میرے سجیلے جرنیلوں، پاکستان کو بچائو!

57

پاکستان کی فوج کی اعلیٰ قیادت نے گذشتہ 75سال میں جہاں بہت سی بیش قیمت جانیں پاکستان کی سلا متی کے لیے دی ہیں، ان سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ یہ کہنا کہ یہ ان کا فرض تھا یا نوکری کا تقاضا تھا، صحیح نہیں ہو گا۔ کیونکہ ہر سپاہی کا مشن ہوتا ہے کہ اپنی جان کی حفاظت کرے اور دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائے۔لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اپنی جان کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتا، کیونکہ یہی اس کی زندگی کا مقصد اعلیٰ ہوتا ہے۔یہ مقصد ایک ادنیٰ سپاہی سے لیکر فوج کے سپہ سالار تک، ہر فرد کا ہوتا ہے۔ذرا غور کیجئے کہ آج پاکستان کو فوج سے کونسی قربانی چاہیے؟ آج پاکستان ایک ایسے دو راہے پر کھڑا ہے جس پر ایک طرف ایک بہتر مستقبل کی خوشگوار جھلک نظرآ رہی ہے اور دوسری طرف ایک تاریک اور تباہ حال مستقبل ہے جو ان لوگوں کی قیادت سے ملے گا جو آج پی ڈی ایم کی امپورٹڈ حکومت بنائے بیٹھے ہیں۔ یہ حکومت چونکہ ایک سازش کے ذریعے بنی ، اس میں شامل وہ لوگ ہیں جنہیں عوام نے گذشتہ انتخابات میں نا منظور کر دیا تھا۔ اس لیے کہ یہ پاکستان کی ان دو بڑی سیاسی جماعتوں اور کچھ شکست خوردہ افراد پر مشتمل ہے جو پاکستان کے جسم سے آخری قطرہ بھی نچوڑنا چاہتے ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔اگر بغور دیکھا جائے تو پاکستان کوگذشتہ75سال میں ہر اس شخص اور ادارے نے لوٹا ہے، جسے پاکستان کے سرکاری خزانے سے تنخواہ ملتی ہے۔اور اس کی بڑی وجہ وہ حکمران تھے جنہوں نے نہ صرف خود سرکاری مراعات کا فائدہ اٹھا کر دولت کمائی، انہوں نے دوسروں کو بھی لوٹ مار کی کھلی چھٹی دی۔ تقریباً ہر سرکاری ملازم نے بذات خود یا افسران سمیت رشوت سے اپنی جیبیں بھریں۔ اس میں نقد، زمینیں، جائدادیں، تحائف اور دیگر اثاثے شامل تھے۔ یہ سب جانتے ہیں اور اس پر تحریری ثبوت بھی ہیں کہ اس غیر حلال نعمت غیر مترقبہ سے ہماری افواج کی اعلیٰ قیادت نہ صرف فیض یاب ہوئی بلکہ اس نے اپنے اثر و رسوخ سے اور سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ راقم اس وقت ان کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔بڑی بڑی رقمیں لینے والوں نے تو جہاں تک ممکن ہو سکا اندرون و بیرون ملک جائدادیں بنائیں ، بیرون ملک بینکوں میں بڑی بڑی رقمیں جمع کیں، اور قیمتی جواہرات، گھڑیاں اور ملبوسات سے اپنے صندوق بھرے۔ان سب حرکات کے نتیجہ میں یہ اشرافیہ امیر سے امیر تر ہوتے گئے اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے گئے۔ اور ملک کا خزانہ خالی سے خالی تر ہوتا گیا۔
اس میں کیا شک ہے کہ پاکستان کے دشمن بیرونی کم اور اور اندرونی زیادہ ہیں۔ وہ تمام لوگ اس کے دشمن ہیں جنہوں نے اپنے عہدوں اور مراتب کے جائز اور ناجائز استعمال سے اپنے اور اپنے اداروں کو فائدہ پہنچایا۔ جائز اس لیے کہ وہ جائز تو تھا لیکن مناسب نہیں تھا۔ابھی جنرل عاصم منیر نے اپنی تقریر میں ذکر کیا کہ وہ پاکستان کے دشمنوں کے خلاف لڑیں گے خواہ وہ بیرونی ہیں یا اندرونی۔ یہ بڑی اچھی بات ہے۔ کیونکہ ہمارا ملک کرپٹ سیاستدانوں، اورسرکاری ملازموں سے اٹا پڑا ہے جنہوں نے ملک کے وسائل کی چوری کی اور نا جائز اثاثوں سے مالا مال ہو گئے۔ اور بلا شبہ یہ پاکستان کے دشمن ہیں۔لیکن ہو کیا رہا ہے؟ سنتے ہیں، خدا کرے کہ یہ غلط ہو، کہ فوج کے بڑے عہدیدار اور پی ڈی ایم ملکر تحریک انصاف اور اس کے قائد عمران خان کے خلاف سپر آزما ہیں؟ یہ تو بظاہر پاکستان کے دشمنوں کا اتحاد پاکستان کے خیر خواہوں کے ساتھ ہو رہا ہے؟اگر ایسا ہے تو بہت غلط ہے۔ کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ ہمارے بیرونی دشمن اس صورت کا فائدہ اٹھائیں گے؟ ہو سکتا ہے کہ اشرافیہ ، ہمارے سیاستدان اور بڑے بڑے جرنیل یہ سوچ کر بیٹھے ہیں کہ برے سے برا وقت آیا تو وہ جہازوں میں بیٹھ کر بیرون ملک بھاگ جائیں گے؟ اور چھوٹے اور ایماندار افسر وں کو، جوانوں سمیت، دشمنوں کے حوالے کر جائیں گے؟ کم از کم انکا منصوبہ یہ ہو سکتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ بچ نکلیں؟ اس وقت پاکستان کو اپنی فوج اور اس کے قائدین سے قربانی کی توقع ہے۔ وہ توقع یہ ہے کہ فوج در حقیقت سیا ست سے لا تعلقی اختیا کرے۔ اور اس بات سے نہ ڈرے کہ نئی حکومت ان لوگوں کے خلاف قدم اٹھائے گی جنہوں نے ملک کو لوٹا۔اگر ایسا وقت آئے تو فوجی جرنیل اپنے ناجائز اثاثے حکومت کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہو جائیں اور یہی وہ قربانی ہے جو پاکستان ان سے چاہتا ہے۔ان کی جان کی نہیں، ان کے نا جائز اثاثوں کی قربانی۔ کیا یہ اتنی مشکل بات ہے؟ اگر آپ ملک کے لیے اپنی جان دے سکتے ہیں تو کیا اس کے لیے اپنا وہ مال نہیں دے سکتے جو آپ کو جائز ذرائع سے نہیں ملا؟ وقت آنے پر آپ نئی حکومت سے سودا کر سکتے ہیں کہ اگر آپ وہ تمام اثاثے واپس کر دیں گے جو آپ نے اپنی فوجی حیثیت کو استعمال کر کے بنائے تو کوئی شک نہیں کہ معاملہ یہیں ختم ہو جائے؟ اور آپ نہ صرف اپنے عہدوں پر بھی قائم رہیں اور با عزت ریٹائر ہوں؟ عمران خان کے پیچھے عوامی طاقت ہے اور اس کا نئی حکومت بنانا یقینی ہے۔اور یہی وقت ہے کہ اس کے ساتھ ایک باہمی سمجھوتہ کر لیں تا کہ بعد میں کوئی تنازعہ کھڑا نہ ہو۔
اگر آپ اپنی راجدھانی کو جو کہ عوام کا حق مار کر بنائی گئی ہے بچانے پر مصر رہیں گے تو آپ پاکستان کے ساتھ اپنے عہد کو توڑیں گے جو آپ نے عہدہ سنبھالتے وقت کیا تھا۔اور عین ممکن ہے کہ عوام آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ؟ ملک خانہ جنگی کی طرف چل پڑے جس میں آپ کا فائدہ ہو گا نہ ملک کا۔
کیا ہماری بہادر افواج کے قائدین کو معلوم ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہے۔ اسے اب مالی طور پر کھڑے ہونے کی سکت باقی نہیں رہی۔ آپ بیرونی قرضہ جات کو چھوڑیں، پاکستان صرف اپنے ملکی اداروں سے اتنا قرضہ لے چکا ہے کہ اسے اور قرض ملنا اس صورت میں ہو گا کہ وہ اپنے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال لے۔ پاکستانی افواج کو معلو م ہو گا کہ ہر سال پاکستان کی مالیہ کی وصولی اتنی نہیں ہوتی کہ پاکستان اپنے قرضوں کی اقساط ادا کر سکے یا نظام نظم و نسق کے اخراجات پورے کر سکے۔ قرضوں کی اقساط کے بعد پاکستان کو دوسرا بڑا خرچہ اس کی دفاعی اخراجات ہیں جو کھربوں میں ہیں۔ پاکستان صرف اپنے دفاع کے لیے بھی قرضہ لیتا ہے اور ہر سال قرضے سے فوج کے مطالبات پورے کرتا ہے۔سب مل ملا کر جون 2022 تک پاکستان ساٹھ کھرب روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔ جن میں سے تقریباً 12کھرب تو گذشتہ مالی سال میں بڑھا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اتنا قرض بڑھنے کی وجوہات میں سر فہرست روپیہ کی مالیت میں کمی، اور بیرونی قرضہ جات کی ادائیگی ہیں۔ جو بات کھل کر نہیں بتائی جاتی کہ دفاعی اخراجات پاکستان کی استطاعت سے باہر ہو چکے ہیں۔سٹیٹ بینک کے مطابق، ساٹھ کھرب میں نصف سے زیادہ تو حکومتی اندرونی قرضہ ہے۔ اور تقریباً 17کھرب بیرونی قرضہ ہے۔ ان کے علاوہ آئی ایم ایف کا 1.4 کھرب ، شامل ہے۔
جلدی سے بیرونی قرضوں پر بھی نظر ڈالیں۔ ستمبر 2021 کی تاریخ تک،چین کا بائیس ارب ڈالر جس میں وہ قرضے بھی شامل ہیں جو CPEC کی وجہ سے ملے۔آئی ایم ایف کا 6.6 ارب ڈالر، عالمی بینک 11.8 ارب ڈالر، 6.5 ارب ڈالر جو ایشیا ڈیویلپمنٹ بینک کے دینے ہیں، اور پیرس کلب جس میں مختلف ممالک مل کر قرضہ دیتے ہیں، ان کا گیارہ ارب ڈالر سے زیادہ کا قرضدار ہے۔ تو میرے فوجی بھائیو، کس برتے پر تتا پانی؟اگر آپ حقائق کا جان لیں تو آپ حکومت سے ایک پائی بھی نہیںلے سکتے۔ اگر سچ پوچھیں تو فوج کو اپنی نفری کم سے کم کر لینی چاہیے جو معمولی سرحدی چپقلشوں اور دہشت گردوں سے نپٹنے کے لیے کافی ہے۔ اور اس بچی کھچی فوج کا خرچہ آپ کی جو اتنی بڑی صنعتی راجدھانی ہے اس کے منافع سے پورا کیا جا سکتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ جب آپ دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی چھوڑ دیں گے تو دہشت گردی قصہ پارینہ بن جائے گی۔باقی رہ گیا بھارت تو اس کے لیے ہماری سب سے بڑی قوت وہ ایٹمی اثاثے ہیں جو خدا نہ کرے کہ کبھی استعمال کرنے پڑیں۔ یہ اتنے بیرونی اور اندرونی قرضے کب اور کیسے ادا ہونگے؟ خصوصاً جب کے ہماری درآمدات ہماری برآمدات سے کہیں زیادہ ہیں۔ اگر کسی وجہ سے بیرون ملک پاکستانی اپنی ترسیلات کم کر دیں تو ہمیں کہیں سر چھپانے کی جگہ نہ ملے۔ ہماری حکومتوں کو، بد قسمتی سے یہ ادراک ہی نہیں کہ وہ کس قدر مشکلات کا شکار ہیں۔ سب سے بڑی بات جس نے پاکستان کی معیشت کو تباہ کیا ہے وہ عوام کو ساتھ لیکر نہ چلنے کی روایت ہے۔پاکستان وہ رعایتیں عوام کو دینا چاہتا ہے جو ملک برداشت کرنے کے قابل ہی نہیں۔صرف اس لیے کہ حکومت کہیں عوام میں غیر مقبول نہ ہو جائے؟ اب آخر کار عوام کو حقیقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو چالیس فیصد افراط زر کی شکل میں یعنی مہنگائی کی صورت میں انہیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔موجودہ حکومت بجائے اس کے کہ مسائل کو حل کرے، وہ عوام کو سیاسی شعبدہ بازیوں میں الجھا رہی ہے ۔ اسے بجائے عوام کے اپنی کرسیوں کو بچانے کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کشتی ڈوب رہی ہو اور ملاح بجائے اس میں سے پانی نکالنے اور اس کے سوراخ بھرنے کے آپس میں گتھم گتھا ہو جائیں۔ہماری نظر میں پاکستان کی فوج کا ادارہ ایک ایسا ادارہ ہے جو مشکل کے وقت پاکستان کے کام آیا ہے۔ اب اس سے زیادہ مشکل وقت اور کیا ہو گا جو اب ہے؟ اگر پاکستان کی فوج ملک کے لیے ایک عظیم قربانی دے سکتی ہے، تو وہ جان کی نہیں، مال کی ہے۔ اور یہ صرف فوج ہی نہیں، ہر اس سرکاری افسر سے درخواست ہے کہ پاکستان کو بچانے کے لیے اپنی ضرورت سے زیادہ جو بھی اکٹھا کیا ہے وہ سرکاری خزانے میں جمع کروا دے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ سٹیٹ بینک ہر سال دو سال کے بعد شرح سود کیوں بڑھاتا ہے؟ اب یہ شرح غالباً بیس فیصد تک جا پہنچی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت نے کو پاکستانی بینکوں سے قرضے لیے ہیں ان پر اس شرح سے سود کا خرچہ برداشت کرنا ہو گا۔ یہ بوجھ اتنا زیادہ ہے کہ صرف سود کی ادائیگی کے لیے قومی خزا نے کو مزید قرضے لینے پڑیں گے جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ایک اچھی بات ہے کہ اندرونی قرضہ زمینوں اور جائدادوں کی فروخت سے اتارے جا سکتے ہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ سرکاری زمین فوج کے قبضہ میں ہے، جسے وا گذار کروا کر پاکستان ایک بھیانک انجام سے بچ سکتا ہے؟پاکستان جس بحران سے گذر رہا ہے، اس کے لیے ہر ایک کو قربانی دینی ہو گی۔ وگرنا، دانشمند کہہ رہے ہیں،
؎ اٹھو وگرنہ حشر ہو گا نہ پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا!
پاکستانیوں کو اپنی فوج سے بڑی امیدیں ہیں۔ وہ نہ صرف سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں، وہ پاکستانیوں پر برا وقت آنے پر بھی مدد دیتی ہیں۔ اب ہم دعا کرتے ہیں کہ وہ اس نازک وقت میں بھی قوم کا ساتھ دیں جب کہ معاملہ بظاہر ایک بڑی کھائی کی طرف لے جا رہا ہے۔اگر فوج نے سمجھداری کا مظاہرہ کیا اور اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال دیا تو پاکستان کی ٹرین پٹری پر چڑھ جائے گی جس میں سب ہی پھلیں پھولیں گے۔