0

چھ حجز

آج سے کئی عشرے پہلے راؤ رشید نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام تھا ’’جو میں نے دیکھا ‘‘ دلچسپ کتاب تھی بڑی تعداد میں فروخت ہوئی اور پڑھی گئی رائو رشید نے دلیری سے کچھ چیزوں کا احاطہ کیا اور اس کتاب کے کچھ جملے زبان زدِ عام ہوئے، راؤ نے ایک جگہ لکھا کہ نوابزادہ نصر اللہ خان جب آمریت آتی ہے تو جمہوریت کے لئے کام کرتے ہیں اور جب بھی جمہوریت آتی ہے تو آمریت کے لئے کام کرتے ہیں یہ جملہ اتنا چونکا دینے والا تھا کہ تجزیہ نگاروں کو نوابزادہ کی پوری سیاست کا جائزہ لینا پڑا اور ایک شوخ تجزیہ نگار نے تو یہ بھی لکھ دیا کہ نوابزادہ نصر اللہ خان سی آئی اے ایجنٹ لگتے ہیں، اور اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ ان سرگرمیوں میں بہت کمی واقع ہو گئی ، راؤ رشید کی کتاب کا ایک اور جملہ بھی چونکا دینے والا راؤ نے لکھا کہ پاکستان کی تباہی میں تین ج کا ہاتھ ہے جزلز، ججز اور جرنلسٹ، یہ جملہ بھی زبان زدِ عام ہوا اور لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ واقعی جز لز ججز اور صحافی ہی ملک کی بربادی کا سبب ہیں اور اس میں شک بھی کیا ہے جبز لز مارشل لاء لاتے رہے ججز ان غیر آئینی اقدامات کو قانونی جواز فراہم کرتے رہے اور صحافی ڈھول پیٹتے رہے، عوام کی آواز بننے والا کوئی نہ تھا، نظام وڈیروں کے ہاتھ میں تھا، وڈیرے فوج کو خوش آمدید کہتے اور آمریت کو پنپنے کا موقع ملتا رہتا، آج کل جیو ٹی وی پر سہیل وڑائچ کا پروگرام ایک دن جیو کے ساتھ چل رہا ہے،اس میں الطاف حسین قریشی کا انٹرویو دو اقساط میں کیا گیا ہے میں ذاتی طور پر الطاف حسین قریشی کو سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار سمجھتا ہوں شریک جرم تھا یہ وہی شخص ہے جو بنگالی UNREST کو غلط لبادہ پہناتا رہا جب تک بنگالی اپنے حق میں آواز اٹھاتے رہے تب تک الطاف حسین قریشی اپنے رسالے میں ’’محبت کا زمزمہ بہہ رہا ہے‘‘ لکھتا رہا اور عوام کو گمراہ کرتا رہا، مجیب الرحمن شامی اس کا ہم نوا تھا، سہیل وڑائچ نے اپنے مزاج سے ہٹ کر یہ سوال کر ہی دیا کہ آپ چاہتے تھے کہ بھٹو کو پھانسی ہو جائے، راؤ نے بلاشبہ انہی صحافیوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو ملک دشمنی پر اتر آئے آج کل یہ کام حامد میر ، مطیع اللہ جان اور اسدعلی طور کر رہے ہیں، جہاں جبز لز اور ججز ANWSERABLE نہیں وہاں پر میڈیا ہاؤسز سے متعلق یہ صحافی بھی ACCOUNTABLE نہیں اگر میڈیا مالکان کبھی بھولے سے ان کو حدود میں رہنے کا مشورہ دیں تو یہ یو ٹیوب چینل کھول کر میڈیا ہاؤس کی پابندی کا مذاق اڑائیں گے ، اب جھوٹ نے اتنے خوشنما رنگ پہن لئے ہیں کہ لگتا ہے کہ جھوٹ ہی سچ ہے چونکہ متبادل موجود ہے تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میڈیا ہاؤس ہی اینکر سے کہہ دے کہ فساد یو ٹیوب پر پھیلا دو چینل پر کہو گے تو پیمرا کا نوٹس آ جائیگا چھ ججز نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ایک خط لکھ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فیصلے لکھنے کے لئے دباؤ آتا ہے تو ہمیں یہ بتایا جائے کہ اس صورتِ حال سے کیسے نمٹا جائے یہ خط بارہ صفحات پر مشتمل ہے، اسی خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہمارے پاس ثبوت کے لئے کچھ نہیں بس ایک ناخوش گوار واقعے کی جانب اشارہ کیا گیا ہے، مطالبہ کیا گیا ہے کہ جوڈیشل کو نسل اس درخواست پر غور کرے اور جوڈیشل کنونشن بلایا جائے، معاملہ سنگین تھا تو وزیر اعظم شہباز نے چیف جسٹس قاضی عیسیٰ سے ملاقات کرکے یہ فیصلہ کیا کہ ایک انکوائری کمیشن بنا دیا جائے ، سو کمیشن ترتیب دیا گیا جس کی سربراہی کے لئے جسٹس (ر) تصدق جیلانی کے نام پر اتفاق ہوا، تصدق جیلانی اچھی شہرت کے حج رہے ہیں لہٰذا ملک کی تمام بار کونسلز نے ان کی نامزدگی کو خوش آمدید کہا البتہ بلوچستان بار کونسل نے اختلاف کی، شائد یہ بیل منڈھے چڑھ جاتی مگر پی ٹی آئی نے کمیشن کو مسترد کر دیا اور سوموٹو کا مطالبہ کیا، مطالبہ کرنے والوں میں تصدق جیلانی کے صاحبزادے بھی شامل تھے ،ظاہر ہے ان نازک معاملات میں گھر کو اولیت حاصل ہوتی ہے یہ باتیں تو شائد اب کتابوں میں ہی رہ گئی ہیں کہ آدمی ملک کی خاطر دنیا کے ہر شخص سے لڑ جائے، جسٹس (ر) تصدق جیلانی نے اس کمیشن کی سربراہی قبول کر لی تھی مگر بعد میں معذرت کر لی ، وزیر قانون اعظم تارڑ کہتے ہیں کہ کمیشن کے ٹی او آرز بھی جیلانی صاحب کو پہنچا دیئے گئے تھے اور جیلانی صاحب نے بھی ان ٹی او آرز کی وصولی سے انکار نہیں کیا البتہ یہ ضرور کہا کہ انہیں ان ٹی او آرز میں کچھ تحفظات تھے ، کمیشن توڑنے کا اعلان تو نہیں ہوا مگر اب چیف جسٹس قاضی عیسی نے اس معاملے پر از خود نوٹس لے لیا ہے اور سات رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کرے گا مگر پی ٹی آئی نے مطالبہ کیا ہے کہ فل کورٹ بنایا جائے ملک کی مایہ ناز ماہر قانون ریما عمر نے کہا ہے کہ سات رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کرے گا اس پر اپیل کا آپشن بھی موجود ہے لہٰذا اگر اپیل ہوتی ہے تو بعد میں آٹھ رکنی بینچ اس اپیل کو سنے گا یہ بات قابل فہم ہے کل بروز بدھ اس کیس کی سماعت ہے جس کی سر براہی چیف جسٹس قاضی عیسی کرینگے ہر چند کہ پی ٹی آئی کے حامد خان نے کہا ہے یہ ججوں اور سپریم کورٹ کا معاملہ ہے اور پی ٹی آئی کو اس سے دور رہنا چاہیے مگر پارٹی کے جنرل سیکرٹری رؤف حسن نے جارحانہ انداز میں چیف جسٹس کے استعفے کا مطالبہ کر دیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ شکایت کنندہ چھ ججز سپریم کورٹ میں کس حیثیت میں پیش ہوتے ہیں اور کیا ان کو گواہان کے کٹہرے میں بلایا جاتا ہے یا نہیں، یہ وہ حج ہیں جنہوں نے حکومت کے حق میں کوئی ایک فیصلہ بھی نہیں دیا اور عمران کو ایک وقت میں چھ چھ ضمانتیں دیتے رہے ہیں، یہ تمام معاملات سامنے آئینگے اور اگر یہ سماعت براڈ کاسٹ ہوئی تو ساری قوم یہ تماشا دیکھے گی، بادی النظری میں اس کیس کا مقصد فوج اور آئی ایس آئی کے چند افسران کو عدالت میں بلانا ہے اور ان پر جرح کرکے ایک خاص مقصد حاصل کرنا ہے آج ایک نئی پیش رفت ہوئی ہے اسلام آباد کے آٹھ ججوں کو خطوط موصول ہوئے ہیں جن میں مبینہ طور پر طور پر ANTHROX ملنے کا دعوی کیا گیاہے یہ وہی سفوف ہے جو 9/11 کے حادثہ کے بعد امریکی حکومتی عہد یداروں کو موصول ہوا تھا یہ سفوف شدید الرجی کی کیفیات پیدا کرتا ہے جن افراد نے یہ خط غلطی سے کھول لئے ہیں انہوں نے الرجی کی شکائیت کی ہے اسی دوران بشرہ بی بی نے یہ شکائیت کی ہے کہ ان کے کھانے میں زہر ملایا جا رہا ہے اور یہ بھی کی عمران کو بھی زہر دیا جا رہا ہے، پی ٹی آئی کی یہ بہت کامیاب اسٹریٹیجی ہے جو کارکنوں کو سوشل میڈیا پر متحرک کر دیتی ہے اور رائے عامہ ہموار کرنے میں مدد دیتی ہے، پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر اس قدر جھوٹ بولا ہے کہ ان کی بات کا اعتبارکم ہی رہ گیا مگر یہ بات حقیقت ہے کہ اس پرو پیگنڈے سے پی ٹی آئی کا ورکر متحرک رہتا ہے اور MOMENTUM برقرار رہتا ہے پاکستان میں سوشل میڈیا پر پابندیوں کی وجہ سے اس کی شدت میں کمی واقع ہوئیOVERSEAS SOCIAL MEDIA KEYBOARD WARRIORS &بھی کچھ تھک چکے ہیں مگر کچھ STAUNCH SUPPORTERS اب بھی اسی تندہی کے ساتھ پی ٹی آئی کی حمائیت کرتے ہیں، ہمارے خیال میں چھ ججز کا معاملہ سیاست کو اور الجھا دے گا، امکان یہی ہے کہ ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ان چھ ججوں کو سبکی کا سامنا ہوگا اور اطلاعات یہی ہیں کہ بلاآخر کچھ ججوں کو استعفے دینا پڑے گا یا وہ سپریم کورٹ سے معافی کے طلبگار ہو نگے مگر سیاسی طور پر پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر فائدہ ہوگا اور شور مچانے کا موقع ہاتھ آجائیگا مطلب تو یہی ہے کہ حکومت کو چلنے نہ دیا جائے اور معیشت کو DAMAGE کیا جائے اور پی ٹی آئی یہ دونوں مقاصد بخوبی حاصل کر لیتی ہے وہ سینہ ٹھونک کر کہتے ہیں کہ نہ حکومت چلنے دیں گے نہ معیشت چلنے دینگے، یعنی ہم نہیں تو کوئی نہیں فارم 45کا ہی بہت رونا ہے ہم کہہ رہے ہیں کہ اگر اتنی بڑی تعداد میں فارم 45 موجود ہیں تو الیکشن ٹریبونل چلے جائیں وہاں انصاف نہ ملے تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کھلے ہیں، مگر ایسا کرنے سے شور مچانے اور پروپیگنڈا کرنے کا موقع ہاتھ سے جاتا ہے ان چھ ججز کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے اور شائد MIND SET بھی جب ججوں کی یہ حالت ہو تو کیا کہا جا سکتا ہے مہذب ممالک میں جیوڈیشری اور بیورو کریسی یا فوج سیاست میں ملوث نہیں ہوتیں مگر پاکستان میں وہ سب ہو سکتا ہے جو دنیا میں نہیں ہوتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں