہے کہ پاکستان پر حکومت ریموٹ کنٹرول سے ہورہی ہے اور وہ بھی لندن سے۔نہیں، یہ مت سمجھئے گا کہ ہمارے پرانے بدیسی آقا، یعنی بزعمِ خود پاکستانی ‘اشرافیہ’ کے اجداد کی زبان میں ‘سرکارِ انگلشیہ” کے حکم و ایما پر حکومت ہورہی ہے۔ نہیں، بلکہ پاکستان کا ایک مفرور مجرم، سے ملک کی عدالتِ عالیہ نے تا حیات کسی بھی منتخب کردہ عہدہ کیلئے نا اہل قرار دیا تھا، وہ لندن میں بیٹھا ہوا پاکستان پر حکومت کر رہا ہے کیونکہ برائے نام حکومتی مافیا کا جو سربراہ ہے، شہباز نامی، وہ اس مفرور مجرم کا برادرِ خورد ہے اور اسی نے پچاس روپے کے اسٹیمپ پیپر پر لاہور ہائی کورٹ کو ضمانت دے کر اپنے بڑے بھائی کا علاج کی غرض سے لندن فرار ہونے کا بہانہ فراہم کیا تھا۔ گیا تو وہ بڑا بھائی چند ہفتوں کیلئے تھا لیکن چار سال ہونے کو آئے وہ پاکستان کا رخ نہیں کرتا۔ چھوٹے بھائی کی حکومت ہے لیکن پھر بھی ایسا کائر ہے کہ پاکستان کے نام سے اسے خوف آتا ہے، عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا نام لو تو اس پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں اس کا سکہ چل رہا ہے اور چھوٹا بھائی ملک کی تقدیر کا ہر فیصلہ اس مفرور اور مجرم ، سزا یافتہ، بڑے بھائی سے پوچھ کے کرتا ہے۔ انگلستان کے نئے بادشاہ، چارلس سوئم کو پاکستانی سیاست اور حکمرانی کی ان بھول بھلیوں اور اقتدار کی غلام گردشوں کا غالبا” کوئی علم نہیں ہوگا ، کوئی سن گن نہیں ہوگی لیکن پاکستان کی اشرافیہ، جو در اصل رذیلیہ ہے، کی صفوں میں موجود اپنے وفادار غلاموں کی انہیں یقینا” شد بد ہوگی اسی لئے تو انہوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی غلام شہباز کو لندن یاترا کا ایک بہانہ، ایک جواز فراہم کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا۔ شاہ چارلس سوئم کی تاجپوشی، جو لندن میں 6 مئی کو تزک و احتشام کے ساتھ پایہء تکمیل کو پہنچی، جسمیں برطانیہ کے دوست سربراہانِ مملکت اور ان کے ساتھ برطانوی دولتِ مشترکہ کے سربراہانِ مملکت کو مدعو کیا گیا تھا۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں صدر عارف علوی ملک کے سربراہ ہیں اور ان ہی کا استحقاق تھا کہ وہ لندن میں بادشاہ کے جشنِ تاجپوشی میں ملک کی نمائندگی کریں لیکن یہ بات نہ ملک پر قابض مافیا کیلئے قابلِ قبول تھی نہ اس کے وردی پوش سہولت کاروں کیلئے۔ سو برطانوی حکومت کے ہاتھ پیر جوڑے گئے، منت سماجت کی گئی کہ ملک پر حکمراں تو وزیرِ اعظم ہے، اس کے باوجود کہ وہ چمار ہے، چور ہے لیکن ، سرکار، آپ کا غلام ہے، اس رذیلیہ کا نامور رکن ہے جو آپ کی آج بھی خدمت کررہی ہے چاہے یہ خدمت پاکستان کے سارٹھےتئیس کروڑ عوام کی امنگوں اور مفادات سے کتنی ہی متصادم ہو لیکن رذیلیہ تو آج سے نہیں دو سو برس سے آپ کی غلام ہے۔ آپ کیلئے اس کے اجداد نے ملت فروشی کی اور یہ بھی آجتک آپ کیلئے ملک و قوم کو قربان کرنے کیلئے تیار ہیں۔ آزما کر دیکھ لیجئے کہ ان کی رگوں میں آپ سے وفاداری کا خون ہی گردش کررہا ہے۔ تو، سرکار، آپ بھی ان غلاموں کو وفاداری کا کچھ تو صلہ دیجئے اور یہ کیجئے کہ آپ کی تاجپوشی کا رقعہ صدر عارف علوی کے بجائے غلام ابنِ غلام ابنِ غلام، یعنی برائے نام وزیرِ اعظم شہباز کے نام آجائے۔
سرکارِ انگلشیہ کا دل پسیج گیا اور انہوں نے غلام لوہار کے بیٹے شہباز کو تاجپوشی کے جشن میں پاکستان کی نمائندگی کیلئے مدعو کرلیا اور رقعہ پاتے ہی نامی چور اور اٹھائی گیرہ شہباز اپنے پورے کنبے اور ٹبر کو سمیٹ کر خصوصی طیارے میں لندن کی طرف پرواز کرگیا۔ عینی شاہدین نے ہی بتایا کہ لندن پہنچنے پر یہ مناظر دیکھے گئے کہ پاکستانی وزیرِ اعظم کے خصوصی طیارے سے نوزائیدہ بچوں کے اسڑالرز بھی اتارے جارہے تھے، گویا شہباز کے بچوں کے بچے بھی اپنے ارضی خداؤں کے سامنے کورنش بجالانے کیلئے لندن یاترا پر پہنچے ہوئے تھے۔ یہ ہوتا ہے نا غلامی کا خمیر، رگوں میں دوڑنے والا بندگی کا خون ۔
شہباز یا اس کے ہمراہیوں اور حاشیہ برداروں کو اس سے کیا غرض کہ جو ملک کشکولِ گدائی لئے ہوئے دربدر بھیک مانگتا پھر رہا ہے لیکن اس کو دوستوں کی چوکھٹ سے بھی دھتکارا جارہا ہے، اس کی گراوٹ کا یہ عالم ہے کہ دوست بھی اس کی نیت پر اعتبار کرنے کیلئے آمادہ نہیں۔ ملک کے عوام روز بہ روز بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ہاتھوں نانِ جویں کو ترس رہے ہیں اور مہنگائی کے بوجھ نے ان کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ لیکن شہباز ان سب حقائق سے لاتعلق جہاز بھر کے اپنے آقا کی خوشنودی کیلئے لندن یاترا پر نکل پڑا۔ پاکستان کے خزانے پر اس عیاشی کا کیا بوجھ پڑے گا اس سے شہباز یا اس کے حاشیہ برداروں کو کوئی دلچسپی نہیں۔ وہاں تو زعم یہ ہے کہ ہم حاکم ہیں اور ملک کے وسائل، چاہے وہ کتنے ہی محدود کیوں نہ ہوگئے ہوں، کتنے ہی سکڑ چکے ہوں، صرف ہمارے لئے، ہماری عیاشیوں کیلئے ہیں اور کسی کو حق نہیں کہ وہ ہم سے ہمارے اللے تللے پر کوئی انگلی اٹھا سکے یا ہم سے سوال کرسکے۔ ہم ملک کے بادشاہ ہیں اور بادشاہ کسی کو جوابدہ نہیں ہوتے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ جس بادشاہ کی تاجپوشی کیلئے یہ غلام ابنِ غلام اپنے پورے ٹبر کو لے کرگیا ہے وہ صرف نام کا بادشاہ ہے جس کے پاس سوائے دکھاوے کے اور کوئی اختیار نہیں۔ لیکن پاکستان میں جو رذیلیہ اقتدار پر قابض ہے اس کے سر پر تاج نہیں ہے ورنہ اختیار توہے جس کا تصور بھی آج کے کسی مغربی بادشاہ یا ملکہ کی پہنچ سے بہت دور ہے۔ شہباز کیلئے بادشاہِ انگلستان کی تاجپوشی میں شرکت تو ویسے بھی لاٹری نکل آنے کے مترادف ہے کہ اس بہانے ملک کے اصل حکمراں، یعنی مفرور مجرم نواز شریف سے ملاقات نصیب ہوگئی۔ اب دو چور بھائیوں میں کیا مشاورت ہوئی اور بساطِ سیاست پر چلنے کیلئے کون کونسی چالیں سوچی گئیں اس کا بھید تو بعد میں کھلے گا جب چمار شہباز بساط پر چال چلے گا لیکن یہ تو وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ جو بھی پیش رفت ہوگی وہ پاکستان اور اس کے مجبور و بیکس عوام کے حق میں نہیں ہوگی۔ اس کا فائدہ، رتی برابر بھی ملک کے نادار اور مفلوک الحال عوام کو نہیں پہنچے گا۔ ہاں فائدہ ہوگا تو حکومت پر قابض رذیلیہ اور اس کے وردی پوش سہولت کاروں اور سرپرستوں کا جو جونکوں کی طرح ملک و قوم سے چمٹے ہوئے ہیں اور خون کا ایک ایک قطرہ چوس لینا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے عوام یہ سب کچھ دیکھ بھی رہے ہیں اور سمجھ بھی رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ حکومتی ٹولہ اب بھی انہیں نعروں سے بیوقوف بنانا اور کھوکھلے وعدوں سے بہلانا چاہتا ہے اسی لئے ان میں یاسیت ، جسے عام بول چال میں فرسٹریشن کہا جاتا ہے، بڑھ رہی ہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کیلئے صبح کو شام کرنا کیسا کارِ لاحاصل بن گیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اس قابض حکومتی ٹولے کے پاس ان کے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ حکومت دنیا میں ایسی رسوا اور بدنام ہے کہ کوئی اس پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ۔ آئی ایم ایف اس کی بدنیتی کو جانتے ہوئے اسے قرضے کیلئے لٹکائے ہوئے ہے بلکہ بقول شخصے آئی ایم ایف نے اس حکومت کو ٹرک کی سرخ بتی کے پیچھے لگایا ہوا اس پر تضاد یہ کہ دنیا اس حکومت اور اس کے کارندوں پر تھوک رہی ہے لیکن یہ کارندے شرم و غیرت سے ایسے عاری ہیں، اس قدر بے شرم اور بے حمیت ہیں کہ دنیا کو اپنی پوچ اور لچر حرکتوں سے اور موقع فراہم کررہے ہیں کہ وہ پاکستان کو جگ ہنسائی کا ہدف بنائے ریے۔
بلاول بھٹو زرداری جیسا ناتجربہ کار لونڈا پاکستان کا وزیرِ خارجہ ہے یہی بات کیا پاکستان کی جگ ہنسائی کیلئے کم تھی لیکن یہ جانتے ہوئے بھی کہ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور پاکستان کو مطعون کرنے اور ذلیل و خوار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا وہ گوا، بھارت ، میں ہونے والی اس علاقائی کانفرنس میں شرکت کیلئے دوڑا چلا گیا جہاں بھارتی حکام اس کیلئے اور اس کے ملک کیلئے چھریاں تیز کرکے بیٹھے ہوئے تھے۔ بلاول کی جو بے عزتی میزبانوں نے کی وہ اس سے زیادہ پاکستان کی ہتک تھی، پاکستان کی رسوائی تھی۔ ٹھیک ہے کہ بھارت نے ایک مہمان کی بے عزتی کرکے اپنے نیچ ہونے کا وافر ثبوت فراہم کیا لیکن کیا پاکستان میں برسرِ اقتدار ٹولے میں کوئی ایسا غیرت مند نہیں تھا جو بلاول کو بھارت جانے سے روک سکتا؟پاکستان کے عوام یہ سب دیکھ رہے ہیں اور بے بس ہیں لیکن بے بسی ان میں وہ کر رہی ہے جو اس قول کے مصداق ہے کہ تنگ آمد، بجنگ آمد۔ سو اس کا ثبوت ایک یاسیت زدہ عوامی جتھے نے یہ دیا کہ ایک غریب تحریکِ انصاف کے کارکن کو محض اس سبب سے بیدردی اور انتہائی شقاوت کے ساتھ قتل کردیا کہ اس نے عمران خان سے اپنی والہانہ الفت کے اظہار میں یہ کہہ دیا تھا کہ میں عمران کی پیغمبروں کی طرح عزت کرتا ہوں۔ مانا کہ اس نے جوشِ محبت میں کچھ زیادہ ہی کہ دیا تھا جو اسے نہیں کہنا چاہئے تھا لیکن کیا اس کا جرم اس قدر سنگین تھا کہ اسے درندگی کے ساتھ، بہیمانہ ، قتل کردیا جائے؟ اور وہ بھی ان پیغمبروں کے نام پر جن میں کسی نے اللہ کے اس فرمان کی نفی نہیں کی کہ ایک معصوم و بیگناہ کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے۔ پاکستان میں بڑھتا ہوا مذہبی جنون ملک میں بڑھتی ہوئی جہالت، علم کے فقدان اورمذہب کی انتہائی غلط اور فتنہ پرور تاویلات پر دلالت کرتا ہے جو کسی بھی مہذب معاشرہ کی تباہی اور بربادی کی شروعات ہوسکتی ہے۔ پاکستان انسانوں کی بستی ہے، درندوں کی نہیں لیکن اس کاشعور نہ ملک کے یاسیت زدہ عوام کو ہے اور نہ ہی اس حکومتی ٹولے کو جو صرف اور صرف اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے ملک و قوم کو قربانی کا بکرا بنانے پر تلا ہوا ہے۔ پاکستان کا مستقبل تاریکی میں ہے یہ کہنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ کشتی بھنور میں ہے اور ساحل بہت دور۔ پتوار اب ملک کی عدالت ِعالیہ کےہاتھ میں ہے۔