0

یہ جہادِ حق ہے ، دہشت گردی نہیں!

غزہ اور مقبوضہ فلسطین کے مظلوموں پر قیامتِ صغریٰ ٹوٹ رہی ہے لیکن بزعمِ خود تہذیب و شائستگی اور انسانی حقوق کے مغربی علمبردار نہ صرف یہ انسانیت سوز مظالم دیکھ رہے ہیں بلکہ ان کی زبانیں اور دل اس درندگی کی حمایت میں ہیں جو فلسطینی مظلوموں پر یہ قیامت ڈھارہی ہے۔
اس صدی کی ابتدا سے، خاص طور پہ اس صدی کے پہلے سال نیویارک میں ہونے والے سانحہ، نائن الیون کے بعد سے، دنیا کی سب سے بڑی عسکری طاقت، یعنی امریکہ بہادر نے یہ فتویٰ جاری کردیا ہے ، عالمِ اسلام کے ضمن میں، کہ جہاں کہیں بھی حریت کے متوالے اپنی آزادی اور اپنے غصب کردہ انسانی حقوق کی بحالی کا علم بلند کرکے نکلیں گے ان کا ہر عمل دہشت گردی کے زمرہ میں گنا جائے گا۔
سو کشمیری بھی دہشت گرد ہیں اگر وہ امریکہ کے چہیتے نریندر مودی کی فسطائیت کے خلاف آواز اٹھائیں، عراقی بھی دہشت گرد ہیں اگر وہ یہ کہیں کہ ان کی سرزمین پر اپنے فوجی اڈے بناکر بیٹھا ہوا امریکہ ان کے ملک سے نکل جائے، اور سب سے بڑھ کر تو فلسطینی حریت کے متوالے اور شیدائی مجاہدین اس کی کتاب میں اول درجہ کے دہشت گرد ہیں کیونکہ وہ اپنی آزادی اس دہشت گرد ملک کے چنگل سے چھڑانا چاہتے ہیں جو پوری دنیا میں امریکہ کیلئے سب سے لاڈلا، سب سے دلارا اور پیارا ہے اور جس کی ہر ادا پر امریکہ کی انتظامیہ اور کانگریس کے دونوں فریق، ریپبلکن اور ڈیموکریٹ ، یک زبان ہوکر نامِ خدا کہتے ہیں۔
اسرائیل دنیا کی سب سے بڑی عسکری طاقت کا پروردہ ہے اس میں تو کوئی کلام ہی نہیں لیکن امریکہ کے ساتھ ساتھ مغربی یورپ کےمہذب معاشروں کی آنکھوں کا تارا ہے اور اس کی ہر زیادتی ان کی نظروں میں یوں جائز ہے کہ فلسطینی ، منجملہ، ان کے حساب سے دہشت گرد ہیں اور دہشت گردوں کو اپنے حقوق کی بحالی کیلئے آواز بلند کرنے کی اجازت مہذب مغربی معاشروں میں کفر ہے۔
ظاہر ہے کہ جب آواز اٹھانے کی گنجائش نہیں تو پھر اس صیہونی طاقت کے خلاف ہتھیار اٹھانا تو مغرب کی نظر میں کفر ہے جسے انہوں نے ایٹمی طاقت اپنی مشترکہ مساعی سے بنایا ہے اور جسے ہر سال، گذشتہ ساٹھ برس سے، امریکہ 3۔4 ارب ڈالر کی صرف اسلحہ کی امداد دیتا ہے۔
سات اکتوبر کو حریت پسند حماس کے مجاہدین نے اسرائیلی قبضہ اور جارحیت کے خلاف جو علمِ بغاوت بلند کیا اس کے جواب میں اسرائیل کی فوج نے، جسے امریکی اسلحہ کیل کانٹے سے لیس کرتا رہا ہے کیونکہ امریکہ کا ہدف یہ ہے کہ اسرائیل کو دفاعی طور پہ اتنا طاقتور بنادیا جائے کہ کوئی عرب ملک اس کی طرف آنکھ اٹھاکر نہ دیکھنے پائے، جو جوابی کارروائی کی ہے اور جسے آج پورا ایک مہینہ ہوگیا ہے وہ نہ صرف کھلی ہوئی جارحیت ہے بلکہ بیگناہ فلسطینی شہریوں پر اسرئیلی فضائیہ جس درندگی سے بمباری کرکے ان کے گھروں، ہسپتالوں ،اسکولوں، مساجد اور کلیساؤں کو تاراج اور منہدم کر رہی ہے اسے صرف اور صرف ایک ہی نام دیا جاسکتا ہے، اور وہ ہے نسل کشی۔
امریکہ اور ہمنوا یورپ کی دانست میں صرف اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے فلسطینیوں کو نہیں کیونکہ فلسطینی تو ان کی فہمِ کج میں دہشت گرد ہیں اور دہشت گردوں کو اپنے دفاع کا کوئی حق نہیں ہوتا۔
صدر بائیڈن تو اسرائیل نوازی میں اپنے پیشرو ڈونالڈٹرمپ کو بھی میلوں پیچھے چھوڑ گئے۔ آجتک کبھی یہ نہیں ہوا تھا کہ کوئی امریکی صدر اسرائیل کی حمایت کا اعلان کرنے کیلئے اسرائیل دوڑا آیا ہو لیکن بائیڈن نے نہ صرف اسے اپنی صدارت کیلئے لازم و ملزوم گردانا بلکہ اسرائیل میں اپنے قیام کے دوران انہوں نے اسرائیل کے جنگجو رہنما، بن یامین نیتن یاہو کے سر پہ دستِ شفقت پھیرتے ہوئے ان کا یہ کہہ کر حوصلہ بڑھایا کہ حماس نے جو اسرائیل میں گھس کر، بقول مودی کے گھر میں گھس کر، اسرائیل کی دہشت گردی سے دنیا کو آگاہ کرنے کی جسارت کی ہے وہ من و عن ایسی ہی ہے جیسے نائن الیون ۔ اور اپنی اس اختراع کو مزید ہوا دیتے ہوئے انہوں نے اسرائیل کو فلسطینی شہریوں کا قتلِ عام کرنے کا لائسنس جاری کرتے ہوئے کہا کہ جیسے امریکہ نے نائن الیون برپا کرنے والوں سے انتقام لیا تھا اسی طرح اسرائیل کو حماس اور فلسطینیوں سے بدلہ لینا چاہئے کیونکہ، بقول ان کے، یہ اسرائیل کا حق ہے۔
تو اب صورتِ حال یہ ہے کہ اسرائیل کی کیل کانٹے سے لیس، امریکی اسلحہ کی فراوانی پر کامل اعتقاد رکھتے ہوئے، فوج ہر وہ ستم فلسطینی شہریوں پر ڈھا رہی ہے جو بین الاقوامی قانون کی کتابوں میں جنگی جرائم اور نسل کشی کی تعریف میں آتے ہیں۔
اسرائیل ابتک کوئی دس ہزار بیگناہ فلسطینی شہریوں کا خون بہا چکا ہے اور ان ہلاکتوں میں کوئی چار ہزار معصوم بچے شامل ہیں، ہزاروں فلسطینی مرد، عورتیں اور بچے زخمی ہوچکے ہیں لیکن ان کے علاج کیلئے ہسپتالوں کے ہاتھ باندھ دیئے گئے ہیں۔ اسرائیل نے نسل کشی کی مہم پر کاربند ہوتے ہی فلسطین کیلئے غذا، پانی، تیل، دوائیاں، سب کچھ بند کردیا ہے۔ فلسطینی بھوک اور پیاس سے دم توڑ رہے ہیں لیکن مغرب کے سوئے ہوئے ضمیر جاگ نہیں رہے۔ ان کی دانست میں یہ سب کچھ جائز ہے کیونکہ ظلم ڈھانے والا وہ ملک ہے جسے ان طاقتوں نے عرب دنیا کے سینے میں خنجر پیوست کرنے کی نیت سے ہی تو بنایا تھا۔
تاریخ گواہ ہے کہ یورپ میں صدیوں یہودیوں پر مظالم ہوتے رہے۔ ہر یورپی شہر میں یہودیوں کیلئے الگ بستیاں تھیں جنہیں گھیٹو کہا جاتا تھا اور ان میں بسنے والوں کیلئے لازمی تھا کہ وہ جب باہر نکلیں تو اپنے سینے پر اسٹار آف ڈیوڈ لگا کر نکلیں تاکہ پہچانے جائیں۔
یورپ نے صدیوں تک یہودیوں کو انسان سے کمتر سمجھا اور ستم یہ کہ جن کے ساتھ یہ سلوک صدیوں تک ہوا تھا وہ آج فلسطینیوں پر وہی ستم توڑ رہے ہیں جس کے وہ خود سزاوار رہے تھے۔
یورپ نے اپنے اجتماعی گناہ کا یہ حل نکالا کہ یہودیوں کو اس سرزمین پر لاکر بسادیا جس کے مالک فلسطینی تھے۔ جو فلسطین میں صدیوں سے آباد تھے انہیں ان کے گھروں سے نکال دیا گیا اور ان کے گھر ان کے ہوگئے جو امریکہ اور یورپ کے ممالک سے لائے گئے تھے۔ فلسطینی اپنی ہی سرزمین پر مہاجر ہوگئے اور یہودی صیہونی ریاست ان پر مسلط کردی گئی۔
صیہونی غاصب ہیں لیکن اپنے مغربی سرپرستوں کی آشیر واد سے وہ فلسطینی سرزمین کے مالک قرار دے دیئے گئے۔ 1967ء کی عرب اسرائیلی جنگ کے بعد سے صیہونی غاصبوں نے مظلوم و محصور فلسطینیوں پر عرصہء حیات تنگ کیا ہوا ہے۔ اسرئیلی ریاست میں ہر وہ کام ہورہا ہے ، نسلی تعصب اور فسطائیت کے وہ حربے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف استعمال ہورہے ہیں جن کیلئے جنوبی افریقہ کی سفید فام اقلیت بدنام تھی ۔
لیکن اسرائیل کا کوئی محاسبہ یا مواخذہ کرنے والا نہیں ہے کیونکہ اس کے سر پر دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت کا سایہ ہے۔
اس جگت سامراجی طاقت کی اپنی تاریخ ہی نسل کشی کی داستانوں سے لبریز ہے۔
پندرھویں صدی کے اواخر میں جب کولمبس نے امریکہ کے براعظم پر یورپی اقوام کے غلبہ کی تاریخ رقم کرنے کا آغاز کیا تو ایک محتاط اندازہ کے مطابق شمالی امریکہ میں کم از کم آٹھ (8) ملین یا اسی لاکھ مقامی باشندے آباد تھے جنہیں ریڈ انڈین کا نام دیا گیا اور پھر ان کی نسل کشی بھی شروع ہوئی کیونکہ یورپی اقوام کی نظر میں وہ جنگلی اور غیر مہذب تھے۔ اس کام میں نو آبادکاروں کو چرچ کی مکمل حمایت اور سرپرستی حاصل تھی کیونکہ پادریوں نے یہ فتوے جاری کئے تھے کہ خداوند نے یہ سرزمیں ہمیں اسی لئے عطا کی ہے کہ ہم اس میں تہذیب کی روشنی لائیں اور غیر مہذب لوگوں کے وجود سے اسے پاک کردیں۔
ایک بہت ہی معلوماتی کتاب ہے جو ایک معروف امریکی اسکالراور محقق ، پروفیسر ہاورڈ زن نے تحریرکی ہے۔ اس کتاب کا عنوان ہے، اے پیپلز ہسٹری آف یونائیٹڈ اسٹیٹ۔ پڑھنے والی کتاب ہے، چشم کشا معلومات سے بھرپور۔ اس میں اعداد و شمار دیئے گئے ہیں جن کے مطابق ریڈ انڈین قوم کی اس حد تک نسل کشی کی گئی کہ انیسویں صدی کے وسط تک ان کی تعداد اسی لاکھ سے گھٹ کر صرف کوئی پچاس ہزار رہ گئی تھی جس کیلئے الگ بستیاں بسائی گئیں جنہیں آج بھی انڈین ریزرو کہا جاتا ہے۔
اسی طرح افریقہ سے غلام لانے کا کاروبار وسیع پیمانے پر ہوا۔ پروفیسر زن کے مطابق، سترہویں اور اٹھاروی صدیوں میں افریقہ کے ممالک سے کوئی پچاس ملین سیاہ فام غلام بنائے گئے جن میں سے دو تہائی تو افریقہ سے امریکہ تک کے سفروں میں فاقہ کشی اور بیماریوں سے راستے میں ہی ہلاک ہوگئے۔ بقیہ کوئی پندرہ ملین سیاہ فام جانوروں سے بھی بدتر سلوک کے سزاوار ٹہرے۔
امریکہ کے بنانے والے زعماء اور قائدین سب غلام پالتے تھے۔ ایک صاحب، جو امریکہ کا آئین مرتب کرنے والوں میں بہت نمایاںہیں، جیمز میڈیسن، ان کے پاس تو غلاموں کا ایک پورا اصطبل تھا۔ ان کا ایک خط تاریخ کا حصہ ہے جسمیں وہ بڑے فخر سے اپنے ایک دوست کو لکھ رہے ہیں کہ ایک غلام بیچنے پر انہیں 257 ڈالر منافع ملتا ہے جب کہ سال بھر میں اس غلام پر ان کا کل خرچہ کوئی بارہ تیرہ ڈالر ہوتا ہے۔
سو اسرائیل کے فرعون صفت رہنما اگر یہ کہیں کہ غزہ میں انسان نہیں بلکہ جانور بستے ہیں، یا اسرائیل کا صدر آئزک ہرزل یہ کہے کہ غزہ میں کوئی معصوم یا بیگناہ نہیں بلکہ سب دہشت گرد ہیں تو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ جن کو فلسطینیوں کی سرزمین پر لاکر بسایا گیا ان کے خمیر میں یہ ہے کہ فلسطینی انسان نہیں کوئی کمتر مخلوق ہیں۔
تو مغرب کی دانست میں اس کمتر مخلوق کے نہ کوئی حقوق ہیں نہ انہیں آزادی کا حق حاصل ہے۔ مغرب تو یہ چاہتا ہے کہ اسرائیل فلسطین پر قابض رہے اور اس کا حق ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ جو چاہے سلوک روا رکھے۔
مغرب کے خمیر میں اسلام دشمنی ہے۔ اس پر ہم صبر نہ بھی کریں تو ہمارے مسلم ممالک کے سربراہان اپنی خاموشی سے ہمیں یہ یقین دلانا چاہ رہے ہیں کہ سامراجی امریکہ اور اس کے مغربی حلیف جو ستم غزہ میں اور مقبوضہ مغربی کنارے پر ڈھا رہے ہیں اسے قدرت کا فیصلہ سمجھ کے صبر کرنا چائیے۔
ستاون (57) مسلم ممالک ہیں دنیا میں لیکن ان ستاون میں سوائے ایران اور ترکی کے اور کسی میں اتنی غیرت، اتنی حمیت اور حوصلہ نہیں کہ وہ سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہہ سکیں کہ فلسطینی اپنی آزادی کیلئے لڑ رہے ہیں جو ان کا حق ہے۔ دہشت گرد حماس نہیں بلکہ اسرائیل کی صیہونی ریاست اور اس کے رہنما ہیں جو کھلم کھلا بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں لیکن کوئی اس کا ہاتھ روکنے والا نہیں ہے۔
غزہ کو اسرائیلی درندوں نے کربلا بنایا ہوا ہے لیکن جیسے سید الشہداء کا ساتھ دینے والے شہداء کے بعد ان کی آواز پر لبیک کہنے والا کوئی نہیں تھا اسی طرح فلسطینی بیگناہوں اور معصوموں کی پکار پر ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں۔ قدرت بھی یہ تماشہ دیکھ رہی ہے لیکن ظالم کا حساب نہیں کررہی۔
کل میری آنکھوں نے ٹیلی وژن پر یہ دل دہلادینے والا منظر دیکھا کہ ایک ننھے شہید کے باپ نے اپنے چہرے پر اپنے معصوم کا لہو مل لیا جیسے سید الشہداء نے ننھے امام علی اصغر کا خون ملا تھا۔ غزہ سید الشہداء کے لہجہ میں عالم اسلام کو ہی نہیں پوری دنیا کو پکار رہا ہے: ھل من ناصری، ینصرنا۔(کوئی ہے جو مظلوموں کی اس پکار پر، اس فریاد پر لبیک کہے؟)۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں