ڈاکٹر سر محمد اقبال ، شاعر مشرق اور مفکر اسلام کی شاعری کو سمجھنا ہو تو اس ماحول کو سمجھنا ہو گا جس میں علامہ نے آنکھ کھولی اور ہوش سنبھالا ۔اقبال جب جرمنی میں اعلیٰ تعلیم کے لیے گئے تو اس وقت ہندوستان میں مسلمان حکومتیں ختم ہوئے سو سال سے زیادہ گذر چکے تھے۔ اقبال کو ہندوستان کے مسلمانوں کی زبوں حالی کا سخت احساس تھا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کا سارا ملبہ مسلمانوں پر ڈال کر انگریزوں نے ان کے لیے بہت سی مشکلات کھڑی کر دی تھیں۔ ان کی عسکری برتری تو ختم ہو ہی چکی تھی، ان کے مذہب کو بھی خراب کیا جا رہا تھا۔ اسی دور میں ، کہتے ہیں،قادیانیت کا ارتقا بھی انگریزوں کی پشت پناہی سے ہوا۔ انگریزی سرکار کی یہ سب حکمت عملی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی شرکت پر انتقامی کاروائی تھی۔
سید ابولحسن علی ندوی سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:’’ ہماری تاریخ میں انیسویں صدی کا عہد خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وہ صدی تھی جس میں ذہنی اور شعوری آگاہی میں ایک انقلاب آیا ، اور خصوصی طور پر اسلامی دنیا میں مختلف الاقسام کے تنازعات اور اختلافات اپنے عروج پر پہنچ گئے تھے۔ہندوستان ان تنازعات کا بڑا مرکز تھا۔ یہاں مغرب اور مشرقی تہذیبوں میںاختلافات اور تنائو ، پرانی اور نئی تعلیمی نظام میں تفریق ، بلکہ کہنا چاہیے کہ نئی اور پرانی سوچ، اور اسلام اور عیسائیت کے درمیان تفرقات انتہا پر پہنچ رہے تھے۔ اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دونوں طرف قوتیں اپنی بقا کی جنگ میں خوفناک مراحل میں داخل ہو چکی تھیں۔
یہ تحریک اس وقت شروع ہوئی جب کہ مشہور عالم ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کو کچل دیا گیا تھا۔اس شکست نے مسلمانوں کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا، ان کے کلیجے دہل گئے تھے، اور دماغ مائوف ہو گئے تھے۔ان کے سامنے دو ہی راستے دکھائی دیتے تھے: دوہری غلامی، سیاسی اور تہذیبی۔ایک طرف، فاتح انگریز قوم نے ہندوستان میں پوری توانائی سے ایک نئی تہذیب اور تمدن کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اور دوسری طرف عیسائی مبلغین کے جتھے سارے ہندوستان میں عیسائیت کا زور شور سے پرچار کرنے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ اس کا مقصد ضروری نہیں کہ بہت سے لوگ عیسائی ہوتے، یہ تھا کہ مسلمانوں کو اپنے دین اور ایمان سے بد گمانی ہو اور وہ اپنی شرعیت کی بنیادوں پر سوال کریں۔یہی کافی کامیابی تھی۔مسلمانوں کی نئی نسلیں ، جن کی تربیت اچھے مسلم ماحول میں نہیں ہوئی تھی ، ان کو گمراہ کرنا ہی ہدف ِاول تھا۔اس کے لیے ایسے سکول اور کالج جو مغربی تعلیمی طرز پر بنائے جا رہے تھے، وہی ان کی کاکردگی کااولین مرکز تھے۔‘‘
علامہ اقبال ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار پر تو دکھ تھا ہی ، جب یورپ جا کر انہوں نے سلطنت عثمانیہ کے زوال کی تصویر دیکھی تو انہیں اور بھی بہت ذہنی تکلیف ہوئی۔سلطنت عثمانیہ نے چھ سو سال حکومت کی۔ پندرھویں صدی عیسوی میں یہ سلطنت اپنے عروج پر تھی۔اور دینا کی سب سے بڑی،عسکری اور معاشی طاقتوں میں سے ایک تھی۔ اس کی سرحدیں ایشیا مائنر سے جنوب مشرقی یوروپ، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ تک پھیلی ہوئی تھیں۔بلکہ کہنا چاہیے کہ سلطنت کی سرحدیں دریائے ڈینیوب سے لیکر دریائے نیل تک پھیلی ہوئی تھیں۔طاقتور فوج، اورمنافع بخش تجارت، اور فن تعمیر اور علم الفلکیات میں بے مثال ترقی، سب کچھ تھا، لیکن افسوس کہ سب ختم ہو گیا۔اس کی آخری سانسیں، جنگ عظیم اول میں جرمنوں کی ہار کے ساتھ اکھڑیں، کیونکہ عثمانیوں نے جرمن کا ساتھ دیا تھا۔ جب جنگ ہارنے والوں کے سر پر شکست خوردگی کے معاہدے تھوپے گئے تو ان میں سے ایک اس سلطنت کے اختتام کا تھا جو 1922میں کیا گیا۔اس حزیمت کے انجام میں ترکی کی موجودہ شکل ابھری۔
مسلمانوں کی عظمت اور ذلالت کی یہ کہانی کسی بھی مسلمان کے دل کو دکھی کرنے کے لیے کافی تھی۔ لیکن علامہ کے حساس دل کو اس کا مداوا کرنے کے جوش نے فلسفہ اور شاعری کی طرف لگا دیا۔اگر اقبال کی شاعری کو سمجھنا ہو تو اس پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔اگر ہم علامہ کے افکار کو اس تناسب میں دیکھیں کہ سلطنت عثمانیہ کو آخر زوال کیوں ہوا تو بہتر ہو گا۔ انٹر نیٹ کی ہسٹری چینل کا لب لباب کہتا ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے زوال کی پانچ بڑی وجوہات تھیں: یہ سلطنت زراعت پر بہت انحصار کرتی تھی جب کہ مغرب صنعتکاری کی طرف تیزی سے جا رہا تھا۔ دوم: سلطنت میں ایسے دور افتادہ ملک شامل تھے جن کی تہذیب، تمدن، زبان اور ثقافت میں بہت فرق تھا۔اسی وجہ سے مفتوحہ علاقے بغاوت پر جلد آمادہ ہو جاتے تھے۔سوئم: سلطنت کے عوام کم تعلیم یافتہ تھے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف پانچ سے دس فیصد آبادی پڑھی لکھی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سلطنت میں تربیت یافتہ فوجی، انجنیرز، کلرک، ڈاکٹر اور دوسرے ماہرین کی کمی تھی۔چہارم: دوسرے ملکوں نے سلطنت کو کمزور کیا۔ ان میں روس، آسٹریا، برٹش اور فرانسیسی پیش پیش تھے۔پنجم: اور آخری وجہ جنگ عظیم اول میں غلط فیصلہ کیا اور جرمنوں کا ساتھ دیا۔
علامہ کی اکثر نظمیں اردو اور فارسی میں، اسی مرکزی خیال کی عکاسی کرتی ہیں۔ علامہ نے کہا کہ مسلمان نو جوان کو اپنی سوچ اور مقصد زندگی کو ایسے بدلنا ہو گا کہ وہ اپنی ہی نہیں بلکہ پوری مسلمان قوم کی قسمت بدل سکے۔اس پر یہ بہت بڑی ذمہ واری ہے۔علامہ کی شاعری سے مسلمانوں کو اگر عظمت رفتہ دوبارہ حاصل کرنی ہے تو اپنی سوچ بدلنی ہو گی۔جس وجہ سے مغلیہ اور عثمانی سلطنتیں برباد ہوئیں ان کے بارے میں کہا کہ’’ آ تجھ کو بتائوں کہ تقدیر اُمم کیا ہے۔شمشیر و ثنا اول، طائوس و رباب آخر‘‘!
علامہ نے مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کے لیے نوجوانوں سے بڑی امیدیں وابستہ کیں۔ انہیں کہا: سبق پھر پڑھ صداقت کا،عدالت کا، شجاعت کا ۔ لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
علامہ نے بچپن سے ہی مسلمان بچوں کو یہ دعا سکھائی:
’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری۔ زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری؛ زندگی ہو میری پروانے کی صورت یارب۔ علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب ‘‘(یاد رہے کہ پروانے کو شمع سے اتنی محبت ہوتی ہے کہ وہ اپنی جان نثار کر دیتا ہے۔ علامہ بھی چاہتے ہیں کہ مسلمان بچوں کو علم سے اتنی ہی شدید محبت ہو۔ صرف ایک شعر پر اگر عمل کیا جاتا تو مسلمان دنیا کی عظیم ترین قوم جاتے۔
علامہ اقبال کی شاعری جہاں امہ اسلامیہ کے درد میں ڈوبی ہوئی ہے، وہاں وہ اس ملت کو عظمت رفتہ میں واپس لے جانے کے لیے بھی بے چین ہے۔ وہ نہ صرف اعلیٰ تعلیم کے حامل تھے، وہ ایک مفکر بھی تھے۔اس لیے ان کی شاعری عام شاعروں سے بالکل مختلف تھی۔ مسلمانوں کی مٹی پلیت ہوتے دیکھ کر انہیں قدرتی طور پر یہ خیال آیا کہ کیوں؟ کیا اللہ کو ان کی حالت پر رحم نہیں آیا؟ یہ تو ہر وقت اللہ اللہ کرتے تھے۔ علامہ نے واقعی اللہ سے شکوہ کر مارا۔ کہا: ’’جرأت آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو۔شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو‘‘۔ اس کے اشعار لا جواب اور انداز بیان مودبانہ۔ کہتے ہیں’’ تیرے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے۔ بات جو بگڑی ہوئی تھی بنائی کس نے‘‘شکوہ کے تمام اشعار مسلمانوں کے دل کی آواز تھے۔ لیکن پھر بھی مذہب کے ٹھیکیداروں نے احتجا ج کر دیا کہ کیوں شکوہ لکھا۔ علامہ بھی استادوں کے استاد تھے۔ شکوہ کا جواب بھی لکھ مارا، اور پھر ایسی بھگو بھگو کے مسلمانوں کو لگائیں کہ سب چپ کر کے بیٹھ گئے۔جواب شکوہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اللہ نے کہا’’کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں۔ ڈھونڈنے والے کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں؛ تھے تو آباء وہ تمھارے ہی مگر تم کیا ہو۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو‘‘ اور یہ شعر کتنا مشہور ہوا’’ یوں تو سید بھی ہو۔ مرزا بھی افغان بھی ہو۔تم سبھی کچھ ہو، بتائو تو مسلمان بھی ہو؟ ‘‘کچھ اہل دانش کا خیال ہے کہ اصل تو علامہ جواب شکوہ ہی لکھنا چاہتے تھے مگر اخلاقی تقاضہ تھا کہ پہلے شکوہ لکھا جاتا۔
اوپر ہم نے ذکر کیا تھا کہ سلطنت عثمانیہ کے زوال کی ایک وجہ مسلمانوں میں تعلیم کی کمی تھی۔علامہ اقبال نے تعلیم جدید کی ضرورت کا اعتراف اپنی ایک نظم میں کیا۔ ایک شعر پیش خدمت ہے’’اس دور میں تعلیم امراض ملت کی دوا۔ ہے خون فاسد کے لیے تعلیم مثل نیشتر‘‘ مگر افسوس، صد افسوس، مسلمانوں نے تعلیم جدید کو نہیں سمجھا۔ سر سید احمدخان نے لاکھ سر پٹکا، مگر ملا حضرات نے دور جدید کی تعلیم جس میں انگریزی،ریاضی، اور سائنس کے مضامین شامل تھے انکو رد کر دیا۔صرف انگریزی سکولوں میں یہ تعلیم دی گئی۔اور لڑکیوں کے لیے تو علامہ صاحب بھی کالج کی تعلیم کے حق میں نہیں تھے۔ اور تعلیم جدید پر بھی ان کو تحفظات تھے۔ کہتے ہیں’’ہم سمجھتے تھے لائے گی فراغت تعلیم۔ کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ‘‘علامہ نے از راہ تفنن یہ بھی ارشاد کیا’’ لڑکیاں پڑھ رہی ہیںانگریزی۔ ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ‘‘
علامہ کی دلی خواہش تھی کہ مسلمان نو جوان اپنے اندر ایسی قوت پیدا کریں کہ وہ مغربی سپر مین سے بھی آگے نکل جائے۔ اسے مر د مومن کہا گیا۔یہ ایک سچا مسلمان ہے ، لیکن اس کی ایک نگاہ سے تقدیریں بدل سکتی ہیں۔ وہ یورپ کے سپر مین سے بہت زیادہ طاقتور ہے۔یورپی سپر مین میں غیر فطر تی خوبیاں ہیں لیکن مسلمان مرد مومن میں سب فطرتی قوتیں ہیں۔اس لحاظ سے وہ سپیریر ہے۔
آہ۔ علامہ اقبال کو مسلمانوں نے ایک اونچے مرتبہ پر تو بٹھلا دیا، لیکن اس کے اصل اور اہم پیغام کو بھلا دیا۔بچے سکولوں میں اس کی لکھی ہوئی دعا تو پڑھتے ہیں لیکن اس کو سمجھتے نہیں ہیں۔ نہ کوشش کی جاتی ہے کہ اقبال کے اشعار کو سمجھا جائے۔اقبال کا پیغام صرف ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے نہیں تھا وہ تو پورے عالم اسلام کے لیے تھا۔لیکن افسوس اس کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ مسلمانوں نے تعلیم میں کوئی کارنامہ دکھایا ، نہ سائنس میں اور نہ ہی صنعتی ترقی میں اور اس میں غریب اور دولتمند کا کوئی فرق نہیں ہے۔ اسکی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ علامہ کو ایسے شاگرد نہیں ملے جو ان کے پیغام کو بڑھاتے، لوگوں تک پہنچاتے اور عملی زندگی میں لے آتے۔ کچھ اور بھی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ لیکن ما حصل ایک ہی ہے کہ اقبال کے اقوال زرین سن کر واہ واہ تو سب نے کی لیکن ان پر عمل کسی کسی کو نصیب ہوا۔ شاید اس لیے کہ مسلمانوں کی پرانی عادت ہے۔ قران مجید کی تلاوت تو ذوق شوق سے کرتے ہیں، بلکہ حفظ بھی کر لیتے ہیں لیکن اس کی ہدایات پر عمل کرنے کی توفیق کسی کسی کو ہی ہوتی ہے۔
