واہ جی واہ!!!

28

کل تک جو لوگ مرحوم صدر پرویز مشرف کو آئین شکنی کا طوق پہنا کر انھیں غدار غدار کہتے نہیں تھکتے تھے وہی لوگ آج ببابنگ دہل آئین شکنی کرتے دکھائی دے رہے ہیں ، مگر پھر بھی حب الوطنی کی مالا اپنے گلے میں ڈالے جھوم رہے ہیں – واہ جی واہ! آپ کریں تو راس لیلا اور ہم کریں تو کردار ڈھیلا – یہ مہاورہ اس وقت بہت مشہور ہوا تھا جب پاکستان نے وسیم اکرم اور وقار یونس کی ریورس سوئنگ کے بدولت انگلینڈ کو شکست دی تھی تو انگلش میڈیا نے بال ٹیمپرنگ کا الزام لگا کر ہمیں خوب بدنام کیا تھا اور 2005 میں اینڈریو فلنٹوف ، سائمن جونز اور اسٹیو ہارمیسن نے اسی ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے آسٹریلیا کو شکست دے دی تب اس کا نام بال ٹمپرنگ سے بدل کر ریورس سوئنگ رکھ دیا تھا – کیا کہنے صاحب – ہم کریں تو بال ٹیمپرنگ اور آپ کریں تو ریورس سوئنگ – ہمارے سیاست دانوں نے بھی ، بے ایمان پیا کی ساری ادائے محبوبانہ ازبر کر لی ہیں – تازہ ترین خبروں کے مطابق القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان گرفتار کئے جا چکے ہیں – ظاہر تو یہ ہی کیا جا رہا ہے کہ ایمان دار حکمرانوں نے بے ایمان رہنما کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کر دیا ہے – لیکن بقول نیاز گلبرگوی مرحوم:
؎آپ ہوں گے معتبر اپنی جگہ
اپنے دل کو اعتبار آتا نہیں!
ایسا کیوں ہو رہا ہے – اس بارے میں توجیہات تو بہت سی پیش کی جارہی ہیں لیکن عام خیال یہ ہے کہ یہ سب کچھ انتخابات کو ملتوی کرانے کےحیلے اور بہانے ہیں – اب ترکی ہی کو دیکھ لیجیے – رشک آتا ہے – حالات تو وہاں پر بھی غیر ہموار ہیں لیکن حکومت الیکشن اپنے وقت پر کرائے جانے کے موڈ ہی میں نہیں ہے بلکہ دل ناتواں کو مقابلے میں پیش کرنے کے لیئے پیش پیش دکھائی دے رہے ہیں – اسی اتوار کو ترکی کے ووٹر انتخابات میں حصہ لیں گے – دل تجسس کی سنیں گے اور انھیں ووٹ دیں گے کہ جو ان کی نگاہ اعتبار میں معتبر ہو گا – اس کے سلسلے میں تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں – تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بیرون ملک آباد ترکوں نے تو پچھلی جمعرات یعنی 27 اپریل سے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا بھی شروع کر دیا تھا- رجب طیب اردگان کو 20 سال ہو گئے ہیں حکومت کرتے ہوئے لیکن آج بھی ان کی مقبولیت کا گراف اتنا مضبوط ضرور ہے کہ جس کی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ کانٹے کے مقابلے کے امکانات ہیں – یہ اور بات ہے کہ وہ خود کو انتخابات میں حزب اختلاف کے رہنما کمال کلیک دار اوغلو سے پیچھے سمجھتے ہیں – یہ ہوتی ہے اسپرٹ – ہمارے حکمرانوں کی طرح نہیں کہ انھیں انتخابات میں اپنی واضح شکست نظر آنے کے سبب سارے الیکشن پراسسز ہی کی نفی کر دیں – ترکی میں صدر طیب اردگان کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جنہوں نے جدید ترکی کی بنیاد رکھی – ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ مصطفیٰ کمال اتاترک کے بعد یہ سب سے زیادہ طاقت ور رہنما یہ ہی ہیں – کمال اتاترک نے سیکولر ترکی کی بنیاد رکھی تھی اور صدر اردگان نے 100 سال بعد ترکی میں اسلام پسندی کی بنیاد رکھی – لیکن اس کے باوجود آج کل ان کی حکومت تنقید کی زد میں بھی ہیں – ان پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ انھوں نے صدارتی اختیارات کو مرتکز کر دیا ہے – اُن کے ان اقدامات سے اختلاف رائے کو دبایا گیا ہے – نیزعدالتی نظام کو اپنے زیر اثر لایا گیا ہے – کہا یہ جا رہا ہے کہ 20 سالہ اقتدار میں رہنے کے بعد اس بار صدر اردگان کو سخت ترین انتخابی امتحان کا سامنا ہے – اس بار کے انتخابات میں ایک غیر معمولی اپوزیشن سامنے آئی ہے جس کی رہنمائی کمال کلیک دار اوغلو کر رہے ہیں یہ ایک طاقت ور ترین اپوزیشن ہے جو قدامت پسند اور قوم پرست ہونے کے ساتھ ساتھ سیکولر بھی تصور کی جاتی ہے – انتخانی مہم کے دوران صدر اردگان کے مخالفین ان پر مہنگائی کی ذمہ داری کا الزام لگاتے رہے ہیں – مہنگائی کہاں نہیں ہے – لیکن اس کا کیا جائے کہ مہنگائی کا عالمی بحران ان کی مخالفت میں کام آرہا ہے – اس کے علاوہ ان انتخابات میں ان پر گذشتہ فروری میں آنے والے زلزلے ، کہ جس کے نتیجے میں پچاس ہزار سے زیادہ اموات واقع ہوئیں کو صحیح طور پر ہینڈل نہ کرنے کا بھی الزام لگایا جارہا ہے – بہت سے ترکوں کا خیال ہے کہ صدر اردگان نے اس سلسلے میں ناقص کارکردگی دکھائی ہے – ترکی کا شمار دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں ہوتا ہے – ترکی نیٹو ، یورپ ، مشرق وسطیٰ اور دیگر مسلم ممالک میں وہ ایک اہم مقام رکھتا ہے – 14 مئی کو ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات یہ طے کریں گے کہ مستقبل میں ترکی کی قیادت کون کرے گا – ملک کا طرز حکومت کیا ہوگا – اس کی معیشت کیا رخ اختیار کرتی ہے – یوکرین اور مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں ترکی کا کیا رول رہے گا –