0

ہوش کے ناخن لو، یزیدی غاصبو!

مقبوضہ فلسطین اور دنیا کے سب سے بڑے، کھلی ہوا ، کے قید خانہ کے اسیر اہالیانِ غزہ گزشتہ تین ہفتوں سے اسرائیل کے صیہونی درندوں کی بربریت کے شکار ہیں۔ تا حال آٹھ ہزار سے زائد فلسطینی ، جن میں آدھی تعداد معصوم بچوں کی ہے، اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے لقمہء اجل بن چکے ہیں اور ہزارہا زخمی ہیں۔ تین ہفتے میں اسرائیل کی فضائیہ غزہ پر، جو ایک بہت ہی تنگ زمینی پٹی ہے جس کی کل لمبائی 41 کلومیٹر اور حد سے حد چوڑائی بارہ سے پندرہ کلو میٹر ہے، بارہ ہزار انتہائی خطرناک بم گراچکی ہے۔ اتنی تعداد میں تو اسرائیل کے سرپرست اور اسلحہ فراہم کرنے والے سامراجی امریکہ نے بیس برس میں افغانستان میں بھی نہیں گرائے تھے۔ لیکن امریکی سامراج کو اس پر ذرا سی بھی تشویش نہیں ہے کہ اسرائیل، اس کا چیلا، اس کا پروردہ، نہتے اور بے بس فلسطینیوں پر کیا قیامت ڈھا رہا ہے۔ اسے سروکار ہے تو صرف اور صرف اس سے کہ اسرائیل پر کوئی آنچ نہیں آنی چاہئے، اس کے جنگی جنون اور معصوم فلسطینیوں کا لہو بہانے کا اس کا چسکہ اور نہ ختم ہونے والی بھوک پر کوئی قدغن لگنی نہیں چاہئے۔ اس کا عملی ثبوت تو امریکہ بہادر کے وہ اقدامات ہیں جن کے ذریعہ غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور کھلی جارحیت کے خلاف ہر کوشش کو ناکام بنانے کی کوشش دنیا بھر میں امن و آشتی کا یہ منہ بولا ملک کرتا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ نے ہر اس کوشش کو اپنے ویٹو کو استعمال کرکے ناکام بنایا ہے جو غزہ میں جنگ بندی کرنا تو درکنار تئیس لاکھ مظلوم اہالیانِ غزہ کو امدادی سامان کی ترسیل کیلئے رکن ممالک جو عارضی طور پہ جنگ بند کروانا چاہ رہے تھے وہ بھی امریکہ کو قبول نہیں تھیں۔
اسرائیل کی معاونت بس یہیں تک نہیں ہے کہ سامراجی طاقت پوری طرح سے اس کی درندگی کی شریکِ جرم ہے بلکہ اسرائیل کیلئے صدر بائیڈن کے دل میں اتنی محبت کوٹ کوٹ کے بھری ہے کہ انہوں نے اسرائیل کے دورے سے گھر واپس لوٹتے ہی کانگریس سے اس کیلئے 14 ارب ڈالر کی اضافی امداد منظور کروائی اور رہی ہتھیار اور اسلحہ کی بات تو امریکہ کا اسرائیل کو مرزا غالب کے انداز میں یہ مشورہ ہے کہتو مشقِ ناز (ستم) کر خونِ دوعالم میری گردن پر
تو اسرائیل کا جنگی جنون میں مبتلا وزیر اعظم، نیتن یاہو ، جسکی فلسطینی لہو کی پیاس بجھنے پر نہیں آتی، جب اقتدار میں ہوتا ہے غزہ پر حملہ اس کی ترجیحات میں سرِ فہرست ہوتا ہے، چاہے بارہ ہزار بم مظلوموں پر گرائے یا بارہ لاکھ ، امریکہ نے اسے بلینک چیک دیا ہوا ہے کہ میاں، جتنا چاہو ستم توڑو۔ ہم تمہاری اس رائے سے سو فیصد اتفاق کرتے ہیں کہ یہ فلسطینی انسان نہیں ہیں، کم از کم ہمارے اور تمہارے جیسے بندے نہیں ہیں، ہم تو خدا کے پسندیدہ اور محبوب بندے ہیں جس نے ہمیں کھلی چھٹی دی ہوئی ہے کہ جو چاہیں مظالم ڈھائیں ہم سے وہ کوئی مواخذہ نہیں کریگا، نہ جواب طلب کرے گا۔ تو ہم تمہاری اس بات سے متفق ہیں کہ یہ فلسطینی انسان نہیں جانور ہیں جن کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک ہی ہونا چاہئے۔ بائیڈن صاحب ہوں، یا ان کے وزیرِ خارجہ انتونی بلنکن ہوں جو بڑے فخر سے یہ کہتے ہیں کہ وہ اسرائیل جاتے ہیں تو وزیرِ خارجہ بن کر نہیں بلکہ ایک یہودی ہونے کے ناطے، یا یورپ کے وہ دیگر قائدین اور زعماء ہوں جو امریکہ کی ہمنوائی میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور جنہوں نے گھڑی کی چوتھائی میں اسرائیل کی درندگی کا ساتھ یوں دیا کہ جو امداد وہ فلسطینی مہاجرین کو اپنی انسانیت دوستی کے حوالے سے دیا کرتے تھے اسے روک دیا۔ فلسطینی جائیں بھاڑ چولہے میں، فاقوں سے مریں یا غزہ کے ہسپتالوں پر اسرائیلی درندوں کی بمباری سے علاج نہ ہوسکنے کی صورت میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مریں، ان کی تمام تر ہمدردیاں اسرائیل کے ساتھ ہیں اسلئے کہ اسرائیلی خدا کے پسندیدہ بندے ہیں اور فلسطینی تو ان کی کتاب میں بھی بقول نیتن یاہو کے جانور ہیں انسان نہیں۔ اپنی اسرائیل نوازی میں یہ مغربی منافق بھول جاتے ہیں کہ ان کے معاشروں میں تو جانوروں کے ساتھ بھی بدسلوکی جرم ہے تو پھر اگر فلسطینی جانور ہیں تو ان کے ساتھ جانوروں کی سی ہمدردی کیوں نہیں ہورہی؟ اسرائیل بے لگام غزہ پر قیامت ڈھا رہا ہے اسلئے کہ اس کی پشت پر وقت کی سب سے بڑی طاقت کھڑی ہے۔ گویا امریکہ یزید ہے اور اسرائیل کی قیادت ابنِ زیاد جسے کوفہ میں اسی لئے تعینات کیا گیا تھا کہ وہ سید الشہداء کیلئے کسی قسم کی ہمدردی کا سر کچل دے۔ اسرائیل کیلئے ہمارے وقت کے یزید کی سرپرستی سمجھ میں آتی ہے اسلئے کہ اسرائیل اپنے قیام سے لیکر آج تک اپنے وجود کیلئے اس سامرجی سرخیل کا مرہونِ منت ہے۔ اسرائیل کو بنایا ہی اسلئے گیا تھا کہ عرب اور اسلامی دنیا کے سینے میں مغربی سامراج کا خنجر ہمیشہ پیوست رہے اور فلسطینی کبھی سکھ کا سانس نہ لینے پائیں۔ اس خونی تنازعہ میں اسرائیل کے مغربی سرپرستوں کا منشور اچھی طرح سے سمجھ میں آگیا ہے۔ امریکہ اور اس کے مغربی حواریوں نے جس بے غیرتی اور بے شرمی سے تمام انسانی اقدار کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اسرائیلی بربریت کا جیسے ساتھ دیا ہے اس سے ان صلیبیوں کی مسلمان اور اسلام دشمنی پوری طرح سے بے نقاب ہوگئی۔ اور جن احباب نے صلیبی جنگوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے وہ اس سے اتفاق کرینگے کہ مغرب کی عیسائی اقوام کی یہ دشمنی ہزار سال پر محیط ہے اور وقت کے ساتھ یہ بڑھتی ہی رہی ہے کم نہیں ہوئی اور اس کا منہ بولتا ثبوت وہ رویہ ہے جو امریکہ اور اس کے ہمنوا یورپی ممالک نے اسرائیل کی اس سفاکانہ حمایت اور فلسطینیوں کیلئے اپنی انسان دشمنی سے دیا ہے۔
لیکن پاکستان تو سامراج کی دین نہیں ہے نہ ہی پاکستان مغربی نو آبادیاتی نظام کو ایک آزاد ملک کی صورت میں زندہ رکھنے کیلئے بنا تھا۔ اس کے برعکس، پاکستان تو سامراج اور نو آبادیاتی نظام کی شدید مخالفت کے باوجود اس کے بنانے والوں کی ہمت ، عزم اور حوصلے کی وجہ سے وجود میں آیا تھا اور تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ پاکستان بنانے والوں کیلئے جس طرح اپنے ہموطنوں کی آزادی مقدس تھی اسی طرح فلسطینیوں کی آزادی بھی ان کیلئے محترم تھی اور یہی وجہ تھی کہ جس پلیٹ فارم سے 23 مارچ 1940ء کو قراردادِ پاکستان منظور ہوئی تھی اسی پلیٹ فارم سے، اسی دن اور اسی وقت فلسطین کی آزاد مملکت کے قیام کی قرارداد بھی منظور کی گئی تھی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ جماعتِ اسلامی، جی ہاں جماعتِ اسلامی جو پاکستان کے بدمست جرنیلوں کی کٹھ پتلی پی ڈی ایم میں شریک تھی، اگر اسلام آباد میں فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کی مذمت میں مظاہرہ کرنا چاہتی ہے تو پولیس اس کے کارکنوں پر لاٹھیاں برساتی ہے اور انہیں گرفتار کرلیتی ہے؟ جواب اس سوال کا یہ ہے کہ جس طرح اسرائیل کے صیہونی 75 برس سے فلسطینیوں کی زندگیاں عذاب بناتے آئے ہیں من و عن اسی طرح سے پاکستان کے یزیدی جرنیل پاکستان پر عذاب کی صورت مسلط ہیں ۔ صیہونیوں اور پاکستان کے یزیدی جرنیلوں میں یہ قدر بھی مشترک ہے کہ دونوں کا سرپرست اور مربی ایک ہی ہے: سامراج کا خود ساختہ چودہری جس کیلئے ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی مبانی، امام خمینی، نے جو کہا تھا وہ حق و باطل کی پرکھ کرنے کیلئے سو فیصد کھری کسوٹی ہے۔ انہوں نے کہا تھا، اگر کبھی یہ پریشانی ہو، تردد ہو، شک ہو کہ حق کس طرف ہے اور باطل کدھر تو یہ دیکھو کہ امریکہ کس کے ساتھ کھڑا ہے۔ وہ باطل ہوگا تو اس کے مخالف سمت کھڑے ہوجاؤ کہ وہی حق ہے۔
نیتن یاہو یزیدِ عصر کا ابنِ زیاد ہے تو پاکستان کا فرعون، ملت فروش باجوہ کی باقیات میں سے عاصم منیر یزیدِ عصر کا پاکستانی ابنِ زیاد ہے۔ نیتن یاہو کا ہدف، جس کا وہ بار بار اعلان کرتا رہتا ہے حریت پسند اور فلسطینی حق کے پاسدار حماس کو نیست و نابود کرنا ہے، حماس کے وجود کو مٹادینا ہی اس کا مقصدِ حیات ہے اور پاکستان میں عاصم منیر کا ہدف عمران خان کو مٹانا اور اس کی تحریکِ انصاف کو پاکستان کی سیاست سے بیدخل کرنا ہے ۔ جس طرح نیتن یاہو کو سامراجی چودہری کی مکمل آشیر واد ہے کہ وہ جو چاہے فلسطینیوں کے خلاف کرے اس سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی اسی طرح عاصم منیر کو امریکہ کی طرف سے اذنِ عام ہے کہ عمران کو پاکستانی سیاست کیلئے حرفِ غلط بنانے کیلئے وہ جو چاہے حربہ استعمال کرے۔ امریکہ ہی کی تو سازش تھی جسے امریکہ کے غلام جرنیلوں نے باجوہ کی رہنمائی میں سر انجام دیا اور اپنے زر خرید چور، ڈکیت اور گلے گلے تک بدعنوان و کرپٹ سیاسی گماشتوں کی مدد سے عمران کی حکومت کا تختہ الٹوادیا۔ نیتن یاہو فلسطینیوں کا دشمن یوں ہے کہ وہ اس کی غلامی سے آزاد ہونا چاہتے ہیں اور پاکستان کو اپنا مقبوضہ ملک سمجھنے والے جرنیلوں کو عمران سے بغض یوں ہے کہ وہ پاکستان کو کرپشن سے پاک کرنا چاہتا ہے جبکہ ان بد مست یزیدی کارندوں اور غلاموں کا کرپشن اوڑھنا بچھونا ہے۔ باجوہ کی عمران دشمنی شروع ہی یہاں سے ہوئی تھی کہ عمران ان چوروں اور ڈکیتوں کے خلاف کارروائی کررہا تھا جن کے ساتھ مل کر جرنیل بھی ملک کو لوٹتے ہیں اور اپنے گھر بھرتے ہیں۔ عاصم منیر ہو یا باجوہ ان کے حلیف تو زرداری اور نواز یا شہباز شریف جیسے نامی ڈکیت ہیں۔ تو کوئی تعجب نہیں کہ عاصم منیر پھر سے جگت چور نواز کو وزیرِ اعظم بنانے کیلئے اس چور کو لندن سے پاکستان واپس لے آیا ہے اور اس کے ایماء پر پاکستان کی رسوائے زمانہ عدالتیں، پولیس اور بیوروکریسی نواز جیسے چور کا یوں استقبال کررہی ہے جیسے کوئی محسن، وطن کی حالتِ زار پر ترس کھاکے لوٹ آیا ہو۔ پاکستان بنانے والے قائدِ اعظم اور ان کے رفقاء کی روحیں عالمِ بالا میں کیسی بے چین ہونگی کہ جو جگہ پر انہوں نے پاکستان کے قیام اور حصول کی بنیاد ڈالی تھی، اور جو آج مینارِ پاکستان ہے، وہاں نواز جیسے قانون سے مفرور، بھگوڑے اور چور پر گل پاشی کی جارہی ہے۔ نیتن یاہو اور عاصم منیر، یزیدِ وقت کے کارندے ہیں، کردار و گفتار میں یزیدی ہیں لیکن بھول بیٹھے ہیں کہ دنیا کے مالک وہ نہیں ہیں بلکہ وہ ربِ کائنات ہے جو ان جیسے ظالموں کو ڈھیل دیتا رہتا ہے ، ایک حد تک ہی ڈھیل دیتا ہے لیکن پھر اچانک ان کی رسی ایسے کھینچتا ہے کہ انہیں رسوائی اور بربادی کے غار میں ہمیشہ کیلئے روپوش کردیتا ہے۔ پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھنے والے بد مست یزیدی جرنیلوں کو تاریخ کا یہ سبق یاد نہیں ہے، کسی بھی فرعون کو یاد نہیں رہتا لیکن قدرت بہت جلد انہیں یاد دلادیگی کہ وہ بھی اور ان کی شان و شوکت بھی خاک میں پیوندِ زمین ہونے والی ہے۔ حق کو کبھی مات نہیں ہوتی اور باطل کبھی سرخرو نہیں ہوتا۔ یہی قانونِ قدرت ہے اور اللہ اپنی کتابِ مبین میں کہہ چکا ہے کہ اس کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔
تو چلئے، اس قطعہ کے ساتھ اپنی بات تمام کرتے ہیں کہ؎
یوں لگتا ہے ملک ڈبو کر دم لینگے
یہ بدمست یزیدی فوجستان کے
کب سے پنجے گاڑے اپنے بیٹھے ہیں
نوچ رہے ہیں قوم کو سینہ تان!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں