0

انتخاب مقدم ہے!

رنگِ قیامت
ایک منظر ہے یہ قیامت کا
گونجتی ہے صدائے اسرافیل
ہے قیامت ہر ایک رنگ میں نئی
رنگ دکھاتا ہے ایسے اسرائیل!

آج خدا خدا کر کے پہلی بار انتخابی کمیشن نے 11فروری 2024 انتخاب کی تاریخ کا اعلان کیا ہے۔ ہو سکتا ہے ہمارا یہ کالم شائع ہونے تک اس میں اور کوئی تبدیلی رونما ہو جائے۔ آج ہی اعلان ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن کا ایک وفد صدر مملکت محترم علوی صاحب سے ملاقات کرے گا جس کا عندیہ ہماری عدلیہ نے بھی دیا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ میں ابھی یہ مقدمہ بھی اپنے نتیجے کا انتظار کررہا ہے کہ آئین کے مطابق انتخابات 90دن میں ہونے چاہئیں دیکھیں وہاں سے کیا فیصلہ صادر ہوتا ہے۔ اس وقت نگران حکومت بھی یہ کہہ کر اپنا دامن بچا چکی ہے کہ انتخابات کا اعلان کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے لیکن اس حکومت کے بعض اقدامات 18 ماہ برسراقتدار حکومت کی طرف اس کے جھکائو کی نشاندہی کرتے ہیں، دیکھیے اس جھکائو کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ اگر نگران حکومت چاہے تو پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کو یکساں مواقع اور یکساں آسانیاں فراہم کر سکتی ہے۔ بڑے دکھ اور تعجب کی بات ہے کہ ایک جماعت کو بڑے بڑے جلسے کرنے کی عام اجازت ہے بلکہ اس ذیل میں اس جماعت کو ہر طرح کی آسانیاں بھی فراہم کی جارہی ہیں جبکہ ایک جائزے کے مطابق ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو جلسہ تو کجا دم مارنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ اگر ان حالات میں انتخابات ہوئے تو یہ جماعت خصوصاً اور پاکستانی عموماً انتخابات کے نتائج کو ماننے سے انکار کر دیں گے اور پھر ملک اور نئے مخمصے میں پھنس جائے گا۔ 18 ماہ برسراقتدار جماعتیں اب خود ایک دوسرے پر مساوی مواقع (Level Playing Field)نہ ملنے پر معترض ہیں۔ کل یہی مشترکہ محاذ حکومت گرانے میں پیش پیش تھا اور آج یہی مشترکہ محاذ ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کررہا ہے۔
؎انقلابات ہیں زمانے کے!
بحیثیت پاکستانی ہم مستقبل پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایک منظر نظر آتا ہے۔ جلد یا دیر میں انتخابات ہوں گے اور منصوبے کے مطابق 4 سال حکومت کرنے والی جماعت کو ’’ممنوع‘‘ تو قرار نہیں دیا جائے گا لیکن اس پر قدغنیں لگا کر اس کی پرواز کو محدود ضرور کر دیا جائے گا اور نتیجتاً ایک مشترکہ colationحکومت قائم ہو گی جو چند ماہ ہی میں ایک دوسرے سے اختلافات کی بنا پر دم توڑ جائے گی۔ پاکستان کو کون چلارہا ہے؟ ہم اس ’’کون‘‘ سے بصد ادب گزارش کرتے ہیں کہ خدارا اب پاکستان کو ’’استحکام‘‘ عطا فرما دیں اس وقت پورے ملک میں ’’حبس‘‘ کا عالم ہے اور ہم رب کائنات کے حضور اسی طرح دعا گو ہیں
؎حبس کی فضا دانش رنگ لائے کیا دیکھیں
پھر خزاں کا عالم ہویا بہار آجائے
مدتوں سے اٹھی ہیں سمت ِآسماں نظریں
کاش اہل گلشن کو اب قرار آجائے!
شروع ہی سے پاکستان میں انتخاب چند بنیادوں پر ہوتے ہیں مثلاً سرمایہ داری، جاگیرداری، برادری، صنعت کاری اور مذہبی کارڈ وغیرہ نتیجتاً عوام کے سچے خادم اور بے لوث کام کرنے والے ہمیشہ پس منظر میں رہ جاے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ عموماً صاحبان اقتدار ملک و قوم کی خدمت کم اور اپنی ’’خدمت‘‘ زیادہ کرتے ہیں اور اقتدار قائم رکھنے اور اُسے طوالت دینے کے لئے ملنے والوں، اعزاء و احباب کو ناجائز طور پر نوازنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے دنیا بھر میں یہ تاثر قائم ہو گیا ہے کہ پاکستان میں صاحبان اقتدار سے کسی طرح کا کوئی بھی کام ’’چمک‘‘ دکھا کر کرایا جا سکتا ہے۔ اب یہ تاثر ختم ہونا چاہیے۔ ہمارے عوام تمام تر مشکلات کے باوجود ’’ایمان اور اعتقاد‘‘ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یوں تو ہر دور میں لیکن خصوصاً ماضی قریب میں بہت مشکلیں اٹھائی ہیں۔ مہنگائی، بیکاری، بیماری، گیس، بجلی، تیل آٹا، چینی چاول ہر چیز ان کی زندگی کو دن بدن مشکل اور گراں بنائے ہوئے ہے۔ ہمیں امید نہیں یقین ہے کہ اس مرتبہ یہ عوام مختلف تراغیب کو پس پشت ڈال کر کسی قابل محب وطن موزوں اور ترغیبات سے بلند صاحبان اقتدار کا انتخاب کریں گے۔ اس ذیل میں بھی ’’کون‘‘ ملک و قوم کے لئے مددگار ہوسکتا ہے اور بیرونی محاذ کے علاوہ اندرونی محاذ پر بھی قوم کو محفوظ کر سکتا ہے۔ یاد رکھیئے یہ وقت رکتا ہے نہ مورخ کا قلم تاریخ ہمارے ہر ہر اقدام کو اپنے صفحات میں محفوظ کر رہی ہے۔ کیا ہم تاریخ کے سامنے شرمندہ ہونا پسند کریں گے؟؟؟؟؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں