وقت بڑی ظالم چیز ہے۔ ہر وقت گزر جاتا ہے بعد میں صرف تاریخ اور کہانیاں رہ جاتی ہیں۔ غزہ میں آج کل جو ہورہا ہے آنے والا مورخ پتہ نہیں کس نام سے اور کس انداز سے آج کل کی تاریخ قلمبند کرے گا۔ غزہ انسانی مقتل گاہ بن گیا۔ سب دیکھ رہے ہیں لیکن سب نے آنکھیں بند کر لی ہیں ان چار ہزار بچوں کی آخری چیخیں کسی کو نہیں سنائی دے رہی ہیں۔ سب مزہ لے رہے ہیں۔ اپنی اپنی حکومتیں بچارہے ہیں۔ اگر وہ اس لڑائی میں کودتے ہیں تو ان پر پلٹ کر وار ہو گا۔ ان کا اقتدار ختم ہو جائے گا۔ جیسا عراق میں ہوا۔ لیبیا میں ہوا، مصر میں ہوا، بشار الاسد کو سویت یونین نے بچا لیا۔ اردن گھٹنوں پر آگیا۔ اس ملک کی سرحد ہی ختم ہو گئی۔ لوگ کہتے ہیں ہاشمی خاندان کی حکومت تھی۔ شاہ حسین کے صاحبزادے ابھی اردن میں موجود ہیں لیکن بے بس وہ مسجد اقصیٰ کے چابی بردار ہیں۔ مسجداقصیٰ کا انتظام وہ چلاتے ہیں لیکن ہر طرف خون ہی خون بہہ رہا ہے۔ کمزور اور نہتی تین ہزار سے زیادہ عورتیں مرنے سے پہلے کھلی آنکھوں سے کسی صلاح الدین ایوبی کا انتظار کررہی تھیں، انتظار کرتے کرتے ان کی سانس کی ڈور ٹوٹ گئی۔ موت کا فرشتہ ان بچوں اور عورتوں کو جنت میں لے جانے کے لئے تیار کھڑا تھا۔ آئو تمہارا مقام غزہ کی سرزمین نہیں ہے جنگ الفردوس تمہارا انتظار کررہی ہے۔ بے بس لاچار، کمزور عورتوں اور بچوں کا استقبال فرشتے بھی آسمان پر کریں گے۔ کیسا ظلم اور کسی بے بسی ہے۔ آسمان بھی رو رہا ہے زمین بھی رو رہی ہے۔ چھوٹے سے علاقہ میں اتنا خون بہا لاشوں کے ڈھیر لگ گئے لاشیں اٹھانے والے کم پڑ گئے۔ لاشیں دفنانے والے کم پڑ گئے لیکن جنازے کم نہ ہوئے۔ روز بڑھتے ہی جارہے ہیں مغرب میں اگر کوئی کتا بھی کنویں میں گر جاتا ہے تو اس کو نکالنے کے لئے پوری انتظامی مشینری لگ جاتی ہے کہ اس کو کنویں سے زندہ نکالنا ہے۔ غزہ میں لاشوں کے اوپر لاشیں رکھی جارہی ہیں۔ دنیا کے 6 ارب مسلمان تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ترکی بھی کچھ نہیں کرتا۔ ایران بھی صرف بیان دے دیتا ہے۔ سعودی عرب خاموش ہے۔ وہ پچاس سے زیادہ اسلامی ملکوں کا سپہ سالار راحیل شریف کدھر غائب ہے سب سے زیادہ ذمہ داری اس کی بنتی ہے۔ اگر اُمت مسلمہ پر کوئی دشمن حملہ کرتا ہے یا کسی بھی ملک میں دہشت گردی ہورہی ہے تو وہ اس کا دفاع کرے اس پورے ایک ماہ میں اس کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا۔ بقول شیخ رشید و ستو پی کر سورہا ہے۔ وہ سعودی عرب میں بیٹھ کر ریال میں تنخواہ لیتا ہے۔ اس کا کیا فائدہ ہے اس امت مسلمہ کو یا وہ صرف سعودی عرب کے دفاع کے لئے بیٹھا ہے۔
افسوس صد افسوس مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے۔ دنیا کے 6 ارب مسلمان اور پچاس سے زیادہ اسلامی ملک نیرو کی طرح بانسری بجارہے ہیں۔ کوئی اسلامی سربراہ کانفرنس نہیں ہوئی کوئی عرب سربراہ کانفرنس نہیں ہوئی۔ لبنان سے حسن نصراللہ ٹی وی پر تقریر کررہا ہے کہ حماس نے جنگ خود شروع کی ہے۔ یہ اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ایک مرتبہ پہلے بھی حزب اللہ اسرائیل سے مار کھا چکا ہے۔
اب وہ کہتا ہے کہ حماس کی باری ہے۔ غزہ میں وہ مار کھائے ہم کو امریکہ سے ڈر لگتا ہے۔ وہ ہمیں ختم نہ کر دے۔ ایران بھی ڈرتا ہے کہیں غزہ کی طرح ایران کے شہروں کا بھی حشر نہ ہو۔ اسرائیل کاایک وزیر دھمکی دے چکا ہے کہ غزہ پر ایٹمی حملہ کر دینا چاہیے۔یقینا ان کا یہی انجام ہونا چاہیے کیونکہ انہوںنے سر اٹھانے کی کوشش کی کیوں اسرائیل پر راکٹوں سے حملہ کیا۔ حماس کو پتہ نہیں تھا کہ اسرائیل کے ساتھ کون سے ملک کھڑے ہوں گے اور تمہارے ساتھ صرف اللہ ہو گا اس سے ہی پناہ مانگو وہ شاید تم پر اپنا رحم فرما دے ورنہ 6 ارب مسلمان تو بس دکھاوے کے لئے جلوس نکال رہے ہیں سیز فائز کرو۔ دس ہزار جب اس دنیا سے رخصت ہو گئے 25 ہزار سے زیادہ زخمی ہیں تو حماس کے لوگوں سیز فائز کے لئے راضی ہو جائو۔ مزید اپنے لوگوں کو نہ مرائو۔ تم نے دیکھ لیا تم نے اکیلے ہی جنگ لڑنی ہے کوئی تمہارے ساتھ اس جنگ میں نہیں آیا۔ غزہ میں اتنے لوگ شہید ہو گئے تمام اسلامی ممالک مسلمانوں کے سامنے بے لباس ہو گئے۔ اسلام اور مسلمان کا نام ختم ہو گیا۔ ہاں ان سب کی حکومتیں قائم ہیں کوئی دوسرا صلاح الدین ایوبی ان 50 سے زیادہ اسلامی ریاستوں میں ابھی پیدا نہیں ہوا۔ بس اے 6ارب مسلمانوں صبرو کرو اور برداشت کرو دس ہزار لوگوں کی شہادتوں کا ماتم کرو اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔
