انتخاب
قومی بھولی ہو گی ماضی کی بات
احتساب و احتساب و احتساب
بچے بچے کی زباں پر آگیا
انتخاب و انتخاب و انتخاب!
قارئین کرام! تین ہفتے قبل ہم نے برطانیہ میں رنگدار افراد سے تعصب کا ذکر کیا تھا جس کے ڈانڈے دور غلامی سے جا ملتے ہیں۔ یہ دیکھ کر ہمیں بہت دکھ ہوا کہ آج بھی بعض افراد اور اداروں میں تارکین وطن اور رنگدار افراد کے ساتھ متعصبانہ سوچ جاری ہے جس کا حالیہ مظاہرہ مانچسٹر یونیورسٹی میں دیکھا گیا جہاں اسباق اور سیمینار کے دوران نسل پرستانہ تعصب کا مظاہرہ کیا گیا اور سیاہ فام طلبہ پر متعصبانہ جملے Slursکسے گئے اورآج کے دور میں بھی اس نیرنگی پر سیاہ فام طلبہ نے بھرپور احتجاج کیا۔ خاتون استانی نے اس رویے پر معذرت چاہی لیکن طالبہ نے یہ معذرت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور مطالبہ کیا کہ اس ذیل میں پورے سیمینار گروپ سے معافی مانگی جائے، یہ مطالبہ پورا نہیں کیا گیا تو صورت حال میں ایک طرح کا کھنچائو پیدا ہو گیا۔ طلبہ نے تجویز دی کہ نصاب میں اس طرح تبدیلی کی جائے کہ اس کی تعلیم کے درمیان کسی طرح کا متعصبانہ اظہار نہ کیا جا سکے۔ یونیورسٹی نے اس شکایت اور مطالبے پر تفتیش شروع کر دی ہے۔ رنگدار طلبہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے فرانسیسی کلاس کے دوران نسل پرستانہ جملے استعمال کرنے پر شکایت کی تھی لیکن اساتذہ نے دوسری اوقات میں بھی اسی طرح کے جملے ادا کئے تو طلبہ نے باقاعدہ احتجاج شروع کیا۔ طلبہ نے بی بی سی کے پروگرام اگر آپ کو علم نہیں IF YOU DONT KNOWسے بات کرتے ہوئے ان متعصبانہ جملوں کی ادائیگی کی تفصیل بتائی۔ ایک طالبہ شیرون کا کہنا ہے کہ جب میں نے متعصبانہ جملہ سنا تو حیرت زدہ رہ گئی۔ شیرون نے بتایا کہ یہ جملہ سن کر جب میں کلاس سے باہر جارہی تھی تو صدمے سے میرا برا حال تھا اور مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ اب بھی اس طرح کے جملے دہرائے جا سکتے ہیں۔ لیکچرر نے مجھ سے کہا کہ نسل پرستی کے بارے میں ناراضگی کے استعمال کے لئے یونیورسٹی کا پلیٹ فارم استعمال نہ کریں۔ ایک اور طالبہ آنیا کا کہنا ہے کہ اس نے بھی جماعت میں وہی متعصبانہ جملہ سنا اور نوبت احتجاج تک پہنچ گئی۔ شیرون نے بتایا کہ اس تمام صورت حال نے مجھے بہت ذہنی تکلیف پہنچائی اور میں اپنی پڑھائی پر پوری توجہ نہیں دے پارہی ۔ برطانیہ میں افریقی ممالک سے سیاہ فام افراد کو غلام بنا کر لانا تاریخ کا حصہ ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا رہا اور سیاہ فام رفتہ رفتہ برطانوی افراد کی طرح پروقار اور آزادانہ زندگی کے حامل ہو گئے۔ حکومت نے قوانین ترتیب دئیے جن کی رو سے کسی رنگدار کے متعلق کوئی متعصبانہ جملہ ادا کرنا جرم ٹھہرایا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد برصغیر کی انگریز حکومت نے اپنی فوج میں ’’چھانٹی‘‘ کی تو صدہا افراد تلاش معاش میں برطانیہ آگئے اور جنگ میں تباہ شدہ برطانیہ کی تعمیر میں بھرپور حصہ لیا چونکہ یہاں تیسری دنیا کے ممالک کی آبادی کو غیر تعلیم یافتہ اور غیر مہذب سمجھا جاتا تھا اور COLONIALذہنیت بھی اہل برطانیہ میں باقی تھی اس لئے دنیا کے دوسرے ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو خصوصاً برصغیر سے آنے والوں کو بہ نظر حقارت دیکھا جانے لگا۔ پاکستانیوں کے لئے ایک لفظ PEKIپیکی تراشہ گیا اور پورے معاشرے میں انہیں پیکی کہہ کر مطعون اور ہراساں کیا گیا۔ تارکین وطن کی آمد پر ایک بہت متعصب ممبر آف پارلیمنٹ ENOCH POWELنے اس تعصب کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مرحوم کا کہنا تھا کہ تارکین وطن اگر یہاں آ کر بسیں گے تو ہماری تہذیب، ہمارے تمدن اور ہماری سوچ کو بدل دیں گے۔ یہ ہمارے ذرائع پر قابض ہوجائیں گے۔ اینوک پاول اور ان کے ساتھیوں کی بات مان کر ایک مدت تک مقامی افراد رنگدار تارکین وطن سے مفائرانہ سلوک کرتے رہے لیکن جب عوام نے دیکھا کہ یہی تا رکین وطن ان کے ذرائع آمدورفت ان کے ہسپتال اور ان کے فیکٹریز چلارہے ہیں تو رفتہ رفتہ ان کی سوچ بدلنے لگی۔ پھر تارکین وطن کی کم از کم دو نسلیں برطانیہ کے معاشرے میں رچ بس گئیں، انہوں نے تعلیم بھی حاصل کی اور تربیت بھی یہاں تک کہ متعدد افراد مقامی سیاست میں حصہ لے کر مختلف بار و کونسلز میں کونسلرز اور میئرز بھی ہوئے اور برٹش پارلیمنٹ کے ممبرز بن کر متعدد وزارتوں کے قلمدان بھی سنبھالنے لگے اسی طرح ان کے خلاف تضحیک اور تعصب کی سوچ کمزر پڑنے لگی۔ پھر حکومت نے ایسے قوانین بنائے جن کی رو سے کسی بھی فرد سے چاہے وہ مقامی ہو یا غیر مقامی کسی طرح کا متعصبانہ سلوک جرم قرار دیا گیا۔ اسی طرح حالات یہاں تک بدلے کہ آج برطانیہ کا وزیراعظم ایک تارکین وطن رنگدار ہی ہے۔ اس سب کے باوجود انسانی فطرت کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں رنگ لے آتی ہے چونکہ صدیوں تک برطانوی افراد نے دنیا کے بڑے حصے پر حکومت کی اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ برطانوی حکومت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا یعنی جب سورج مغرب کی طرف غروب ہونے لگتا تھا وہاں بھی برطانوی حکومت اپنی آب و تاب دکھا رہی ہوتی تھی۔ یہ وجہ ہے کہ اب بھی کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں مقامی افراد کا جذبہ تفاخر اُبھر آتا ہے اور وہ تارکین وطن یا رنگ دار افراد کے متعلق کوئی نہ کوئی متعصبانہ جملہ کہہ اٹھتے ہیں اور وہی لوگ جو برسوں اس طرح کے جملے سن کر خاموش رہ جاتے تھے اب سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔ اہل برطانیہ کو ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اب دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ ملک میں ایک صحت مندانہ سوچ اپنانا ہی وقت کا تقاضا ہے۔ متعصبانہ جملوں کی ادائیگی یا متعصبانہ سلوک برطانیہ کی ترقی کے لئے نیک فال نہیں ہے۔ مقامی افراد کو صورت حال کا اداراک کرنا ہو گا۔